ہفتہ, مئی 18, 2024
اشتہار

ہندوستانی فلمیں اور اردو

اشتہار

حیرت انگیز

ہندوستانی فلموں کی اپنی شاندار روایت رہی ہے۔ یہ روایت ہماری زبان اردو کا قیمتی اثاثہ ہے۔ کیونکہ یہ فلمیں اپنی عوامی مقبولیت کے باعث جہاں ہماری زبان کے فروغ کا ذریعہ بنتی رہی ہیں وہیں ہمارے بڑے ادبی سرمائے کی تخلیق کا ذریعہ بھی بنی ہیں۔

فلموں میں شامل بیشتر اردو کلام فلموں کے لیے ہی لکھے گئے ہیں۔ ان کا بڑا حصہ اردو شاعری کے عمدہ انتخابات میں شامل کیے جانے کے لائق ہے۔ فلموں کے لیے کلام لکھنے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ نغمے فلم کی کہانی کو سامنے رکھ کر ضرورت کے مطابق تخلیق کیے جاتے ہیں۔ گویا یہ فلمیں نہ ہوتیں تو شاید ان عمدہ کلاموں کی تخلیق عمل میں نہ آتی۔

گرچہ ادیبوں کے ایک طبقہ کو اس کی ادبیت تسلیم کرنے پر تردد ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ فلموں کے لیے تخلیق کیے گئے ادب کی جمالیات کا تقابل غیر فلمی ادب سے کیا جائے تو یہ بلاشبہ اپنی اہمیت تسلیم کرا لیں گے۔ فلموں کی کہانی کا ذریعہ اظہار تصویریں ہیں اس لیے کہانی کا بیانیہ حصہ سامنے نہیں آتا ہے لیکن کہانی کو آگے بڑھانے کے لیے جو مکالمے ادا کیے جاتے ہیں ان میں اس کی ادبیت اپنے پورے نکھار اور رچاؤ کے ساتھ ہمارے سامنے آتی ہے اور سننے والوں کے احساس جمال کی تسکین کرتی ہے۔

- Advertisement -

دوسری طرف فلموں کا لازمی جزو نغمے ہیں۔ ابتدا سے فلموں کے جو ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہیں ان میں ان کی ادبیت کا برملا اظہار ہوتا ہے۔ بلکہ بہت سی فلمیں ایسی ہیں جو ان نغموں کی وجہ سے جو ہماری کلاسیکی شاعری کی طرز پر ہیں یا ایسے مکالمو ں کی وجہ سے جو فارسی زدہ ہیں مقبول و مشہور ہوئیں۔

فلمیں انتہائی زود خلق آرٹ ہیں۔ ہندوستان میں فلموں کی تقریبا سو سالہ تاریخ ہے۔ اس مدت میں اس فن میں بے شمار لازوال شہ پارے تخلیق پائے ہیں۔جہاں تک اردو کا تعلق ہے تو ہندوستانی فلموں اور اردو کا رشتہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود فلموں کا ہندوستان سے۔ غیر معمولی مقبولیت اور تاریخی اہمیت کی حامل فلمیں اپنی منفرد خوبیوں کی وجہ سے اپنا خاص مقام رکھتی ہیں۔ یہ سیکڑوں سے زائد کی تعداد میں ہیں۔

عنوان کے لحاظ سے اس کے تین پہلو ہیں۔ ایسی فلمیں جن کی شہرت و مقبولیت کا مدار صرف اردو زبان وادب ہے۔ ایسی فلمیں جنہوں نے فلموں کی دنیا میں اپنی تاریخ رقم کی اس میں اردو کی حصہ داری۔ تاریخ پر مبنی فلموں میں اردو کی حصہ داری۔ ان تینوں پہلوؤں کو ذہن میں رکھ کر اس مقالے میں نمائندہ فلموں کے حوالہ سے گفتگو کی جائے گی۔

