جمعہ, مئی 24, 2024
اشتہار

پنجابی فلموں کے لیے لازوال گیت تخلیق کرنے والے وارث لدھیانوی کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

وارث لدھیانوی کا نام پنجابی فلموں کے گیت نگار کی حیثیت سے ہمیشہ زندہ رہے گا۔ پاکستان کی 1959ء میں بننے والی پنجابی زبان کی سب سے بڑی فلم کرتار سنگھ کو قرار دیا جاتا ہے جس کا یہ گیت لازوال اور ایک شاہ کار ثابت ہوا: "دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا، امڑی دے دل دا سہارا نی ویر میرا گھوڑی چڑھیا۔” آج اسی گیت کے خالق وارث لدھیانوی کی برسی ہے۔

اس لافانی گیت کی دھن سلیم اقبال صاحبان نے بنائی تھی اور گلوکارہ نسیم بیگم کے ساتھ ان کی سکھیوں نے آواز ملائی تھی۔ وارث لدھیانوی کے تحریر کردہ اردو گیت برائے نام ہی تھے۔

قیامِ پاکستان کے بعد جب یہاں فلمی صنعت کی بنیاد رکھی گئی تو جہاں فلم رائٹر، شاعر، اداکار اور دوسرے شعبوں میں باکمال شخصیات سامنے آئیں، وہیں فنِ موسیقی کے ایک درخشاں دور کا بھی آغاز ہوا۔ وہ زمانہ گویا ایسا نولکھا ہار تھا، جس میں ہر فن کار اپنے مقام پر ایک ہیرا تھا اور جگمگ جگمگ کرتا نظر آتا تھا۔ اسی دور میں وارث لدھیانوی پنجابی زبان میں اپنے گیتوں کی مالا کے ساتھ سرِفہرست تھے۔ انھوں نے فلم کے لیے اسکرپٹ بھی تحریر کیے لیکن ان کی وجہِ شہرت نغمہ نگاری ہے۔

- Advertisement -

پاکستان فلم انڈسٹری کے اس گیت نگار کا اصل نام چوہدری محمد اسماعیل تھا۔ وہ 11 اپریل 1928ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ شاعری کا آغاز کیا تو ابتدائی دور میں عاجز تخلص کیا اور بعد میں پنجابی کے نام وَر اور عوامی شاعر استاد دامن کے شاگرد ہوگئے اور وارث تخلّص اختیار کیا۔ وارث لدھیانوی نے پنجابی فلموں کے لیے بے شمار نغمات تحریر کیے جو فلم کرتار سنگھ، مکھڑا، رنگیلا، دو رنگیلے، باؤ جی، شیر خان اور شعلے میں شامل ہوئے اور ان کی فلموں کی کام یابی کی ایک وجہ بنے۔

وارث لدھیانوی نے دو دہائیوں سے زائد عرصہ تک فلمی صنعت کے لیے گیت نگاری کی اور اپنے وقت کے مایہ ناز موسیقارو‌ں کے ساتھ کام کیا جن میں بابا جی اے چشتی، ماسٹر عنایت، رشید عطرے، صفدر حسین و دیگر شامل ہیں ان کے گیتوں کو پاکستان کے مشہور گلوکاروں نے گایا اور فلم انڈسٹری میں اپنا کریئر بنانے میں کام یاب ہوئے۔

وارث لدھیانوی 1992ء میں آج ہی کے روز لاہور میں انتقال کرگئے تھے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں