23.8 C
Dublin
منگل, مئی 21, 2024
اشتہار

امیر خسرو: مؤرخین کیا بتانا چاہتے ہیں؟

اشتہار

حیرت انگیز

مؤرخین امیر خسرو کے بارے میں ہمیں جو کچھ بتانا چاہتے ہیں، مجھے تو وہ غیرمتعلق ہی سا معلوم ہوتا ہے۔

وہ 1253 میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے آپ کو ہندوستانی کہتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے۔ مؤرخین اس بات پر بہت زور دیتے ہیں کہ وہ ایسے ترک خاندان سے تھے جسے منگولوں نے گھر سے بے گھر کر دیا تھا۔ ان کے والد نے شاہی افسروں کی حیثیت سے خاصی کامیاب زندگی گزاری تھی، لیکن خسرو کا لڑکپن ہی تھا جب ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ایک اور عزیز نے خسرو کی سرپرستی کی۔

خسرو جب بڑے ہو گئے تو اس زمانے کے عام رواج کے مطابق انہیں ایسے امراء کی تلاش ہوئی جو ان کے مربی بن سکیں۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ انہیں پڑھایا جائے۔ ان کے استادوں نے پہلے یہ کوشش کی کہ انہیں عام ڈھرے ہی کے مطابق تعلیم دی جائے اور پھر شعر گوئی سے جو انہیں غیرمعمولی طبعی مناسبت تھی اسے سنوارنے میں انہوں نے مدد کی۔ شاعر ہی کی حیثیت سے امراء اور پھر بادشاہوں کے درباروں میں ان کی آؤ بھگت ہوئی اور مؤرخ کے لیے یہ بہت دلچسپی کی بات ہے کہ خسرو نے اپنے مربیوں کی فتوحات کے تاریخی واقعات کو منظوم کر دیا ہے۔ یہ معاصرانہ ماخذ ہیں اور اسی لیے ان کی بڑی قدر و قیمت ہے۔

- Advertisement -

لیکن شعری کارناموں کی حیثیت سے یہ مغلق، پرتکلف اور بوجھل ہیں۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ انہیں پڑھنے میں مزہ نہیں آتا۔ لیکن معمولی واقعات کے بیچ بیچ میں جنہیں بڑھا چڑھا کر بیان کرنے میں خسرو نے اپنی مشاقی دکھائی ہے بہت ہی حسین غزلیں بکھری ہوئی ہیں۔ ان سے خسرو کو یقیناً اس تھکا دینے والے تکلف و تصنع سے نجات اور سکون مل جاتا ہوگا۔ ان کی وجہ سے ان کے دل کا بوجھ بھی ہلکا ہو جاتا ہوگا کیونکہ وقائع صرف گراں قدر انعامات حاصل کرنے کے لیے لکھے جاتے تھے اور ایک اعتبار سے یہ خسرو اور ان کے زمانے کی غلط نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے لکھنے میں خسرو کو اپنی طبیعت کے خلاف فاتحین کے سخت سیاسی مزاج کو قبول کرنا پڑتا تھا۔ لڑائیوں اور جنگجو سپاہیوں کو ایسے مذہبی اور تہذیبی رنگ میں پیش کرنا پڑتا تھا جوان میں ہوتا ہی نہیں تھا۔ معمولی معمولی آدمیوں اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو خلاف قیاس مبالغے کے ساتھ بڑھا چڑھا کر بیان کرنا پڑتا تھا، صداقت اور انصاف کا خیال کیے بغیر طرف داری کرنی پڑتی تھی۔

اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جن بادشاہوں، امرا اور افواج کو خسرو نے ان وقائع میں بڑھا چڑھا کر دکھایا ہے وہ زندگی، خوشی اور مال و املاک کو برباد کر سکتی تھیں اور مصیبت اور عذاب میں مبتلا کر سکتی تھیں۔ یہ ایسی باتیں نہیں تھیں جن سے خسرو کے دل پر کوئی اچھا اثر پڑتا یا یہ ان کے تخیل کو ابھارتیں۔ معلّم اخلاق اس کی توجیہ یوں کرے گا کہ ایسا ضرورت کے تحت ہوا، لالچ کی وجہ سے نہیں، مجبوری تھی جس نے خسرو کو امرا اور بادشاہوں کا قصیدہ خواں بنا دیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خسرو اور ہی طبیعت کے آدمی تھے۔ ان کا تعلق کسی اور دربار سے اور کچھ اور ہی لوگوں سے تھا۔

تاریخ جو کچھ ہمیں بتاتی ہے وہ ان ترکوں کی سیاسی اور فوجی سرگرمیوں کے بارے میں ہے جنہوں نے ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کی۔ مجھے تویقین نہیں آئے گا کہ اگر کوئی یہ کہے کہ ان خاندانوں کی تعداد بیس ہزار سے زیادہ تھی۔ ان تمام ترکوں میں سب کے سب پیشہ ور سپاہی نہیں تھے اور ان میں جو سپاہی پیشہ تھے بھی، انہیں ایسے مؤرخین سے زیادہ واضح طور پر یہ احساس ہو گیا ہو گا جو ہمیں یہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ ایک وسیع ملک میں بہت ہی اقلیت میں تھے۔ میرا مقصد ان کے تصورات اور ان کی کامیابیوں کی اہمیت کم کرنا نہیں ہے۔ میں تو صرف اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ان تصورات اور کامیابیوں کا ایک خاص سماجی پس منظر تھا اور ہمارے مؤرخین نے ابھی اس پر توجہ کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ پورے کا پورا ملک سیاسی رقابتوں میں مبتلا نہیں تھا۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ پورے کے پورے ملک نے معرکہ آرائیوں میں حصہ نہیں لیا۔ ملک میں امن و امان تھا، خیر خواہی تھی، افہام و تفہیم اور سمجھوتے کی فضا تھی جسے قوی روحانی رجحانات سے مدد ملتی تھی۔

اس زمانے کے ہندوستان کے سماجی پس منظر میں شاید سب سے زیادہ اہم عنصر صوفیوں اور خصوصاً چشتیہ سلسلے کے صوفیوں کا اثر تھا۔ آج ہم ان کی سماجی قدر و قیمت یا اہمیت پر بحث کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے سامنے انسان دوستی کی سرگرمیوں کا کوئی منصوبہ، کسی قسم کا کوئی پروگرام نہیں تھا، ان کے مقاصد واضح نہیں تھے۔ وہ تو بس کسی بھی جگہ تکیہ لگا لیتے، عبادت کرتے اور لوگوں سے باتیں کرتے، وہ روحانی وعظ و پند بیان کرتے اور کبھی کبھی ان لوگوں کو بالواسطہ عملی رشد و ہدایت دیتے جنہیں اس کی خواہش ہوتی، ان کے کوئی سیاسی تصورات یا مفادات نہیں تھے اور اگر علانیہ زیادتیاں ہوتیں تو وہ دلوں کے بدلنے کی دعائیں کرتے۔

آج ہمیں یہ بے عملی معلوم ہوتی ہے اور ہم اس کی اثرانگیزی محسوس نہیں کر سکتے۔ صوفی کو ’شاہ‘ یا ’بادشاہ‘ کے نام سے یاد کیا جانے لگا تھا۔ اس کی گدی شاہی تخت کے برابر سمجھی جاتی اور جب لوگ ان سے ملنے آتے تو شاہی دربار کے آداب ہی برتے جاتے۔ بادشاہ ہزار بے گناہ آدمیوں کو مروا سکتا تھا، اس بات کو قسمت کی خرابی پر محمول کیا جاسکتا تھا لیکن اگر وہ کسی صوفی کے خلاف کوئی قدم اٹھاتا تو اس کا تخت ہی خطرے میں پڑ جاتا تھا۔

امیر خسرو دلّی کے عظیم صوفی حضرت نظام الدین اولیاء کے حلقہ خاص میں شامل تھے اور ایک مرتبہ کسی پر ان کا اثر ہو جانے کا مطلب یہ تھا کہ اب اس پر طاقتور سے طاقتور بادشاہ کا بھی اثر نہیں ہو سکتا۔ اس غیر معمولی اور دیرپا اثر کا نتیجہ ہوتا تھا ہمدردی اور رواداری کے جذبات کی پرورش اور ان تمام عقائد کا احترام جنہیں لوگ سچے دل سے مانتے ہیں اور ثابت قدمی کے ساتھ ان پر عمل کرتے ہیں۔ حضرت نظام الدین اولیاء کی مثال سے امیر خسرو کے سامنے اپنی ذہنی اور فنکارانہ صلاحیتوں کو کام میں لانے کا ایک وسیع میدان کھل گیا۔ ان کے لیے کچھ بھی اجنبی، غیرخالی ازعلت یا ایسا نہ رہا جس سے دلچسپی نہ لی جائے۔ معلوم ہوتا ہے کہ گاؤں تک میں بھی ان کا جی لگتا تھا اور یہ دیکھنے اور سمجھنے میں بھی کہ عورتیں اور مرد کس طرح زندگی بسر کرتے تھے، ان کے احساسات کیا تھے اور ان کے رویے کیسے تھے۔

معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کئی زبانوں کا مطالعہ کیا تھا اور اب بھی بیسیوں ایسے شعر مل جاتے ہیں جن میں انہوں نے الفاظ کو بڑے دل فریب انداز میں تفریحاً استعمال کیا ہے۔ ان کے پیر و مرشد نے ان کی دنیاداری کو معاف کر دیا تھا۔ افکار وعقائد کے بارے میں خسرو جو بے تکلفی برت لیتے تھے، اس پر اور ان کی شاعری پر چاہے اس میں عشق وعاشقی ہی راہ پاگئی ہو، وہ مسکرا دیتے تھے۔ خسرو کی غزلوں میں ان کے مرشد کی شخصیت ہر جگہ اور ہر شکل میں جھلکتی ہے۔ ایک خود دار ہیرو کی شکل میں بھی، ایک ایسی حسین عورت کی شکل میں بھی جس کے حسن کی تعریف نہیں کی جا سکتی۔ میخانہ کے پیرمغاں کی حیثیت سے بھی، انتہائی حسین اور ظالمانہ حد تک بے نیاز ترک کی حیثیت سے بھی جو شراب روحانی سے سرشار کر رہا ہو اور ان کے مرشد ان باتوں کا برا نہیں مانتے تھے۔

ان کو تو حقیقت میں خوشی ہوتی ہوگی اس وقت جب خسرو مروجہ ادبی زبان و بیان کو چھوڑ کر ایک ایسی زبان میں شعر کہتے ہوں گے جسے وہ ’ہندی‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ صوفیاء بول چال کی زبان کو اپنانے اور سنوارنے میں یقین رکھتے تھے اور عوامی بولی کو اعلٰی روحانی خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنانے میں انہوں نے ہی پہل کی تھی۔ لوک شاعری کے اثر سے خسرو نے عورت کو عاشق کے روپ میں پیش کیا اور اس زمانے کی شاعری کے جو نمونے ہم تک پہنچے ہیں ان میں سے کوئی بھی اس سے زیادہ پرلطف نہیں ہے جتنی امیر خسرو کی وہ غزلیں جن میں فارسی اور ہندی دونوں ملی جلی ہیں۔ لیکن تعداد کی بنیاد پر ہی فیصلہ کیا جائے تو ہندوستانی انداز میں عشق کا یہ اظہار ادبی تفریح ہی معلوم ہوتا ہے۔

امیر خسرو کا وہ کلام جس کی وجہ سے ان کا نام اب تک مشہور ہے، وہ غزلیں ہیں جو انہوں نے ایسی محفلوں میں گائی جانے کے لیے لکھیں جن میں موسیقی اور شاعری سے مذہبی جوش اور روحانی وجدان کو تقویت ملتی تھی۔ ان میں سے بہت سی غزلوں میں ایسے عقائد کا اظہار ہے جو مسلمانوں کے مروجہ انداز نظر کے اعتبار سے بدعتی ہیں لیکن اس بدعت کے پیچھے دراصل انسانیت کی صوفیانہ روایت تھی، مذہب کی ایسی تعبیر کی روایت تھی جس سے مذہب کو ماننے والے کی مذہبیت تو بڑھتی رہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اسے رسمیات کے بندھنوں سے آزاد بھی کر دے۔ اس سے مسلمان شاعر کو مکمل آزادی مل جاتی تھی اور ایک خاص قسم کا روحانی مرتبہ بھی۔ اس سے بے تکلفی اور احترام کا، حسن اور غم کا، شاعرانہ جرأت اور روحانیت کا وہ امتزاج پیدا ہو گیا جو مسلم تہذیب کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ خسرو کی غیرمعمولی تخلیقی قوت میں مسلم تہذیب کے یہ وصف غالباً سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ خسرو کی شخصیت ایک افسانہ سی بن گئی ہے۔ ان کے معاصرین انہیں طوطی ہند کہتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ان کا فارسی کلام ایران کی بہترین شاعری کے ہم پلہ ہے۔

ہندوستانی موسیقی میں انہیں مہارت حاصل تھی اور وہ خاص خاص راگ راگنیوں کے موجد تھے۔ کہا جاتا ہے کہ دیہات کی عورتوں سے وہ شوخی کر لیتے تھے، انہیں اپنی پہیلیوں اور لطیفوں سے خوش کر دیتے تھے اور حیران پریشان بھی۔ اپنی بات میں فارسی اور ہندی کو اس طرح ملا دیتے تھے کہ لوگ اس پر ہنستے بھی تھے اور یہ بھی محسوس کرنے لگتے تھے کہ وہ سب ایک ہی ہیں۔ دلہن کی بدائی یا رخصتی کے وقت جو گیت گایا جاتا ہے اور جو بالکل ہندوستانی رسم ہے، کہا جاتا ہے یہ ان ہی کا لکھا ہواہے۔ ہندی اور فارسی الفاظ اور فقروں کی ایک فرہنگ جو عالمانہ تفریح کا ایک شاہکار ہے، ان ہی کے زور قلم کا نتیجہ بتائی جاتی ہے۔

کوئی ہنسنا چاہے یا عشق ومحبت کرنا، زبان و لسان کا مطالعہ کرنا چاہے یا لوک ادب کا، مقصد گانا ہو یا روحانی کیف وانبساط تو اس کے لیے خسرو کی مثال بطور نقشِ اوّل موجود ہے۔ ان کی وجہ سے روایت ایک دم بھرپور، ہمہ گیر اور نہایت نفیس ہو گئی۔ کئی صدیوں سے انہیں ہندو مسلم تہذیب کا خالق سمجھا جاتا رہا ہے اور اب بھی ہمیں خسرو کو ان باتوں کا سرچشمہ تسلیم کرنا پڑتا ہے جنہیں ہم دل سے چاہتے ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں