تازہ ترین

عظمیٰ کاردار کی وضاحت: ’آڈیو لیک کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی اجازت دی جائے‘

لاہور: تحریک انصاف کی جانب سے بنیادی رکنیت خارج کرنے کے بعد رکن پنجاب اسمبلی عظمیٰ کاردار نے کمیٹی کو اپنا جواب کمیٹی کو جمع کرادیا جس میں انہوں نے آڈیوکال لیک کرنے والوں‌ کے خلاف مقدمہ درج کرانےکی اجازت مانگ لی۔

نمائندہ اے آر وائی نیوز نعیم حنیف کے مطابق عظمیٰ کاردار نے اسمبلی رکنیت بچانے کے لیے پارٹی کو تحریری اپیل جمع کرانے کی تیاری شروع کردی۔

پاکستان تحریک انصاف کی قائمہ کمیٹی برائے نظم و احتساب نے پانچ جولائی کو نوٹی فکیشن جاری کر کے عظمیٰ کاردار کی بنیادی رکنیت ختم کردی تھی اور ساتھ میں انہیں 7 روز کی مہلت بھی دی تھی۔

اب عظمیٰ کاردار نے 7 روز گزرنے کے بعد پارٹی قیادت کو اپنا جواب وکیل کے ذریعے جمع کرادیا، جس میں انہوں نے وضاحت کی ہے کہ میرے خلاف سازش کرنے والوں نے آڈیو کو توڑ موڑ کر پیش کیا، آڈیوکال نجی گفتگو تھی جس میں دوسرےفریق کی آواز کو ہٹا کر پیش کیا گیا۔

مزید پڑھیں: تحریک انصاف کا بڑا فیصلہ، عظمیٰ کاردار کی بنیادی پارٹی رکنیت ختم

عظمیٰ کاردار نے جواب میں لکھا کہ نجی گفتگوکو میرےخلاف عوامی سطح پر استعمال نہیں کیاجاسکتا، سب جانتے ہیں کہ 8سال سے پارٹی کی وکالت کررہی ہوں اور اس دوران کبھی کوئی غلط لفظ اپنے منہ سے نہیں نکالا۔

انہوں نے لکھا کہ ’میری نجی گفتگوکوغیرقانونی طریقے سے ریکارڈ کرنا شہری حقوق کی خلاف ورزی ہے، اگر پارٹی اجازت دے تو آڈیو لیک کرنے والوں کے خلاف ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں مقدمہ درج کراؤں‘۔

عظمیٰ کاردار نے مزید لکھا کہ میرےخلاف فیصلہ کرتےہوئے قانونی پہلوؤں کو نظر انداز کیا گیا کیونکہ میرے حوالے سے کسی نے کوئی درخواست بھی دائر نہیں کیا تھی۔

پارٹی کی جانب سے  بنیادی رکنیت خارج ہونے کے بعد رکن پنجاب اسمبلی عظمیٰ کاردار نے آڈیو ٹیپ کے معاملے پر قیادت سے معافی مانگنے کی کوشش بھی کی مگر وہ رائیگاں چلی گئی۔ پی ٹی آئی قیادت نے معافی کو مسترد کرتے ہوئے عظمیٰ کاردار کو اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دینے کی ہدایت کی اور واضح کیا تھا کہ استعفیٰ نہ دیا گیا تو پارٹی کی جانب سے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: معافی کی کوششیں ناکام ، رکن اسمبلی عظمیٰ کاردار سے استعفیٰ لینے کی تیاریاں

ذرائع کا کہنا ہے کہ رکن اسمبلی نے وضاحت کیلئے وزیراعظم اوروزیراعلیٰ ہاؤس رابطےکی کوششیں کیں تھیں، تاہم ان پر وزیراعظم ہاؤس اور وزیراعلیٰ ہاؤس کے دروازے بھی بند کردیئے گئے۔

Comments

- Advertisement -