اسلام آباد: سولہ دسمبر انیس سو اکہتر کے سانحہ مشرقی پاکستان کی یاد میں آج پاکستان بھر میں یوم سقوط ڈھاکہ منایا جارہا ہے۔
بنگلہ دیش کی جنگ آزادی، جسے بنگال میں مکتی جدھو اور پاکستان میں سقوط مشرقی پاکستان یا سقوط ڈھاکہ کہا جاتا ہے، پاکستان کے دو بازوؤں یعنی مشرقی و مغربی پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ تھی جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ا بھرا۔
تینتالیس برس قبل مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے ملک کو دولخت کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ شیخ مجیب الرحمن کی مدد سے مکتی باہنی کے نام پر بھارت نے اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل کی اور پھر حکومتِ وقت کیخلاف بغاوت کی فضا پیدا کرکے مغربی پاکستان پر بھی جنگ مسلط کر دی گئی۔
جنگ کا آغاز 26 مارچ 1971ء کو حریت پسندوں، گوریلا گروہ اور تربیت یافتہ فوجیوں (جنہیں مجموعی طور پر مکتی باہنی کہا جاتا ہے) نے عسکری کاروائیاں شروع کیں اور پاکستان کی افواج اور وفاق پاکستان کے حکام اور وفادار اہلکاروں کا قتل عام شروع کیا۔
مارچ سے لے کے سقوط ڈھاکہ تک تمام عرصے میں بھارت بھرپور انداز میں مکتی باہنی اور دیگر گروہوں کو عسکری، مالی اور سفارتی مدد فراہم کرتا رہا یہاں تک کے بالآخر دسمبر میں مشرقی پاکستان کی حدود میں گھس کر اس نے 16 دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ میں افواج پاکستان کو محصور کردیا اور افواجِ پاکستان کو بھارت کے آگئے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا گیا۔
بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے نتیجے میں پاکستان رقبے اور آبادی دونوں کے لحاظ سے بلاد اسلامیہ کی سب سے بڑی ریاست کے اعزاز سے محروم ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب جاننے کے لیے پاکستان میں اس کی حکومت نے ایک کمیشن تشکیل دیا جسے حمود الرحمٰن کمیشن کے نام سے جانا جاتا ہے، کمیشن کی رپورٹ میں ان تمام وجوہات اور واقعات کو رپورٹ کا حصہ بنایا گیا جس کے باعث سقوط ڈھاکہ ہو ا تھا۔
آج کے ہی دن جنرل نیازی نے بھارتی جنرل اروڑا کے سامنے اپنا ریوالور رکھ کر پاک فوج کے ہتھیار پھینکنے کا باضابطہ اعلان کر دیا تھا۔ چار دہائیاں گزر جانے کے باوجود اہل وطن کے دلوں میں اس دن کی تکلیف اور اذیت زندہ ہے۔