منگل, ستمبر 17, 2024
اشتہار

کراچی کا سفر نامہ (طنز و مزاح)

اشتہار

حیرت انگیز

یوں تو ”ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے“ اور ہر تمنا پوری نہیں ہوتی لیکن یار لوگ تادم مرگ دل میں کوئی نہ کوئی آرزو پالے رکھتے ہیں اور اس کی تکمیل کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔

بعض صاحبان اگر اپنی خواہشات من وعن پوری نہ کرسکیں تو بھی کسی نہ کسی طرح دل کا ارمان نکال ہی لیتے ہیں۔ مثلاً شاعر کہلانے کے آرزومند خواتین و حضرات ایک عرصے تک طبع آزمائی اور قافیہ پیمائی کے باوجود جب اپنے کلام کو باوزن کرنے سے بھی قاصر رہتے ہیں تو ”نثری نظمیں“ کہہ کر شاعر کہلانے کا ارمان پورا کرلیتے ہیں یا ڈاکٹر بننے کے خواہش مند اگر ایم بی بی ایس میں داخلے سے محروم رہ جائیں تو ہومیوپیتھ بن کر اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگا لیتے ہیں۔ ہمارا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

ہمیں آرزو تھی کہ ملکوں ملکوں سفر کریں اور سفرنامے لکھیں۔ اب آپ سے کیا پردہ، ہماری اس خواہش کے پیچھے سیاحت سے زیادہ ابن بطوطہ سے لے کر مستنصر حسین تارڑ تک تقریباً تمام سیاحوں کی رنگیں بیانیوں کا عمل دخل تھا۔ سوچا تھا کہ ابن بطوطہ کی طرح فی سفر ایک شادی نہ بھی کرسکے تو تارڑ صاحب کی طرح فی سیاحت ایک رومان تو کر ہی ڈالیں گے، لیکن مجبوری حالات نے ملکوں ملکوں گھومنا تو کجا پنڈی بھٹیاں اور رن پٹھانی کا سفر بھی نہیں کرنے دیا۔ لیکن ہم بھی ایک ڈھیٹ، تہیہ کرلیا کہ سفر کریں نہ کریں سفر نامہ ضرور لکھیں گے سو ”میں نے آسٹریلیا دیکھا“، ”ہٹلر کے دیس میں“ اور ”جہاں انگریز بستے ہیں“ کے زیر عنوان بالترتیب آسٹریلیا، جرمنی اور برطانیہ کے سفر نامے لکھ اور چھپوا ڈالے۔

- Advertisement -

یہ سفر نامے کیا تھے معلومات کے خزانے تھے، ان میں ہم نے ایسے ایسے انکشافات کیے تھے کہ اگر یہ کسی اور ملک میں چھپتے تو ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے اور ہمیں سیاح اور مصنف کے بہ جائے محقق کا درجہ عطا کردیا جاتا۔ مثلاً ”ہٹلر کے دیس میں“ میں ہم نے پہلی بار یہ انکشاف کیا کہ جرمنی کا نام جرمنی اس لیے پڑا کہ وہاں جرمن رہتے ہیں۔ آسٹریلیا کے بارے میں ہماری یہ تحقیق ملتِ بیضا کے لیے کتنی دل خوش کُن ہونا چاہیے تھی کہ یہ ملک ”آسٹر علی“ نامی ایک یورپی نژاد مسلمان نے دریافت کیا تھا اور اسی سے منسوب ہوا، بعد میں کچھ زیادہ ہی بگڑ کر یہ نام ”آسٹر علی“ سے آسٹریلیا ہوگیا، ویسے ہم تو یہ بھی ثابت کرسکتے تھے کہ آسٹریلیا جون ایلیا نے کسی آسٹر نامی انگریز کے اشتراک سے دریافت کیا تھا، اور اس ملک کا اصل نام ”آسٹر ایلیا“ تھا، لیکن (ہمارے یا آسٹریلیا کے) ایک بہی خواہ نے مسودہ دیکھ کر ہمیں سمجھایا کہ جون صاحب نے ”پیالۂ ناف“ کے سوا کچھ دریافت نہیں کیا اور یوں بھی وہ آسٹریلیا کے بہت بعد پیدا ہوئے تھے۔ اسی طرح ”جہاں انگریز بستے ہیں“ میں ہم پہلی مرتبہ یہ حقیقت سامنے لائے کہ برطانیہ، یو کے اور انگلینڈ، ان تینوں ملکوں میں بڑی ثقافتی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ لیکن ایسی خرد افروز اور علم افزا تصانیف کا صلہ ناقدین نے ہمیں ”جاہل مطلق“ ٹھہراکر دیا۔ انھوں نے ہماری ذکر کردہ معلومات اور ہمارے کچھ فقروں کو جواز بنا کر ہم پر وہ لعن طعن کی کہ خدا کی پناہ۔ ہماری تصانیف کے جو فقرے طنزوتضحیک کا نشانہ بنے ان میں سے چند یہ ہیں:

”میں نیاگرا آبشار کے کنارے خاموش بیٹھا اس جھرنے کی صدا سن رہا ہوں جو آسٹریلیا کی تاریخ بیان کررہا ہے۔“(”میں نے آسٹریلیا دیکھا“ صفحہ 3)

”دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی دوحصوں میں منقسم ہو گیا۔ ایک کا نام رکھا گیا مغربی جرمنی اور دوسرا مشرقی جرمنی کہلایا۔ ہمارے ہاں تو مشرقی پاکستان میں بنگالی بستے تھے، لیکن حیرت ہے کہ یہاں مغربی کی طرح مشرقی جرمنی میں بھی جرمن ہی آباد ہیں، ہمیں تلاش بسیار کے باوجود یہاں ایک بھی بنگالی نظر نہیں آیا۔ اس صورت حال سے اندازہ ہوا کہ ان کے ٹکا اور یحییٰ خان ہمارے والوں سے کہیں زیادہ سفاک تھے۔ یہ امکان بھی ہے کہ جرمنوں کے ساتھ رہتے رہتے مشرقی جرمنی کے بنگالی بھی جرمن ہوگئے ہوں۔ اس امکان نے ہمیں خوف زدہ کردیا اور ہم اپنا سفر مختصر کر کے اس ڈر سے پاکستان واپس آگئے کہ کہیں کچھ روز اور جرمنی میں رہ کر ہم بھی جرمن نہ ہوجائیں۔“ (”ہٹلر کے دیس میں“ صفحہ 608)

”برطانیہ میں جہاں دیکھو انگریز نظر آتے ہیں۔ یقیناً یہ انگلستان سے آکر یہاں بسے ہوں گے اور ایسے بسے کہ سارے ملک پر چھاگئے۔“

اب آپ ہی بتائیے کہ ان تحریروں میں آخر ایسا کیا ہے جس سے ہماری جہالت یا لاعلمی ثابت ہوتی ہو؟ اس ضمن میں تنقید کرنے والوں سے ہم نے کہا کہ جہاں تک نیاگرا آبشار کا تعلق ہے تو ہم نے یہ کب لکھا کہ یہ جھرنا کینیڈا کے بہ جائے آسٹریلیا میں گرتا ہے۔ بات بس اتنی ہے کہ آسٹریلیا جانے سے پہلے ہم کینیڈا گئے تھے اور نیاگرا کے قریب بیٹھے آسٹریلیا کے خیالوں میں گم تھے۔ یہ منظر ہم نے ذرا شاعرانہ انداز میں بیان کردیا اور کینیڈا کا تذکرہ کرنا بھول گئے اور نقادوں نے اتنی سی بات کا بتنگڑ بنادیا۔ جب یہی وضاحت ہم نے ایک نقاد جناب ”اعتراض الدین معترض“ کے سامنے پیش کی تو فرمانے لگے:

”اچھا تو بتائیے کہ آخر نیاگرا آبشار کینیڈا کے بہ جائے آسٹریلیا کی تاریخ کیوں بیان کرنے لگا۔“

ہم نے دل ہی دل میں انھیں ”احمق“، ”گاؤدی“ اور ”گھامڑ“ جیسے القابات سے نوازا اور گویا ہوئے ”حضرت! کینیڈا میں تو ہم بہ نفس نفیس موجود تھے، چناں چہ اس ملک کے ماضی و حال کے بارے میں سب کچھ جان سکتے تھے تو نیاگرا آبشار ہمیں کینیڈا کے بارے میں کیوں بتاتا؟ لہٰذا اس نے ہمیں اس ملک کی تاریخ سے آگاہ کیا جہاں ہم جانے والے تھے۔“

اعتراض الدین صاحب منہ پھاڑے ہماری وضاحت وصراحت سنا کیے پھر جانے کیا بڑبڑاتے ہوئے چل دیے۔ اسی طرح جرمنی اور برطانیہ کے باب میں ہم نے جو کچھ لکھا وہ ہماری ذہانت اور سوچ کی گہرائی کا واضح ثبوت ہے، نہ کہ اسے ہماری ناواقفیت کی دلیل بنایا جائے۔

بہرحال، ہمارے یہ تینوں سفرنامے ہم سے ناشر اور ناشر سے دکان دار تک کا سفر طے کر کے ہمارے پاس واپس آگئے اور اس کے بعد ہم نے بنا سفر کے سفرنامے لکھنے سے توبہ کرلی۔ لیکن سفرنامہ لکھنے کی خواہش سے دست بردار نہیں ہوئے، تاہم، اس تجربے نے ہمیں یہ ضرور باور کرادیا کہ جو دیکھو وہی لکھو۔ چناں چہ ہم نے فیصلہ کیا کہ کراچی کا سفر نامہ لکھیں گے ساتھ ہی یہ بھی طے کرلیا کہ یہ سفر نامہ کتاب کے بہ جائے مضمون کی صورت میں تحریر کریں گے، کیوں کہ ایک تو نہیں ہوتی اس میں محنت زیادہ اور دوسرے پیسے ڈوبنے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔ تو ہمارا ”سفرنامۂ کراچی“ ملاحظہ کیجیے۔

ہم نے اپنے سفر کا آغاز سہراب گوٹھ سے کیا۔ ہم واضح کر دیں کہ اس جگہ کا رستم و سہراب سے کوئی تعلق نہیں، البتہ یہاں سہراب سے کہیں زیادہ زورآور بستے ہیں اور جو کام ان سے ہورہے ہیں وہ رستم سے بھی نہ ہوں گے۔ نہ ہی یہ روایتی معنوں میں گوٹھ ہے۔ ایک سہراب گوٹھ کیا کراچی کے اکثر علاقے اسی طرح ”اسم بے مسمیٰ“ ہیں مثلاً گلستان جوہر اور گلشن اقبال میں کہیں دور دور تک گُلوں کا نام ونشان نہیں، گیدڑ کالونی میں گیدڑ ناپید اور دریا آباد میں دریا تو کجا کوئی تالاب تک نہیں۔ سہراب گوٹھ میں کبھی کوئی گوٹھ آباد ہوگا، مگر اب تو یہ علاقہ افغان مہاجرین کے دم سے غزنی یا جلال آباد دکھائی دیتا ہے۔ سہراب گوٹھ پر بسوں ٹرکوں ”وغیرہ“ کے اڈے ہیں اور امی ابو نے ہمیں ہر قسم کے اڈوں سے دور رہنے کی تاکید کر رکھی ہے، لہٰذا ہم نے اس علاقے میں زیادہ ٹھہرنا مناسب نہیں سمجھا۔

اب ہم فیڈرل بی ایریا پہنچے۔ یہ علاقہ فیڈرل اس نسبت سے کہلاتا ہے کہ جب یہ آباد ہوا تو کراچی وفاقی دارالحکومت تھا۔ بعدازاں ”الحکومت“ اسلام آباد چلی گئی اور کراچی میں دار ہی دار رہ گئی، لیکن یہ علاقہ آج بھی فیڈرل کہلاتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے ہمارے ملک کو ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کہا جاتا ہے۔ کافی عرصے سے لوگ فیڈرل بی ایریا کو ”فیڈرل بھائی ایریا“ کہنے لگے ہیں۔ ہمیں اس نام کی دو وجوہ تسمیہ بتائی گئیں ایک تو یہ کہ اس علاقے میں الطاف بھائی کی قیام گاہ اور ان کی جماعت کا مرکز واقع ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس بستی اور فیڈرل گورنمنٹ کے درمیان بڑی مدت بعد بھائی چارے کی فضا قایم ہوگئی ہے!

فیڈرل بی ایریا کے بعد لیاقت آباد شروع ہوتا ہے۔ یہ کبھی لالو کھیت کہلاتا تھا، جہاں مختلف حکومتوں نے بے روزگاری اور افلاس کی فصل کاشت کی اور پھل کی صورت میں پتھر کھائے۔ شہید ملت لیاقت علی خان سے منسوب اس بستی میں ایک زمانے میں شہادت بلامطلوب ومقصود عام تھی۔ شہادتیں اس علاقے کے باسیوں کا مقدر بنیں اور مال غنیمت اور کشور کشائی دوسروں کے حصے میں آئی۔

اب ہم ناظم آباد سمیت کئی بستیوں کو چھوڑتے ہوئے لیاری میں داخل ہوئے۔ یہ شہر کی قدیم ترین آبادیوں میں سے ایک ہے، چناں چہ ”اولڈ از گولڈ“ کے محاورے کے تحت اسے چمکتا دمکتا علاقہ ہونا چاہیے تھا، مگر یہ علاقہ غربت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے، جہاں واحد چمکتی چیز وہ ”سفید سفوٖف“ ہے جو ”ولن“ ہونے کے باوجود ہیروئن کہلاتا ہے۔

لیاری کے بعد ہماری منزل ایم اے جناح روڈ تھی۔ یہ کبھی بندرگاہ کے حوالے سے بندر روڈ کہلاتی تھی، لیکن اب ریلیوں اور جلوسوں کی وجہ سے یہ سڑک اکثر بند رہتی ہے، لہٰذا لوگ اسے بند روڈ کہنے لگے ہیں۔ اس شاہ راہ پر واقع اہم ترین مقام مزار قائد ہے۔ حکومت نے مزارقائد کے گرد ایک خوب صورت باغ لگا دیا ہے۔ نوجوان جوڑوں کی کھیپ کی کھیپ ہر روز مزار قائد پر حاضری دینے آتی ہے اور باغ قائد اعظم میں بیٹھ کر ”یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران“ گاتی ہے۔ اس شاہ راہ پر آگے چلیں تو نشتر پارک آتا ہے۔ یہ دنیا کا واحد ”الاسٹک“ کا بنا ہوا پارک ہے، جس میں چند ہزار نفوس کی گنجایش ہے، لیکن سیاسی جلسوں کے دوران یہ پارک لاکھوں افراد کو اپنے اندر سمولیتا ہے۔ اپنی اس خصوصیت کی بنا پر نشتر پارک کو ”گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز“ میں جگہ ملنی چاہیے، مگر مغربی دنیا کے مسلمانوں سے تعصب کے باعث یہ پارک اس اعزاز سے اب تک محروم ہے۔

ایم اے جناح روڈ کی دھوئیں سے آلودہ فضا اور گاڑیوں کے شور نے ہماری طبیعت ایسی مکدر کی کہ شہر کی گنجان آباد غریب بستیوں کے سفر کا ارادہ ترک کرکے ہم ڈیفنس سوسائٹی اور کلفٹن کی جانب رواں ہوگئے۔ یہ آبادیاں درحقیقت دو سمندروں کے درمیان واقع جزائر ہیں، جن کے سامنے بحیرۂ عرب ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور عقب میں غربت، بھوک بیماری، بے روزگاری اور دیگر لاتعداد مصائب کے بحر ظلمات کی لہریں ساحل امید پر سر پٹخ پٹخ کر ناکام ونامراد لوٹ رہی ہیں۔ وسیع وعریض محلات سے مزین ان علاقوں کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے آپ کسی ایسے الف لیلوی شہر کی سیر کررہے ہوں، جس کے باسی کسی عذاب کا شکار ہوکر اپنے قصور خالی چھوڑ گئے ہیں۔ لیکن کسی کوٹھی کے اونچے دروازے سے زن سے نکلتی کوئی بیش قیمت گاڑی آپ کی یہ غلط فہمی دور کر دیتی ہے۔ ان بستیوں کے مکینوں کی اکثریت صرف شہریت اور پاسپورٹ کے اعتبار سے پاکستانی ہے ورنہ ان کے انداز واطوار، بول چال، چال ڈھال اور طرز رہایش و ذہنیت سب بدیسی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ انگریز حکم رانوں کی نشانیاں اور امریکی تہذیب کا نشان ہیں۔ ان علاقوں میں ہم جیسے ”مڈل کلاسیے“ کا پاپیادہ سفر ہمیں مشکوک بناکر مشکل میں ڈال سکتا تھا، اس لیے ہم نے ان بستیوں کی مختصر سیاحت کے بعد اپنے گھر کی راہ لی۔

آپ کے لیے ہمارا یہ مختصر سفر نامہ اس لحاظ سے خاصا بے زار کردینے والا اور مایوس کُن ہو گا کہ یہ وجود زن سے تہی ہے۔ مگر کیا کریں، مستنصر حسین تارڑ اور دیگر سیاحوں نے جن علاقوں کا سفر کیا وہاں خواتین و حضرات بسوں اور ٹرینوں میں ساتھ ساتھ براجمان ہوتے ہیں، چناں چہ اس بات کا پورا امکان ہوتا ہے کہ کوئی حسینہ ان سیاحوں کے کندھے پر سر رکھ کر سورہے اور زیب داستاں بن جائے، لیکن کراچی کی بسوں میں خواتین کے حصے میں سلاخیں لگا کر اسے مردوں کے لیے (ماسوائے کنڈیکٹر) ممنوعہ علاقہ قرار دے دیا گیا ہے، اس باعث کسی کم عمر حسینہ تو کجا کسی ادھیڑ عمر بدصورت بی بی کے قربت کی امید بھی ناپید ہوگئی ہے۔ لہٰذا مختلف بسوں میں دوران سفر ہمارے شانے پر کوئی نہ کوئی خان صاحب اپنی بھاری بھرکم ”سری“ رکھے خراٹے لیتے اور اپنے لعاب کا خزانہ ہماری دھلی دھلائی قمیص پر لٹاتے رہے۔ ہم نے ان مناظر کا تفصیلی تذکرہ محض اس لیے نہیں کیا کہ یہ مناظر زیب داستاں کے بہ جائے ”عیب داستاں“ بن جاتے۔

(معروف طنز و مزاح نگار محمد عثمان جامعی کے فکاہیہ مضامین کے مجموعے "کہے بغیر” سے انتخاب)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں