نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
ڈریٹن کی آنکھ کھلی تو اسے کچھ دیر تک یاد ہی نہ آیا کہ وہ ہے کہاں پر۔ وہ قلعے کے ٹھنڈے فرش پر لیٹ کر سو گیا تھا، جس کی وجہ سے اس کی پیٹھ پر سرخ نشان پڑ گیا تھا، وہ پیٹھ کھجاتے ہوئے باہر نکلا تو بارش کی وجہ سے ہر طرف کیچڑ پھیلا ہوا تھا۔ جھیل پر آکر وہ کشتی میں دوسری طرف اتر گیا، اچانک اسے یاد آیا کہ اسے یہ کشتی تلاش کرتے ہوئے کتنی زحمت اٹھانی پڑی تھی، اسے یہ کشتی ایک جھاڑی سے ملی۔ اس نے سوچا کہ کشتی کو ایسی جگہ چھپانی ہوگی کہ کوئی اور نہ ڈھونڈ سکے، یہ سوچ کر اس نے کشتی کو کھینچ کر ایک غار میں چھپا دیا۔
اسے بھوک لگی تھی اس لیے وہ گاؤں کے بالکل باہر ایک چھوٹے سے کیفے میں جا کر بیٹھ گیا۔ جب وہ اپنے آرڈر کا انتظار کر رہا تھا تو کیفے میں دو چھتریاں اندر داخل ہوئیں۔ چھتریاں بند ہوئیں تو ڈریٹن نے ویٹرس کو سنا۔ وہ ان دونوں سے کہہ رہی تھی: ’’جون! سوسن! آپ ایڈنبرا سے واپس آ گئے، جنازے میں شرکت ہوئی؟‘‘ انھوں نے جواب میں کہا کہ جنازے پر تو پہنچے تھے تاہم جب واپس گھر آئے تو گھر کی حالت ناقابل یقین حد تک تباہ دیکھی۔ ہمارے گھر میں کوئی شیطان گھس گیا تھا جس نے سب کچھ تباہ کر کے رکھ دیا تھا، اس شیطان نے ہمارے کپڑے بھی چرائے۔ ڈریٹن اپنی شرمناک کارکردگی سن کر دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا۔ ویٹرس نے جون اور سوسن کو بتایا کہ کسی نے مائری مک ایلسٹر کے گھر کے ساتھ بھی یہی کیا تھا۔
ڈریٹن نے پہنے ہوئے کپڑوں کی طرف دیکھا اور پریشان ہو گیا کہ اگر انھوں نے پلٹ کر دیکھا اور کپڑے پہچان لیے تو مسئلہ ہو جائے گا۔ وہ دبک کر تب تک بیٹھا رہا جب تک جون اور سوسن اٹھ کر نہ چلے گئے۔ اس کے بعد وہ تیزی سے اٹھا اور بل دیے بغیر نکل گیا۔ ویٹرس اس کے پیچھے آوازیں دیتی رہ گئی۔ اس کے بعد وہ شہر کی طرف نکل کر ادھر ادھر گھومتا رہا، اس نے ایک دکان سے نیا کوٹ بھی خریدا اور سوسن کے گھر سے اٹھایا ہوا کوٹ پھینک دیا۔ ہلکی بارش اب بھی برس رہی تھی، اس کے دماغ پر پہلان جادوگر اور بھیڑیوں کے حملے کا خیال اب بھی طاری تھا اور اسے وہ درد ابھی محسوس ہو رہا تھا۔ یکایک اس نے فیونا کے خلاف شدید نفرت محسوس کی، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ جادوئی گولہ چھین لے گا اب ان سے، اور پہلان جائے بھاڑ میں۔
وہ اینگس کے گھر کی طرف چل پڑا، اور وہاں پہنچ کر اس نے دروازہ کو لات مار کر کہا: ’’کھولو دروازہ، احمقو، مجھے جادوئی گولہ چاہیے، اور مجھے وہ سب کتابیں بھی چاہیئں، میں تم سب کو مار دوں گا۔‘‘
جیزے کتاب ہاتھ میں لیے بیٹھا تھا، اس نے کتاب نیچے رکھ دی اور جا کر دروازہ کھول کر کہا: ’’تم نشے میں ہو، جاؤ گھر چلے جاؤ۔‘‘
لیکن ڈریٹن نے اسے دھکا دے کر نیچے گرا دیا: ’’ہٹ جاؤ میرے راستے سے، مجھے یہ گیند ابھی کہ ابھی چاہیے۔‘‘ وہ اینگس کے گھر میں داخل ہوا اور میز پر گیند اور کتابیں دیکھ کر خوش ہو گیا۔ لیکن پیچھے سے جیزے نے اس کی گردن پر کہنی کا ایک زور دار وار کر کے اسے فرش پر گرا دیا۔ اس کے کانوں سے جیزے کی آواز ٹکرائی: ’’تم نے پہلے بھی مجھ پر وار کیا تھا لیکن اب دوبارہ ایسا نہیں ہوگا لڑکے۔‘‘
ڈریٹن واقعی نشے میں تھا، اور لڑائی کے قابل نہیں تھا۔ جیزے نے اس کے سر پر ٹھوکر مار کر اسے بے ہوش کر دیا۔ پھر گھر میں رسی تلاش کر کے ڈریٹن کو اس سے اس طرح باندھ دیا کہ وہ جنبش بھی نہ کر سکے۔ جب وہ واپس بیٹھ کر کتاب پڑھنے لگا تو فیونا اور باقی بھی پہنچ گئے۔ وہ ڈریٹن کو بندھے دیکھ کر حیران ہوئے۔
(جاری ہے)

Comments