ہندوستان میں فلموں کی روایت پارسی تھیٹر اور اس سے قبل سنسکرت ڈراموں سے رہی ہے۔ لیکن فلموں کی دنیا میں جو انقلاب آیا وہ فلم’عالم آرا‘ کی آمد ہے۔ کیونکہ اس کے بعد فلموں کو قوت گویائی حاصل ہوگئی۔ اب چہروں کی لکیروں سے خوشیوں اور غم کے تاثرات پڑھنے کی بجائے زبان سے ان کا اظہار ہونے لگا۔ زمین پر چلتی پھرتی زندگی فلم کے پردے پر نظر آنے لگی۔ چنانچہ جب یہ فلم میجسٹک تھیٹر میں پیش کی گئی تو ہندوستانی فلموں نے ایک نیا رخ لیا۔ ”اس وقت بھارت میں اردو زبان کا بول بالا تھا اور فلم کے پوسٹر پر چونکانے والے جملے لکھے گئے تھے۔ مثلا: ”اٹہتّر مردہ انسان زندہ ہو گئے ہیں انہیں بولتے دیکھو۔“ اس انداز نے لوگوں کی بھیڑ اکٹھا کر دی، پولیس کے لیے اس بھیڑ پر قابو پانا مشکل ہوگیا۔ اس فلم کے ٹکٹ بھی بلیک ہوئے۔“

اس فلم کے ہدایت کار اردشیر ایرانی تھے۔ جب کہ اداکار کے طور پر مراٹھی تھیٹر کے اداکار ماسٹر وٹھل اور ادا کارہ کے طور پر زبیدہ نے کام کیا۔ اس فلم میں بائیس نغمے تھے جس کو ڈبلیو ایم خان اور ہیروئن زبیدہ نے گایا تھا۔ اس وقت پلے بیک کی تکنیک ایجاد نہیں ہوئی تھی، گانے اداکار خود گاتے تھے، چونکہ ابتدائی فلموں کے ریکارڈ دستیاب نہیں ہیں اس لیے ان کے مکالموں کے سلسلہ میں کوئی واضح بات تو نہیں کی جاسکتی البتہ اس کے پوسٹر پر اردو میں اشتہاری جملہ دیا گیا تھا جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے اس کے علاوہ اس فلم کے دو گانوں کے بول یہ تھے جسے زبیدہ اور وزیر محمد خان نے گایا تھا۔

(پہلا گانا)
کچھ دے دے خدا کے نام پر پیارے، طاقت ہو گر دینے کی
چاہے اگر تو مانگ لے مجھ سے، ہمت ہو گر لینے کی

وزیر محمد خان
بدلا دلوائے گا یارب تو ستمگروں سے
تو مددگار ہے تو خوف کیا جفا کاروں سے
کاٹھ کی تیغ تو جو چاہے تُو وہ کام کرے
جو کہ ممکن ہی نہیں لوہے کی تلواروں سے

ہندوستانی فلموں کا جیسے ہی یہ جدید دور شروع ہوا، اردو کے نامور ادیبوں اور شعرا نے فلمی دنیا میں اپنی قسمت آزمائی شروع کر دی اور اپنے اظہار خیال کا وسیلہ بنایا۔ اس میڈیم سے جہاں انہیں بے پناہ شہرت و مقبولیت اور دولت حاصل ہوئی وہیں انہوں نے اردو زبان کو عوام میں مقبول اور عام کیا۔

اس فہرست میں اردو ادب کے بڑے نام شامل ہیں۔ جیسے: سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، عصمت چغتائی، شاہد لطیف، راجندر سنگھ بیدی، خواجہ احمد عباس، تنویر نقوی، سردار جعفری، جوش ملیح آبادی، ساغر نظامی، خمار بارہ بنکوی، ساحر لدھیانوی، شکیل بدایونی، قمر جلال آبادی، راجہ مہدی علی خاں، اسرارالحق مجاز، حسرت جے پوری، مجروح سلطان پوری، کیف بھوپالی، کیف عرفانی، اسعد بھوپالی اور قتیل شفائی وغیرہ۔

