اردو، خاص طور پر ادب میں فارسی زبان کے مصرعے، فقرے اور محاورے اس لیے بھی اجنبی یا نامانوس نہیں رہے کہ کبھی یہی ہندوستان کے شاہی دربار سے دفاتر تک رائج رہنے والی زبان تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی اردو زبان میں عام بول چال سے ادب تک فارسی کے بہت سے مصرع یا محاورے ضرب الامثال کے طور پر برتے جاتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ زبان کا طور اور الفاظ کا یہ مشترکہ ذخیرہ باعثِ ترقیٔ اردو بنا اور ایک عظیم تہذیب اور خوب صورت ثقافت کا امین ہے۔ ہندوستان میں جب فارسی کی جگہ اردو نے لی تو اردو ادب میں فارسی کے موضوعات، تشبیہ و استعارہ، صنائع و بدائع بھی داخل ہوئے اور اس طرح اردو میں گھل مل گئے کہ لگتا ہے کہ یہ اردو ہی کے ہیں۔ آج بھی اردو بولنے والے ان محاورات کا استعمال کرتے ہیں اور ان کا بَرمحل استعمال بہت بھلا معلوم ہوتا ہے۔
یہاں ہم مرزا غالب کے دو اشعار نقل کررہے ہیں جس کا ایک مصرع اردو میں ضربُ المثل کے طور پر اہلِ زبان اور ادبی تخلیق کار خوب استعمال کرتے ہیں۔
مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل
سن سن کے اسے سخنورانِ کامل
آساں کہنے کی کرتے ہیں فرمایش
گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل
اسی رباعی کا یہ فارسی مصرع آپ نے سنا ہو گا، "گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل…” جس کا مطلب ہے اگر بولوں تو مشکل اور نہ بولوں تو بھی مشکل۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی معاملے میں انسان خاموش رہے تو بھی مشکل اور مصیبت میں گرفتار ہوتا اور بولنے پر بھی۔ اس موقع پر یہ مصرع استعمال کیا جاتا ہے۔ مشہور یہ ہے کہ مرزا غالب نے جب شاعری شروع کی تو بہت مشکل زبان اور فارسی اشعار کہا کرتے تھے، اور بیشتر لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتے تھے۔ عام لوگوں اور شعرا میں بھی اس مشکل پر پسندی پر غالب مذاق اور طنز کا نشانہ بنے۔ ایک مشہور شاعر آغا جان عیشؔ نے اس پر یہ قطعہ موزوں کیا۔
اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے
مزا کہنے کا جب ہے، اک کہے اور دوسرا سمجھے
کلامِ میر سمجھے اور زبانِ میرزا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
آغا جان عیش کے اس قطعہ کے جواب میں اسد اللہ خاں غالب نے وہ رباعی کہی جو ہم نے اوپر نقل کی ہے اور اسی رباعی کا آخری مصرع ضربُ المثل کے طور پر مشہور ہے۔