کراچی : اردو کے نامور شاعر اور ادیب رئیس امروہوی کو اپنے مداحوں بچھڑے ستا ئیس برس بیت گئے،ان کے دلوں کو چھولینے والے اشعار آج بھی دنیا بھرمیں پسندیدگی کی انتہاء پر ہیں، معروف شاعر ،ادیب، کالم نگار رئیس امروہوی کی آج ستائیسویں برسی منائی جارہی ہے۔
صُبحِ ازل سے شامِ ابد تک ہے ایک دِن
یہ دِن تڑپ تڑپ کے بسر کر رہے ہیں ہم
ہم اپنی زندگی تو بَسر کر چُکے رئیس
یہ کِس کی زیست ہے جو بَسرکررہے ہیں ہم
ادب سےمحبت کرنیوالےاردو کے اس عظیم سرمایہ کوبائیس ستمبر انیس سو اٹھاسی کو نامعلوم افراد نے قتل کرکے ابدی نیند سلا دیا۔
ملک الموت سے ٹکرا کے رئیس
دیکھنا ہے کہ کہا ں گرتے ہیں
ہم کہ اس شہر کے بازاروں میں
سر ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں
ممتاز شاعر، دانشور،کالم نگار، بات کی جائےقطعہ نگاری یا پھر ہو وہ مقام اعلیٰ نثر نگاری کا رئیس امروہوی نے ملکی اور غیر ملکی سطح پر بے پناہ پذیرائی حاصل کی جو ان کی شہرت کی وجہ بنی۔ شاعری کے علاوہ نثر نگاری میں بھی انہوں نے اپنا نام پیدا کیا۔ رئیس امروہی نے مختلف موضوعات پر بھی کئی کتابیں تصنیف کیں۔
عظیم شاعر امروہہ کے معروف ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے، آپ کے والد علامہ سید شفیق بھی شاعر اور عالم تھے، رئیس امروہوی کا اصل نام سید محمد مہدی تھا، کراچی آنے کے بعد اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور ہمیشہ کیلئے کراچی میں ہی رچ بس گئے۔
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
کیوں جان حزیں خطرہ موہوم سے نکلے
کیوں نالہ حسرت دل مغموم سے نکلے
آنسو نہ کسی دیدہ مظلوم سے نکلے
کہہ دو کہ نہ شکوہ لب مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
رئیس امروہوی کے شعری مجموعوں میں الف، پسِ غبار، لالہِ صحرا، ملبوسِ بہار،حکایات، آثار اور قطعات کے چار مجموعے شامل ہیں۔جبکہ مراقبے اور پیرا سائیکالوجی کے موضوعات پربھی ان کی تصانیف موجود ہیں۔ ان کا تعلق برصغیر کے ایک علمی ادبی گھرانے سے تھا۔ ان کے ایک بھائی جون ایلیا بھی صاحب طرز شاعر تھے۔