اشتہار

سندھ کے نام وَر مؤرخ اور ادیب مولائی شیدائی کی برسی

اشتہار

حیرت انگیز

12 فروری 1978ء کو سندھ کے تاریخی شہر سکھر میں مولائی شیدائی اس عالمِ رنگ و بُو کو چھوڑ کر دارِ بقا کو چل دیے تھے۔ وہ علم و ادب اور تاریخ‌ نویسی میں‌ مستند اور صحافت کے میدان کے ایک جیّد تھے جن کی وفات کے ساتھ ہی ملک میں‌ علمی تحقیق کا ایک روشن باب بھی بند ہو گیا۔ آج مولائی شیدائی کی برسی ہے۔

سندھی زبان کے اس معروف ادیب، مؤرخ، صحافی اور مترجم کا اصل نام میر رحیم داد خان تھا، لیکن انھیں‌ اہلِ قلم کے درمیان مولائی شیدائی کے نام سے پذیرائی ملی۔ ان کا سنہ پیدائش 1894، اور سندھ کا تاریخی شہر سکھر ان کا جائے پیدائش تھا۔ والد کا نام میر شیر محمد خان تھا۔ مولائی شیدائی نے ابتدائی تعلیم مولوی خدا بخش ابڑو اور مولوی محمد عظیم بھٹی سے حاصل کی اور مطالعہ کی عادت نے ان میں علمی اور ادبی ذوق و شوق پیدا کیا۔ انھوں نے سکھر کے اینگلو ورنیکیولر اسکول میں داخلہ لے کر چھے درجہ تک انگریزی کی تعلیم حاصل کی تھی اور پھر تعلیم ادھوری چھوڑ کر ملازمت شروع کردی۔

مطالعہ کے شوق اور تاریخ نویسی میں دل چسپی نے انھیں‌ خود بھی لکھنے لکھانے پر اُکسایا اور بعد کے برسوں‌ میں‌ مولائی شیدائی نے بطور مصنّف اور مترجم اپنے کام کی بدولت نام و مقام بھی بنایا۔

- Advertisement -

1934 میں مولائی شیدائی کا پہلا مضمون ‘‘ممتاز محل’’ کے عنوان سے شایع ہوا تھا۔ اس مضمون کو پڑھ کر اس زمانے کی ایک علمی و ادبی شخصیت اور عالمِ دین مولانا دین محمد وفائی نے مولائی شیدائی کی بہت تعریف اور حوصلہ افزائی کی۔ یوں انھوں نے مولائی شیدائی کا قلمی نام اختیار کرکے باقاعدہ لکھنا شروع کیا۔

رحیم داد خان المعروف مولائی شیدائی نے متعدد ملازمتیں کیں اور محکمۂ ٹریفک سے ریلوے میں نوکر ہوگئے تھے۔ اس عرصہ میں مضامین تحریر کرنے اور علمی و تحقیقی کاموں‌ کی اشاعت کا سلسلہ بھی جاری رہا اور جب 1939 میں محکمے سے ریٹائر ہوئے تو مولائی شیدائی نے باقاعدہ صحافت کا بھی آغاز کر دیا۔

وہ زبان و بیان پر عبور رکھتے تھے۔ اپنے قلم سے انھوں نے بالخصوص تاریخ نویسی اور تراجم کا کام انجام دیا۔ قابل اور باصلاحیت مولائی شیدائی نے سندھی کے متعدد معروف جرائد کی ادارت کی جن میں کاروان، مہران اور ہلالِ پاکستان شامل ہیں۔ ان سے متعلق تذکروں میں لکھا ہے کہ وہ روزنامہ آزاد میں معاون مدیر بھی رہے اور یہ 1941 کی بات ہے۔

جنّتُ السّندھ اور تاریخ تمدنِ سندھ مولائی شیدائی کی وہ دو تصانیف ہیں جنھیں اہم اور گراں قدر علمی سرمایہ کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مولائی شیدائی نے تاریخِ خاصخیلی، تاریخِ سکھر، تاریخ بھکر، تاریخِ قلات اور متعدد دیگر تصانیف چھوڑی ہیں جو بہت مستند اور قابلِ ذکر ہیں۔ 1950ء میں وہ اپنی علمی استعداد اور قابلیت کی بدولت سندھ یونیورسٹی کے ریسرچ فیلو مقرر ہوئے تھے۔ فیلو شپ کے دوران ہی ان کی دو شاہ کار کتابیں سندھ کی تاریخ‌ پر سامنے آئی تھیں۔ سندھ کے علاوہ بلوچستان کی تاریخ پر ان کی کتابیں مستند ماخذ کا درجہ رکھتی ہیں۔ مولائی شیدائی نے علمی و ادبی حلقوں کے علاوہ عام لوگوں کو بھی اپنی کاوشوں سے متأثر کیا اور گراں قدر علمی خدمات کے سبب داد اور ستائش پائی۔

وہ ساری زندگی سکھر میں قیام پذیر رہے اور وہاں اپنا مکان تعمیر کروایا تھا جس میں زندگی کے آخری ایّام تک قیام پذیر رہے، مولائی شیدائی کو سکھر ہی میں‌ ٹیکری آدم شاہ میں ہی آخری آرام گاہ بھی نصیب ہوئی۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں