کرکٹ کے کسی بھی عالمی ایونٹ میں قومی ٹیم اور اگر مگر کا چولی دامن کا ساتھ ہوگیا ہے جو ون ڈے اور ٹی 20 ورلڈ کپ کے بعد ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ میں بھی شروع ہوگیا ہے۔
پاکستان نے حال ہی میں بنگلہ دیش سے ہوم گراؤنڈر پر دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں وائٹ واش کی تاریخی شکست پائی ہے، جس کے نتیجے میں قومی ٹیم رینکنگ میں چھٹی سے آٹھویں پوزیشن پر چلی گئی ہے۔
اس بدترین کارکردگی کے بعد پاکستان کے آئندہ سال جون میں لندن میں ہونے والے ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا فائنل کھیلنے کے امکانات بظاہر دکھائی نہیں دیتے تاہم امید کا دامن ہمیشہ کی طرح اگر، مگر کی صورتحال نے تھما دیا ہے۔
ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے فائنل سے قبل پاکستان نے سات ٹیسٹ میچز کھیلنے ہیں۔ ان میں تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز انگلینڈ اور دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز ویسٹ انڈیز کے خلاف ہوم گراؤنڈ پر کھیلی جائیں گی جب کہ جنوبی افریقہ آئندہ سال کے آغاز میں دو ٹیسٹ میچوں کے لیے پاکستان کی میزبانی کرے گا۔
ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا فائنل کھیلنے کے لیے پاکستان کو صرف اپنے تمام میچز جیتنا اور تینوں سیریز میں حریفوں کو وائٹ واش کرانا ہی کافی نہ ہوگا بلکہ دیگر ٹیموں کے میچز کے نتائج پر بھی نظر رکھنا اور اپنے حق میں نتائج آنے کی دعائیں کرنا ہوں گی۔
پاکستان جس کے اس وقت پوائنٹس 19.05 ہیں، اگر وہ اپنے تمام میچز جیت جاتا ہے تو وہ آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ میں 52.8 فیصد کے ساتھ یہ سائیکل ختم کرے گا۔
تاہم اسے اس وقت رینکنگ ٹیبل پر موجود ٹاپ دو ٹیموں آسٹریلیا اور بھارت کے میچز کے نتائج پر انحصار کرنا ہوگا۔
آسٹریلیا رواں برس پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنے کے لیے بھارت کی مہمان بنے گی۔ پاکستان کا چانس برقرار رکھنے کے لیے میزبان ٹیم کو کینگروز کو اس سیریز میں شکست لازمی شکست دینا ہوگی۔
بھارت کی ٹاپ پوزیشن ہے، لیکن اس کے اب بھی 10 میچز باقی ہیں جن میں سے وہ 6 میچز جیت کر مسلسل تیسری بار ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا فائنل جیتنے کا اعزاز پا سکتا ہے۔
تاہم اس دوڑ میں انگلینڈ اور نیوزی لینڈ بھی موجود ہیں۔
"میں یقین نہیں کر سکتا”، بھارتی کرکٹر بھی پاکستان کرکٹ کے زوال پر بول اٹھے