تازہ ترین

اسرائیل سے تعلقات کے معاملے پر کسی ملک کی تقلید نہیں کریں گے، وزیر خارجہ

اسلام آباد: نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی کا...

الیکشن کمیشن کا ووٹرز لسٹیں غیر منجمد کرنے کا فیصلہ

اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات...

بے نامی اداروں کے مکمل خاتمے کے لیے ایف بی آر کا بڑا فیصلہ

اسلام آباد: خانساموں، چوکیداروں اور مالیوں کے نام پر کمپنی...

افغانستان میں پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث 200 عسکریت پسند گرفتار

کابل : افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت نے...

سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت آج ہوگی

اسلام آباد : سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا...

36 کروڑ روپے کی ٹرانزیکشن کے ایک اور بے نامی اکاؤنٹ کا انکشاف

کراچی: فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے 36 کروڑ روپے کی ٹرانزیکشن کے ایک اور بے نامی اکاؤنٹ کا سراغ لگا لیا، ملزم کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کراچی نے ایک اور بے نامی اکاؤنٹ کا پتہ لگا لیا، کراچی کے علاقے نصرت بھٹو کالونی کے رہائشی ابراہیم کے اکاؤنٹ میں 36 کروڑ روپے کا انکشاف ہوا ہے۔

محمد ابراہیم کے اکاؤنٹ میں 3 سال تک کون پیسے بھیجتا رہا اس حوالے سے تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔ ایف بی آر کے مطابق محمد ابراہیم نامی شخص نے سنہ 2015 میں اکاؤنٹ کھولا تھا۔

انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو نے مقدمہ درج کر لیا ہے۔ مقامی عدالت نے ملزم کے 10 لاکھ کے عوض قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے ہیں۔

خیال رہے گزشتہ روز بھی ایف بی آر کراچی نے 8 ارب سے زائد کی ٹرانزیکشن کے 6 بے نامی اکاؤنٹس کی نشاندہی کی تھی۔

ایف بی آر حکام کا کہنا تھا کہ 8 ارب کی ٹرانزیکشن میں ملوث ملزمان کے ضلع بونیر اور کراچی صدر موبائل مارکیٹ کے پتے درج ہیں۔ مذکورہ تاجروں زور طالب خان، عمار خان، محمد حسن اور محمد حمزہ کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے گئے۔

چاروں تاجروں کی جانب سے 5 سال میں ایک ارب 26 کروڑ سے زائد ٹیکس چوری کا انکشاف ہوا تھا۔

یاد رہے اس سے قبل وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں اینٹی منی لانڈرنگ قوانین کے حوالے سے نیب کے اختیارات مانگے تھے۔

اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ اینٹی منی لانڈرنگ قانون میں خامیوں کی وجہ سے نتائج نہیں مل پاتے، ریکارڈ بروقت نہیں ملتا، تحقیقات التوا میں چلی جاتی ہیں۔

ایڈیشنل ڈی جی نے کہا تھا کہ بینک سے ریکارڈ لینا ہے تو سیشن جج کی اجازت درکار ہے، سیشن جج سے اجازت میں کئی کئی ماہ نکل جاتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے سیشن جج اجازت ہی نہیں دیتا۔ جو ریکارڈ 6 ماہ بعد ملتا ہے وہ 6 دن میں ملے تو تحقیقات تیز ہوسکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تھا کوئی اکاؤنٹ بے نامی نہیں ہوتا، کوئی نہ کوئی نام تو ہوتا ہے۔ ’دو طرح کے اکاؤنٹ ہیں، ایک جعلی اور دوسرا بے نامی۔ جعلی اکاؤنٹ یہ ہے کہ بندہ فوت ہوگیا اور اکاؤنٹ چل رہا ہے۔ دوسرا بے نامی ہے، ہولڈر کی ٹرانزیکشنز سے آمدنی میں مطابقت نہیں رکھتا اور جس کے نام اکاؤنٹ ہوتا ہے وہ نہ فائدہ اٹھاتا ہے نہ خود چلاتا ہے‘۔

ایف آئی اے حکام نے مزید کہا تھا کہ ایسے اکاؤنٹ کھولنے میں بینکر کا ملوث ہونا یقینی ہے۔ بینکوں نے متعلقہ ادارے کو محض 500 ایسے کیس رپورٹ کیے۔ ’ہم نے کئی مرتبہ بینک کے صدر کو بھی ملوث پایا ہے۔ جب بینک کا صدر آپ کے ساتھ ہوگا تو آپ جو مرضی کرلیں‘۔

Comments

- Advertisement -