قمر جلال آبادی بیک وقت کسی فلم کے لیے کہانی، مکالمے اور نغمے خود لکھتے تھے جس کی وجہ سے ان کی فلموں میں مکالموں اور گیتوں کا تعلق کہانی سے مربوط ہوتا تھا۔ انہوں نے شاہ جہاں اور ممتاز محل پر مبنی ایک تاریخی فلم تاج محل بنائی جس کے ہدایت کار ایم صادق تھے۔ نغمے ساحر اور روشن نے دیے تھے۔ رحمان نے جہانگیر، پردیپ کمار نے شہزادہ خرّم، مینا راج نے ملکۂ عالم ممتاز اور بینا نے نور جہاں کا کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم کو بہترین نغموں کے لیے ایوارڈ بھی حاصل ہوا۔ اس کے مشہور نغمے تھے:

”جو بات تجھ میں ہے تیری تصویر میں نہیں“

”پاؤں چھو لینے دو پھولوں کو تو عنایت ہوگی
ورنہ ہم ہی کو نہیں ان کو بھی شکایت ہوگی“

اسی میں یہ مشہور نغمہ بھی تھا:
”جرم الفت پر ہمیں لوگ سزا دیتے ہیں
کتنے ناداں ہیں شعلوں کو ہوا دیتے ہیں“

کے۔ سردار نے ایک تاریخی فلم عدل جہانگیر بنائی تھی۔ 1955 میں جی پی سپی نے بھی یہی فلم بنائی۔ اس فلم میں قمر جلال آبادی نے نغمہ لکھا تھا۔ ایک نغمہ تھا: ”چاند تارے کرتے اشارے“ جسے طلعت محمود نے گایا تھا۔ اسی میں ایک گانا یہ بھی تھا: ”زندگی ایک سفر ہے سہانا۔“ قدیم اردو طرز پر ایک گانا یہ تھا: نظر لاگے پیاری سانوریا تمہاری اس پر تورے رسیلے نینا دوجے ماری کٹاری۔

راجندر کرشن جو داد شملوی کے نام سے شاعری کرتے تھی روپے ماہانہ مستقل آمدنی والی پوسٹ آفس کی ملازمت چھوڑ کر فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے اور شہرت و دولت کمائی اور اپنی کہانیوں، نغموں اور مکالموں سے فلمی دنیا کو مالا مال کیا۔ عصمت چغتائی علی گڑھ سے فارغ ہوکر شاہد لطیف کے ساتھ بمبئی گئیں۔ یہاں عصمت کی کہانی اور شاہد کی ہدایت کاری میں کئی یادگار فلمیں بنیں۔ جیسے بزدل، ضدی، آرزو وغیرہ۔

آرزو میں دلیپ کمار اور کامنی کوشل نے کام کیا تھا۔ اس فلم میں غالب کی ایک غزل کی طرح پر ایک گانا تھا جو بہت مشہور ہوا۔

او دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو
اپنا پرایا، مہرباں نامہرباں کوئی نہ ہو
چل کہیں کھو جاؤں، نیند میں سو جاؤں
دنیا مجھے ڈھونڈے مگر میرا نشاں کوئی نہ ہو

سعادت حسن منٹو فلمستان اسٹوڈیو کے مستقل ملازم تھے۔ ریڈیو کے علاوہ فلم کے لیے کہانی اور مکالمے بھی لکھتے تھے۔ فلمستان کی ایک فلم ”آٹھ دن“ میں انہوں نے ادا کاری بھی کی تھی اور ایک پاگل جرنیل کا کردار ادا کیا تھا۔

کرشن چندر نے پہلی فلم”سرائے کے باہر“ لکھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی لکھے۔ راجندر سنگھ بیدی کی کہانیاں ”گرم کوٹ“ اور ”ایک چادر میلی سی“ پر بھی فلمیں بنائی گئیں۔ بیدی نے خود بھی کئی فلمیں بنائیں۔ جیسے:”دستک“ اور ”آنکھن دیکھی“ وغیرہ۔ دستک بہت کامیاب رہی اور اسے ادبی حلقوں میں بھی کافی سراہا گیا۔ یہ فلم آزادی کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کو مشکوک نظروں سے دیکھے جانے اور ان کے ساتھ تعصابانہ برتاؤ پر مبنی تھی۔ اس میں مجروح کی یہ مشہور غزل بھی شامل تھی:

ہم ہیں متاعِ کوچہ بازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح

بمل رائے کی فلم ”دیو داس“ جو سرت چندر چٹرجی کے ناول ”دیوداس“ پر مبنی تھی، ساحر لدھیانوی کے نغموں، دلیپ کمار کی اداکاری اور بیدی کے دلوں کو چھو لینے والے مکالموں کی وجہ سے بہت کامیاب ہوئی۔ پریم چند بھی بمبئی بلائے گئے۔ اس وقت فلم ساز بڑے پڑھے لکھے، اعلی تعلیم یافتہ اور ادبی ذوق رکھنے والے ہوا کرتے تھے باصلاحیت ادیب اور شاعر کی تلاش میں رہا کرتے تھے۔ کسی رسالے میں کوئی تخلیق پڑھ کر یا کسی مشاعرے میں کسی شاعر کو سن کر اسے فلم کے لیے لکھنے کا موقع دیا کرتے تھے۔ چنانچہ شکیل بدایونی، مجروح سلطان پوری اور خمار بارہ بنکوی کو مشاعروں میں کلام پڑھتے دیکھ کر مشہور موسیقار نوشاد نے فلموں میں موقع دلوایا۔

حسرت جے پوری جو ایک بس کنڈیکٹر تھے پرتھوی راج نے ایک مشاعرے میں سنا اور اپنی فلم کے لیے منتخب کرلیا۔ اس کے بعد راج کپور کی ہر فلم میں حسرت جے پوری تاحیات کام کرتے رہے۔

پریم چند نے ایک فلم ’مزدور“ لکھی۔ لیکن اس وقت ہندوستان غلام تھا۔ اس میں ایک وطن پرست مل مالک کو پیش کیا گیا تھا۔ گرچہ یہ فلم خوب چلی لیکن حکومت برطانیہ کو یہ بات پسند نہ آئی اور اس کی نمائش روک دی گئی۔ پریم چند کے ناول گؤدان، غبن اور نرملا اور ان کی کہانیوں دو بیل دو بیگھہ زمین، شطرنج کے کھلاڑی، پنچایت (پنچ پرمیشور) پر بھی فلمیں بنیں۔

تقسیم وطن سے قبل شوکت حسین رضوی نے ایک مسلم سوشل فلم ”زنیت“ بنائی۔ (اس وقت عام طور پر مسلم سوشل فلمیں ہی بنا کرتی تھیں) یہ پہلی فلم تھی جس میں کسی خاتون قوال کو پردہ پر گاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ یہ قوالی نخشب کی لکھی ہوئی تھی جو آج بھی مشہور ہے اور اکثر پرانی فلموں کے فرمائشی پروگرام میں سنی جاتی ہے:

آہیں نہ بھرے، شکوے نہ کئے کچھ بھی نہ زباں سے کام لیا
اس پر بھی محبت چھپ نہ سکی جب تیرا کسی نے نام لیا

خود نخشب نے اپنی فلم ”نغمہ“ بنائی جس کے گیت ”کاہے جادو کیا، مجھ کو اتنا بتا، جادو گر بالما“ اور یہ غزل ”بڑی مشکل سے دل کی بے قراری کو قرار آیا“ بڑے مشہور ہوئے۔ لیکن اس کے بعد شوکت حسین رضوی، نور جہاں اور نخشب پاکستان چلے گئے۔ ان کی ایک اور فلم تھی ”نیک پروین“ اس کا ایک گانا بہت مشہور ہوا اور آج بھی شادی بیاہ کے موقع پر سہرے کے طور پر سنا جاتا ہے:

مبارک ہو دولہا دلہن کو یہ شادی
ملے دل سے دل زندگی مسکرا دی

(امام اعظم کا یہ مضمون ایک سیمینار بعنوان ‘ہندوستانی فلمیں اور اردو’ میں پیش کیا گیا اور مصنّف کی کتاب میں بھی شامل ہے)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں