بدھ, اپریل 30, 2025
ہوم بلاگ صفحہ 3789

لاہور میں ای اسپورٹس فیسیٹیول کا آغاز

0
لاہور ای اسپورٹس

ایکسپو سینٹر لاہور میں ای اسپورٹس گیمرز گلیکسی فیسٹیول کا آغاز ہوگیا۔

لاہور میں ہونے والے گیمرز گلیکسی فیسٹیول میں ملک کے ٹاپ گیمرز ایکشن میں ہیں، ایونٹ اے اسپورٹس اور اے آر وائی زیب پر براہ راست نشر کیا جارہا ہے۔

گیمز میں نوجوانوں نے پب جی، فری فائر، فیفا اور ٹیکن ایٹ جیسے مقبول گیمز میں دلچسپی ظاہر کی۔

عوام کے لیے فیسیٹیول کی انٹری مفت ہے جبکہ شائقین بھی ایکسپو سینٹر آکر گیمرز کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔

عالمی چیمپئن ارسلان ایش اور برطانوی باکسر سمیت شوبز سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات بھی دو روزہ ایونٹ کا حصہ بنیں گے۔

گلیکسی گیمرز کے سی ای او فخر عالم کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ای اسپورٹس کو فروغ دینا چاہتے ہیں، ایونٹ کو کراچی بھی لے کر جائیں گے۔

واضح رہے کہ ایونٹ کا گرینڈ فنالے کل ہوگا جس میں فیملی انٹرٹینمنٹ کے لیے ینگ اسٹنرز کا کنسرٹ بھی ہوگا۔

’مصر فلسطینی کاز کو ختم ہونے سے بچا رہا ہے‘

0

مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے کہا ہے کہ ہم فلسطینی کاز کو ختم ہونے سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ رفح شہر پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جہاں دس لاکھ سے زیادہ لوگ رہتے ہیں جس پر ردعمل دیتے ہوئے عبدالفتاح السیسی نے جبری انخلا کی مذمت کی ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کے سرحدی شہر سے شہریوں کو نکالے گا اور اتحادیوں کے انتباہ کے باوجود اس پر حملہ کرے گا جس سے بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہو سکتا ہے۔

ٹیلی ویژن تقریر میں صدر السیسی نے کہا کہ مصر نے [جنگ کے] پہلے لمحے سے ہی واضح موقف اپنایا کہ فلسطینیوں کی اپنی سرزمین سے سینائی یا کسی اور جگہ کی جبری ہجرت کو یکسر مسترد کرتے ہیں تاکہ فلسطینی کاز کو ختم ہونے سے بچایا جا سکے اور مصر کی قومی سلامتی کی حفاظت کی جا سکے۔

اسرائیلی فوج نے ٹائمز آف اسرائیل کو بتایا کہ اسرائیلی فوج کی اہم انفنٹری یونٹوں میں سے ایک نہال بریگیڈ کو غزہ سے واپس لے لیا گیا ہے تاکہ رفح پر حملے کی تیاری کی جا سکے۔

اسٹریٹ کرائمز کا شکار شہریوں میں 100 سے زائد موٹر سائیکلیں تقسیم

0

کراچی: اسٹریٹ کرائمز کا شکار ہونے والے شہریوں میں 100 سے زائد موٹر سائیکل تقسیم کرنے کی تقریب ہوئی۔

تفصیلات کے مطابق گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے متاثرہ افراد میں موٹر سائیکلیں اور چیک تقسیم کیے۔ اس موقع پر گورنر سندھ کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر میرے خلاف غلط چیزیں چلائی جارہی ہیں، میں خاموش ہوں مجھے خاموش رہنے دیا جائے۔

کامران ٹیسوری نے کہا کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائمزمیں جاں بحق افراد کے لواحقین سے معافی مانگتا ہوں، مجبور نہ کیا جائے کہ تمام حقائق سے چیف جسٹس کو خط لکھ کر آگاہ کروں۔

انھوں نے کہا کہ میرے اچھے کاموں کو خراب کرنے کے لیے جھوٹا بیانیہ بنایا جارہا ہے۔ میرے آئی ٹی منصوبے سے مخالفین ڈرے ہوئے ہیں۔

گورنرسندھ کامران خان ٹیسوری کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے ایک سال میں سیف سٹی مکمل ہو جائے گا۔

’میں ہار مان کر بابا کے پاس جارہا ہوں‘ بابل خان کی پوسٹ پر مداح تشویش میں مبتلا

0
بابل خان

بالی ووڈ کے مرحوم اداکار بابل خان کی پوسٹ نے مداحوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

فوٹو اور ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام اسٹوری میں مرحوم اداکار عرفان خان کی چوتھی برسی سے قبل بیٹے بابل خان کی پوسٹ شیئر کی اور بعد میں ڈیلیٹ کردی۔

بابل خان نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’کبھی کبھی مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں ہار مان پر بابا کے پاس جارہا ہوں۔‘

بابل خان

عرفان خان کے بیٹے کی پوسٹ پر مداحوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے اور ان سے خیریت دریافت کی جارہی ہے۔

تاہم بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق بابل خان نے اپنی پوسٹ کو 15 منٹ کے بعد ڈیلیٹ کردیا ہے۔

بابل خان نے اداکاری میں ڈیبیو فلم ’قلا‘ سے کیا تھا جبکہ وہ ہدایت کار شجت سرکار کی فلم میں اداکاری کے جوہر دکھائیں گے۔

واضح رہے کہ اداکار عرفان خان تقریبا چار برس قبل 29 اپریل 2020 کو انتقال کرگئے تھے، وہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

0

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی حقوق سے متعلق رپورٹ مسترد کردی۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ کا کہنا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ کے مندرجات غیرمنصفانہ، غلط معلومات پر مبنی اور زمینی حقائق سے ہٹ کر ہیں۔

دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہا انسانی حقوق 2023 کنٹری رپورٹ کو واضح طور پر مسترد کرتے ہیں، امریکی رپورٹس کی تیاری کی سالانہ مشقوں میں معروضیت کا فقدان ہے، رپورٹ پھرعالمی ایجنڈے کی معروضیت کی کمی اورسیاست کی وجہ سے نمایاں ہے۔

ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ یہ رپورٹس واضح طورپردہرے معیار کو ظاہر کرتی ہیں، اس میں غزہ اورمقبوضہ کشمیر کی صورت حال کو نظرانداز یا کم کیا گیا ہے۔ کیا رپورٹ میں غزہ کی تشویشناک  صورت حال کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟ کیا رپورٹ میں غزہ میں شہریوں کے قتل عام کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ غزہ میں نسل کشی پرامریکا کی خاموشی نام نہاد رپورٹس میں بیان مقاصد کیخلاف ہے، پاکستان عالمی انسانی حقوق کے ایجنڈے کو فروغ دینے کیلئے ثابت قدم ہے، پاکستان معروضیت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے عزم پرثابت قدم ہے۔

دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ پیچیدہ مسائل کاجائزہ لیتے وقت مستعدی سےکام لے، رپورٹس کو حتمی شکیل دینے میں معروضیت کا مظاہرہ کرے۔

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ رپورٹس غیرجانبداری اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے، سچ بولنے کے لیے اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

پریم چند: آدمی یا دیوتا!

0

اردو ادب میں پریم چند اور فراق گورکھپوری دونوں کو ان کی تخلیقات کی بدولت بلند مقام و مرتبہ، شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ فراق عہد ساز شاعر اور نقّاد تھے اور پریم چند اردو اور ہندی کے افسانہ نگار تھے جن کی تحریریں جیسے جادوئی اسلوب کی حامل تھیں۔ فراق بھی پریم چند کی تخلیقات سے بہت متاثر ہوئے اور بعد میں اُن سے تعلق بھی استوار ہوا۔

یہ فراق کی تحریر ہے جس میں انھوں نے پریم چند سے اوّلین تعارف، پہلی ملاقات اور تعلقِ خاطر کو بیان کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

ہندوستان میں لگ بھگ ہر سال پندرہ سو کہانیاں یا مختصر افسانے لکھے جاتے تھے۔ اور اردو میں تو ایک ہی آدمی تھا جس نے کہانی لکھنے کے لئے پہلے پہل قدم اٹھایا اور وہ تھے پریم چند۔

جاڑوں کے دن تھے، ہمارے یہاں گھر پر ’’زمانہ‘‘ کا تازہ شمارہ آیا تھا جو بزرگوں کے دیکھنے کے بعد ہمارے بھی ہاتھ لگا۔ اس میں پریم چند کی ایک کہانی چھپی تھی ’’بڑے گھر کی بیٹی۔‘‘ جیسے جیسے وہ کہانی میں پڑھتا گیا، میرے دل کی دھڑکن اور سانسوں کی رفتار تیز ہوتی گئی اور پلکیں بھیگتی گئیں۔ پریم چند سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ آج تک کسی کہانی کا مجھ پر وہ اثر نہ ہوا تھا جیسا کہ اس کہانی کا ہوا تھا۔

اس کے بعد لگ بھگ ہر مہینہ ’’زمانہ‘‘ میں پریم چند کی کہانی چھپتی اور میں اسے کلیجے سے لگا کر پڑھتا۔ ہر مہینہ پریم چند کی نئی کہانی ’’زمانہ‘‘ میں چھپنا دنیائے ادب کا ایک واقعہ تصور کیا جاتا۔ یہ کہانیاں لڑکوں، لڑکیوں، سب کو ایک طرح متاثر کرتی تھیں۔ کہانیوں کو پڑھ کر مولانا شبلی جیسے عالم کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے اور وہ کہہ اٹھتے تھے کہ ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں میں ایک بھی ایسا سحر نگار نہیں ہے۔ لوگ سوچتے تھے کہ پریم چند آدمی ہیں یا دیوتا۔

کچھ سال بیت گئے۔ میں امتحانوں میں کامیابی حاصل کرتا ہوا بی۔ اے میں آچکا تھا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں الہ آباد سے اپنے وطن گورکھپور آ گیا تھا۔ ایک دن شام کو گورکھپور میں ایک بڑے بینک کی بلڈنگ میں سیر کرنے کے لئے نکل گیا تھا۔ وہاں میرے ایک دوست مہابیر پرساد پود دار ملے، جن کے ساتھ ایک صاحب اور تھے۔ وہ بظاہر ایک بہت ہی معمولی آدمی معلوم ہوتے تھے، گھٹنوں سے کچھ ہی نیچے تک کی دھوتی، کرتا، جو عام کرتوں سے بہت چھوٹا کٹا ہوا تھا، پیروں میں معمولی جوتا۔ میں پود دار سے نئی کتابوں کے بارے میں باتیں کرنے لگا۔ ان کے ساتھی بھی گفتگو میں شریک ہوگئے اور بات پریم چند کی آگئی۔

پود دار نے مجھ سے پوچھا کہ تم پریم چند سے ملنا چاہتے ہو؟ مجھے ایسا معلوم ہوا گویا وہ مجھ سے پوچھ رہے ہوں، دنیا بھر کی دولت پر قبضہ کرنا چاہتے ہو؟ اس خوش نصیبی پر یقین ہی نہیں آتا تھا کہ پریم چند کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں گا۔ میں نے ان کا بالکل نہ یقین کرنے کے لہجہ میں پوچھا، ’’پرم چند سے ملنا! کیسے، کہاں اور کب؟’‘ دونوں آدمی ہنسنے لگے اور پود دار نے بتایا کہ ان کے ساتھ جو صاحب ہیں وہی پریم چند ہیں۔ میری سانس اندر کی اندر اور باہر کی باہر رہ گئی، بلکہ انتہائی مسرت کے ساتھ میری کچھ دل شکنی سی ہوئی۔ اس لئے کہ پریم چند بہت معمولی صورت شکل کے آدمی نظر آئے اور میں سمجھے بیٹھا تھا کہ اتنا بڑا ادیب معمولی شکل کا آدمی نہیں ہوسکتا۔ پھر بھی پریم چند کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔

یہ جان کر تو میں خوشی سے جھوم گیا کہ پریم چند گورکھپور میں میرے مکان سے آدھے فرلانگ پر نارمل اسکول کے ایک بنگلہ میں مستقل طور پر مقیم رہیں گے۔ میں اور پریم چند تو فوراً گھل مل گئے۔ ہم دونوں ایک ہی مزاج کے تھے۔ دوسرے دن سے تیسرے پہر پریم چند کے گھر جانا میرا روز کا معمول بن گیا۔ پریم چند نارمل اسکول کے سکینڈ ماسٹر اور بورڈنگ ہاؤس کے سپریٹنڈنٹ تھے، اپنے چھوٹے سے بنگلے کے صحن میں چند درختوں کے سائے میں تیسرے پہر چند کرسیاں ڈال لیتے تھے، ایک چھوٹی سی میز بھی لگا لیتے تھے۔ اسی صحن میں ہر تیسرے پہر ملنا میرا روز کا معمول بن گیا تھا۔ شاعری، ادب، کتابیں، مصنف، فلسفہ ہماری گفتگو کے موضوع تھے۔ کبھی کبھی ان لوگوں کا بھی ذکر چھڑ جاتا، جو ذکر کے قابل نہیں ہوتے تھے۔ ایسے بھی مواقع آجاتے جب کہ وہ اپنے بچپن کا حال یا خاندان کی باتیں سنایا کرتے تھے۔ اس طرح ان کی زندگی کاپورا کردار میرے سامنے آ گیا۔

ان کی باتوں میں بڑی معصومیت ہوتی تھی، بڑی سادگی، بڑی بے تکلفی۔ اس طرح باتوں کے دوران انہوں نے بتایا کہ ان کے بچپن کے زمانے میں جب ان کے والد ڈاک خانے کے ملازمت کے سلسلے میں گورا دور میں رہتے تھے، اسکول میں پریم چندکی دوستی ایک تمباکو بیچنے والے کے لڑکے سے تھی۔ اسکول سے واپسی کے وقت اس لڑکے کے گھر پر پریم چند جاتے تھے۔ وہاں بزرگوں میں حقہ کے کش جاری رہتے تھے اور ’’طلسمِ ہوش رُبا‘‘ روزپڑھا جاتا تھا۔ ’’طلسم ہوش ربا‘‘ سنتے سنتے بچپن میں ہی پریم چند کی خوابیدہ خیالی دنیا جاگ اٹھی جیسے ’’الف لیلہ‘‘ پڑھ کر مشہور ناول نگار ڈکنس کا سویا ہوا شعور فن جاگ اٹھا تھا۔ پھر اردو نثر کی روانی بھی پریم چند کے اندر گرج اٹھی۔

پریم چند کا بچپن بہت غریبی میں گزرا۔ باپ کی تنخواہ بیس بچیس روپے تھے۔ پھر ماں سوتیلی تھی۔ تیرہ چودہ سال کی عمر میں چار پانچ روپے کے ٹیوشن کے لئے تین میل جانا اور تین میل آنا پڑتا تھا۔ ایک بار ایسا گھر ملا کہ اسی گھر کے اصطبل میں سائیس کے ساتھ رہنا پڑتا تھا۔ سیکڑوں مواقع ایسے آئے کہ ایک پیسے کے چنے بھنا کر اسی کو کھا کر دن کاٹ دیا۔ اسی زمانے میں ایک ہیڈ ماسٹر نے انہیں ذہین سمجھ کر کچھ سہولیتں بہم پہنچائیں اور اس طرح وہ انٹرنس پاس کر کے کسی اسکول میں بیس بائیس روپے پر ٹیچر ہوگئے۔ ان کے والد نے اسی زمانے میں پریم چند کی شادی بھی کر دی تھی۔ ایسی شادی کہ دوچار ہفتوں بعد ہی بیوی سے جدا ہونا پڑا۔ اسی حالت میں باپ بھی چل بسے۔ سوتیلی ماں اور سوتیلے بھائی کا بوجھ بھی پریم چند کے کندھوں پر آرہا۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دس بارہ سال کی عمر سے لگ بھگ بیس بائیس سال کی عمر تک جیسی تلخ زندگی پریم چند کی تھی، اردو یا کسی زبان کے ادیب کی زندگی شاید ہی اتنی پُر الم رہی ہو۔ ہم اور آپ تو شاید ایسے امتحان میں مٹ کر رہ جاتے۔ اسی دور میں پریم چند نے پرائیویٹ طور پر ایف۔ اے، بی۔ اے اور بی۔ ٹی کے امتحانات بھی پاس کئے۔ محکمۂ تعلیم میں انہیں ملازمت مل گئی۔ وہی زمانہ زندۂ جاوید تخلیقات کا ابتدائی دور ہے جنہیں آج لاکھوں آدمی کلیجہ سے لگائے پھرتے ہیں۔

پریم چند اب اپنی اردو تخلیقات کو ہندی میں بھی شائع کرنے لگے تھے لیکن اسے اگر اردو زبان اور ادب کا جادو نہ کہیں تو کیا کہیں کہ ہندی میں ان کی پہلی ہی کتاب چھپی تھی کہ وہ ہندی کے سب سے بڑے ادیب مان لئے گئے اور اگر وہ اردو نہ جانتے ہوتے اور صرف ہندی جانتے تو اتنی شان دار اور منجھی ہوئی زبان نہ لکھ پاتے۔ یہ وقت لگ بھگ ۱۹۱۹ء کا ہے۔ اسی زمانے میں میں نے آئی۔ سی۔ ایس کی نوکری چھوڑی اور پریم چند نے بھی، جن کی نوکری ایک ہزار روپے تک جاتی۔ عدم تعاون کی تحریک کے سلسلہ میں میرے ساتھ ہی اپنی ملازمت کو خیر باد کہہ دیا۔ اس کے بعد وہ پندرہ سولہ سال اور زندہ رہے۔ اس عرصے میں لگ بھگ دس ناول اور سو کہانیاں ان کے قلم سے نکلیں۔

یہ ہیں وہ یادیں جو پریم چند کے متعلق میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔ پریم چند کی قبل از وقت موت نے اردو ہندی ادب اور ادیبوں کو یتیم کردیا۔ جو ادب درباروں اور رئیسوں کی محفلوں کی چیز تھی، اس زبان و ادب کو پریم چند نے کروڑوں بیگھے لہلہاتے کھیتوں میں اور کسانوں کے جھونپڑوں میں لا کر کھڑا کر دیا۔ ہماری ہزاروں سال کی تہذیب میں بھارت ورش کی دیہاتی زندگی کی آنکھ کھول دینے والی تصویر کشی ہندوستان کے کسی زبان کے کسی ادیب نے نہیں کی تھی۔

آرمی چیف کی جانب سے شہید کسٹمز حکام کو بھرپورخراج عقیدت

0

آرمی چیف کی جانب سے شہید کسٹمز حکام کو بھرپور خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ سینئر فوجی کمانڈرز شہدا کے گھر بھی گئے۔

تفصیلات کے مطابق صوبہ خیبرپختونخوا میں پیش آنے والے 2 مختلف واقعات میں 8 کسٹمز حکام کی شہادتیں ہوئی تھیں۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ آرمی چیف نے شہید ہونے والے کسٹمز حکام کو بھرپورخراج عقیدت پیش کیا ہے۔

ادارے نے جاری بیان میں بتایا کہ سینئر فوجی کمانڈرز شہدا کے گھروں میں گئے جہاں انھوں نے اہلخانہ سے اظہار یکجہتی کیا۔ شہدا کے اہلخانہ نے فوج کے اظہار یکجہتی پر اظہار تشکر کیا۔

آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ شہدا اور غازی ہمارا فخر ہیں، تمام پاکستانی شہدا اور غازیوں کا مکمل احترام کرتے ہیں۔

جاری بیان میں کہا گیا کہ آج کا امن و استحکام شہدا کی مرہون منت ہے، پوری قوم شہدا کے خاندانوں کو سلام پیش کرتی ہے۔

غزہ میں اسرائیلی بمباری سے بیلیجم کا کارکن بیٹے سمیت قتل

0

غزہ کے جنوبی شہر رفح پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری میں بیلجیئم کا امدادی کارکن اپنے 7 سال بیٹے سمیت ہلاک ہو گیا۔

ترقیاتی تعاون اور شہری پالیسی کی وزیر کیرولین گینز کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے جنوبی غزہ کے شہر رفح میں ایک حملے میں بیلجیئم کے ایک امدادی کارکن اور اس کے سات سالہ بیٹے کو ہلاک کر دیا۔

انہوں نے ایکس پر لکھا کہ یہ انتہائی دکھ کے ساتھ ہے کہ مجھے اطلاع ملی کہ کل رات اسرائیلی بمباری سے ہمارا ایک کارکن ہلاک ہو گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عبداللہ نبھان اور اس کا 7 سالہ بیٹا جمال رفح پر حملے میں مارے گئے۔

غزہ کی پٹی کے دیگر حصوں سے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں سمیت تقریباً 25 افراد رہائش پذیر ایک عمارت پر حملے سے کم از کم سات افراد مارے گئے تھے۔

اسرائیلی حملے میں بیلجیئم کے ترقیاتی ادارے اینابیل کے ایک ملازم اور اس کے بیٹے کی ہلاکت کے بعد وزیر خارجہ حدجہ لہبیب نے اسرائیل کے سفیر کو طلب کیا ہے۔

لہبیب نے کہا کہ شہری علاقوں اور آبادیوں پر بمباری بین الاقوامی قوانین کے منافی ہے میں اس ناقابل قبول فعل کی مذمت کے لیے اسرائیلی سفیر کو طلب کروں گی اور وضاحت طلب کروں گی۔

بانی پی ٹی آئی نے توشہ خانہ کیس میں کوئی غلط کام نہیں کیا، علی امین گنڈاپور

0

اسلام آباد: وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے توشہ خانہ کیس میں کوئی بھی غلط کام نہیں کیا۔

تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کیخلاف توشہ خانہ کیس جعلی اورغلط بنایا گیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی اور کارکنان نے قوم کو جگا دیا ہے۔

وزیراعلیٰ کے پی علی امین نے کہا کہ قوم جاگ چکی ہے اپنے حق کیلئے لڑنا جانتی ہے، کمزور لوگ کبھی آواز نہیں اٹھا سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو کہتا ہوں قوم جاگ چکی ہے، بانی پی ٹی آئی کو کہتا ہوں کہ قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے۔

علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ آج بھی کہتا ہوں اپنی اصلاح کرلیں ورنہ آنے والی نسل معاف نہیں کریگی، دنیامیں کہیں بھی مسلمانوں کیخلاف زیادتی ہوگی آواز اٹھائیں گے۔

جو کچھ ایوان میں ہوتا رہا اب یہ نہیں ہونے دیں گے، فیصل واوڈا

0
فیصل واوڈا

اسلام آباد: سینیٹر فیصل واوڈا کا کہنا ہے کہ جو کچھ ایوان میں ہوتا رہا اب یہ نہیں ہونے دیں گے قانون بنائیں گے تو عمل بھی کروائیں گے۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق فیصل واوڈا نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو حق نہیں دیں گے کہ وہ باہر سے صادق و امین کا سرٹیفکیٹ جاری کرے، ایسا نہیں ہوگا کہ آپ ہماری پگڑیاں اچھالیں۔

فیصل واوڈا نے کہا کہ ہمارے ہی بنائے قانون کو آپ اپنے اوپر لاگو نہیں کرتے ہم پر کرتے ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ قانون ہم پاس کریں اور تشریح اپنی مرضی سے کی جائے، ہم قانون کی تشریح کریں گے اور کروائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ بیان حلفی کا قانون ہم پر لاگو ہوتا تو سب پر بھی لاگو ہوگا۔

فیصل واوڈا کا کہنا ہے کہ آج ایوان میں پہلا دن ہے میں کسی کا نام لینا مناسب نہیں سمجھتا، اس ایوان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو چاروں طرف کھیل رہے ہیں ہمیں ایسے لوگوں کو بے نقاب کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ بھٹو کی پھانسی دینے والے کا احتساب کیوں نہیں ہوا، ریکوڈک کیس میں ہم نے اربوں ڈالر کا نقصان کرلیا یہ نقصان ہم کیسے بھریں گے، نسلہ ٹاور کے معصوم بچوں کو بے گھر کردیا گیا۔

سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ سوشل میڈیا پر جو الزامات دیکھ رہا ہوں توقع کرتا ہوں اس پر آگے بڑھ کر وضاحت دی جائے۔