مراٹھی اور ہندی سنیما کی تاریخ میں شانتا رام کا نام ایک ایسے فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر محفوظ ہے جس نے اپنے کام سے ایک عہد کو متأثر کیا۔ وہ تھیٹر سے فلم کی دنیا میں آئے تھے اور ہندوستانی سنیما کو کئی بے مثال اور یادگار فلمیں دیں۔ ہندوستانی فلمی صنعت میں ان کا نام ایک عظیم ہدایت کار کے طور پر زندہ ہے۔
فلمی دنیا میں اپنی فنی عظمت کے نقوش ثبت کرنے والے شانتا رام نے 1901ء میں ہندوستان کے شہر کولہا پور کے ایک مراٹھی خاندان میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کا اصل نام شانتا رام راجا رام ونیکدرے تھا۔ وی شانتا رام 30 اکتوبر 1990ء کو چل بسے تھے۔
پروڈیوسر اور ہدایت کار وی شانتا رام نے بابو راؤ پینٹر کی مہاراشٹر فلم کمپنی میں بحیثیت اسسٹنٹ کام شروع کیا تھا اور بعد فلم سازی اور اداکاری بھی کی، ان کی بنائی ہوئی فلمیں مراٹھی تھیٹر کے زیرِ اثر ہیں۔ یہ 1929ء کی بات ہے جب شانتا رام نے اپنے تین ساتھیوں کی مدد سے اپنے شہر کولہا پور میں پربھات فلم کمپنی شروع کی تھی۔ اس بینر تلے ان کی فلم ایودھیا کا راجا 1931ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ یہ پربھات کمپنی کی پہلی ناطق فلم ہی نہیں ہندوستان کی وہ پہلی فلم بھی تھی جسے دو زبانوں یعنی ہندی اور مراٹھی میں بنایا گیا تھا۔ یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ شانتا رام کی اس فلم سے چند روز قبل ہی مراٹھی زبان میں پہلی فلم ریلیز ہوچکی تھی، ورنہ ایودھیا کا راجا ہی مراٹھی زبان کی پہلی فلم کہلاتی۔
فلم ساز شانتا رام کی پربھات فلم کمپنی نے ایودھیا کا راجا کے بعد اگنی کنگن اور مایا مچھندرا جیسی قابلِ ذکر فلمیں بنائیں۔ ان کی فلمیں سماجی جبر کے خلاف ہوتی تھیں۔ وہ فرسودہ رسم و رواج کو اپنی فلموں میں نشانہ بناتے اور اس میڈیم کے ذریعے انسان دوستی کا پرچار کرتے تھے۔ فلم بینوں کو یہ موضوعات بہت متاثر کرتے تھے۔ شانتا رام فلمی دنیا میں بھی اپنے صبر و تحمل، برداشت اور عدم تشدد کے فلسفہ کے لیے مشہور رہے۔ 1933ء میں ان کی پہلی رنگین فلم ریلیز ہوئی جس کا نام نام سائراندھری (Sairandhri) تھا، مگر باکس آفس پر یہ کام یاب فلم ثابت نہ ہوئی۔ پربھات فلم کمپنی کو مالکان نے کولہا پور سے پونے منتقل کردیا جہاں اس بینر تلے 1936ء میں امرت منتھن اور 1939ء میں امر جیوتی جیسی فلمیں ریلیز کی گئیں جو بہت کام یاب رہیں۔ فلم امرت منتھن نے سلور جوبلی بھی مکمل کی۔ یہ بودھ دور کی کہانی تھی۔ اس کے بعد شانتا رام نے ایک مراٹھی ناول پر مبنی سنجیدہ فلم دنیا نہ مانے کے نام سے بنائی تھی۔ اس فلم کے بعد وہ سماجی موضوعات کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ کہتے ہیں دیو داس جیسی فلم کو انھوں نے اس کی کہانی کے سبب ناپسند کیا تھا اور اسے نوجوانوں میں مایوس کُن جذبات پروان چڑھانے کا موجب کہا تھا۔ وہ خود ترقی پسند خیالات اور امید افزا کہانیاں سنیما کو دینے میں مصروف رہے۔ وہ ایک اختراع کار اور ایسے آرٹسٹوں میں سے تھے جن کی فلموں میں سے سب پہلے ہندوستانی عورت کی زندگی کو بھی نمایاں کیا گیا۔
1937ء میں شانتا رام نے دنیا نہ مانے کے نام سے فلم بنائی اور 1941ء میں پڑوسی ریلیز کی جس میں انھوں نے مذہبی کشاکش دکھائی تھی۔ اس کے مرکزی کردار دو ایسے ہمسایہ تھے جن میں ایک ہندو اور ایک مسلمان تھا۔ یہ دونوں دوست بھی تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ تعلق نفرت اور پھر دشمنی میں بدل جاتا ہے۔ اس فلم کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ وی شانتا رام نے فلم میں ہندو کا کردار ایک مسلمان اداکار کو سونپا تھا جب کہ مسلمان کا کردار نبھانے کے لیے ایک ہندو اداکار کا انتخاب کیا تھا۔ یہ پربھات فلم کمپنی کے ساتھ ان کی آخری فلم تھی کیوں کہ وی شانتا رام اِسی فلم کی ایک اداکارہ جے شری کی محبّت میں گرفتار ہوگئے تھے اور ان کے کاروباری ساتھیوں کو اس پر سخت اعتراض تھا۔
تین شادیاں کرنے والے وی شانتا رام بیس برس کی عمر میں ویملا بائی سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے جو ان کی پہلی شریکِ حیات تھیں۔ یملا بائی کی عمر شادی کے وقت 12 برس تھی۔ ان کے بطن سے چار بچّے پیدا ہوئے۔ 1941ء میں وی شانتا رام نے اپنے وقت کی معروف اداکارہ جے شری سے دوسری شادی کی اور تین بچّوں کے باپ بنے۔ 1956ء میں سندھیا نامی ایک کام یاب اداکارہ ان کی تیسری بیوی بنی، جو بے اولاد رہی۔ وی شانتا رام تیسری شادی کے بعد ممبئی منتقل ہوگئے جہاں راج کمل کلامندر (Rajkamal Kalamandir) نامی اسٹوڈیو شروع کیا اور شکنتلا کے نام سے فلم بنائی جو ایک ہٹ فلم تھی۔ اِس کے بعد ڈاکٹر کوٹنس کی امر کہانی (Dr. Kotnis Ki Amar Kahani) سنیما کو دی اور یہ بھی ہِٹ ثابت ہوئی۔ یہ دونوں اس زمانے میں امریکہ میں بھی دیکھی گئیں۔ شکنتلا ان کی وہ فلم تھی جس پر لائف میگزین میں آرٹیکل بھی شایع ہوا۔ ان کی بنائی ہوئی متعدد فلموں کو ناکامی کا منہ بھی دیکھنا پڑا، لیکن پچاس کی دہائی میں وی شانتا رام کی زیادہ تر فلمیں مقبول ہوئیں اور آج بھی فلمی ناقدین اور تبصرہ نگار اس دہائی میں شانتا رام کی فلموں کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔
اس دور کی کام یاب ترین فلم دھیج (جہیز) تھی۔ اس وقت راج کمل اسٹوڈیو کو ایک نئی ہیروئن سندھیا مل گئی تھی جس کے ساتھ 1953ء میں شانتا رام نے فلم تین بتی چار راستہ بنائی تھی جو ہٹ ثابت ہوئی اور پھر اسی اداکارہ کو انھوں نے اپنی رنگین فلم جھنک جھنک پائل باجے میں کام دیا۔ شانتا رام نے 1958ء میں فلم دو آنکھیں بارہ ہاتھ بنائی تھی جو ان کی سب سے یادگار فلم ہے۔ یہ ایک سچّی کہانی پہ مبنی فلم تھی اور اسے سینما کی تاریخ کا ماسٹر پیس قرار دیا جاتا ہے۔ سندھیا کو شانتا رام نے اپنی اس فلم میں کاسٹ کیا تھا۔
اس فلم کی کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ آزادی سے قبل ایک ریاست میں ایک جیلر کو اپنے قید خانے چلانے کی اجازت دی جاتی ہے اور یہ جیلر کئی سنگین جرائم میں ملوث اور پیشہ ور مجرموں کو قید خانے میں رکھ کر ایک ذمہ دار اور مفید شہری بناتا ہے۔ جیلر کا کردار فلم ساز اور پروڈیوسر شانتا رام نے خود ادا کیا تھا۔ ان کو اس فلم پر کئی ایوارڈ دیے گئے جن میں برلن کے فلمی میلے کا گولڈن بیر اور ہالی وڈ پریس ایسوسی ایشن کا ایوارڈ بھی شامل ہے۔ یہ ایک انتہائی شان دار فلم تھی، جس نے فلم بینوں کے ذہنوں پر گہرے اثرات چھوڑے۔
وی شانتا رام کا عروج 1950ء کی دہائی کے بعد ختم ہوتا چلا گیا جس کی ایک وجہ ان کا بدلتے ہوئے رجحانات کا ساتھ نہ دینا اور جدید تقاضوں کو پورا نہ کرنا بھی تھا۔ وہ خود کو بدلتی ہوئی فلم انڈسٹری میں اجنبی محسوس کرنے لگے اور اپنے اصولوں پر سمجھوتا کرنے کو تیّار نہ ہوئے۔ دراصل وی شانتا رام فلم کو سماجی خدمت کا ایک میڈیم سمجھتے تھے اور بامقصد تفریح کے قائل تھے۔
پچاس کی دہائی میں وی شانتا رام کی جو فلمیں مقبول ہوئی تھیں، آج بھی دیکھنے والوں کی توجہ حاصل کرلیتی ہیں۔ ان کی فلموں کے کئی گیت بھی ہندوستانی سنیما کے سنہرے دور کی یاد تازہ کردیتے ہیں۔ وی شانتا رام کو 1985ء میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ دیا گیا جب کہ 1992ء میں پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا گیا۔