جمعہ, مئی 24, 2024
اشتہار

قلم اور قدم سے سفر

اشتہار

حیرت انگیز

نوال السعدوی قلم اور تحریر کو سب سے بڑا ہتھیار تصور کرتی تھیں۔ وہ کہتی تھیں، موت کی طرح تحریر کو بھی کوئی ہرا نہیں سکتا۔

حقوقِ نسواں کی علم بردار، سماجی کارکن، ڈاکٹر اور ادیبہ نوال السعدوی نے پوری زندگی موت کی دھمکیوں کا سامنا کیا، جیل بھی گئیں، لیکن مصر کی اس مصنّفہ نے جرأت مندی کے ساتھ قدامت پرستی، عورتوں‌ پر جنسی تشدد اور مصر میں‌ عورتوں‌ کے سماجی اور سیاسی استحصال کے خلاف قلم کو متحرک رکھا۔

اُنھوں نے بالخصوص دیہات میں عورتوں کے ساتھ رسم و رواج یا مذہب کی آڑ میں ہونے والے استحصال کے خلاف بھی بے باکی سے لکھا۔ عالمی سطح پر ان کی رائے کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ نوال السعدوی کی ایک تحریر کا ترجمہ معروف شاعرہ اور ادیبہ کشور ناہید نے کیا ہے، جس میں نوال السعدوی اس بات پر نازاں ہیں‌ کہ وہ ایک لیکھک ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

- Advertisement -

"میرا تعلق اُس معاشرے سے ہے جہاں لڑکی کی پیدائش کو نحوست اور بدنصیبی تصور کیا جاتا تھا۔ اگر پیدا ہو کر زندہ بھی رہیں تو اوّل تو لڑکی کی اندامِ نہانی کو سی دیا جاتا تھا۔ دس سال کی عمر میں اس کی شادی کر دی جاتی تھی۔ ہم لوگ چھ بہنیں اور تین بھائی تھے۔ کئی دفعہ میرے باپ نے تعلیمی اخراجات سے تنگ آکر کہا کہ مجھے اسکول سے اٹھا لیا جائے تاکہ میں ماں کی بچّوں کو سنبھالنے میں مدد کرسکوں، مگر میری ماں بہت بہادر عورت تھی۔ وہ نو بچوں، اپنے باپ اور شوہر کی خدمت کرتے کرتے پینتالیس سال کی عمر میں وفات پاگئی۔

میری ماں کے دودھ کی خوشبو آج تک میری تحریروں میں ہے۔ میرے استاد مجھ سے کلاس میں پوچھتے تھے، "یہ السعدوی کون ہے؟” اور میں جواب دیتی، حضرت موسیٰ کی طرح کا ایک بچّہ جو پالنے میں پڑا نیل کی لہروں پر تیرتا ہوا آیا تھا۔ وہ نامعلوم مقام سے آیا تھا۔ اس کا نام اسعدوی تھا۔ میں بھی نامعلوم مقامات کی سمت قلم اور قدم سے سفر کے لیے نکلی ہوں، اس لیے میرا نام بھی اسعدوی ہے۔”

"مجھے محسوس ہوتا تھا کہ جنّت اور خدا، ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ میں نے میڈیکل کی کتابوں کے ساتھ ساتھ لکھنا اور ادب پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ خواب میں بھی میں نے خود کو ڈاکٹر کے طور پر کبھی نہیں دیکھا، ہمیشہ ادیب کے طور پر دیکھا تھا۔ میں جب بھی اپنے خواب سناتی تو میری سہیلیاں کہتیں، روٹی روزی تمہیں ادب لکھنے سے نہیں میڈیکل کی پریکٹس ہی سے ملے گی۔ جب میرا پہلا مضمون شائع ہوا تو میں اپنا نام دیکھ کر یوں محسوس کررہی تھی، جیسے میرا نام چاند لکھا گیا ہو۔ البتہ میرا مضمون پڑھ کر میرے ابا بہت ہنسے تھے اور کہا تھا تم سب کی باتیں بہت اچھی نوٹ کرتی ہو۔ اس زمانے میں دوسری لڑکیاں اپنی کتابوں میں محبت نامے رکھ کر، اپنے دوستوں کو بھیجا کرتی تھیں۔ میں تو ڈاکٹر بن کی بھی نہرِ سویز کے قامیانے پر تیار ہو گئی تھی کہ میں بھی بارڈر پر جاکر لڑائی میں حصہ لوں گی۔ وہ تو جنگ ہی بند ہوگئی تھی۔ اب مجھے احساس ہوا کہ ڈاکٹر تو بہت ہیں مگر میرے اندر جو لکھنے کی طاقت ہے، وہ ہر ایک کے پاس نہیں ہے۔ بس یہی احساس تھاکہ میں اب تک لکھ رہی ہوں۔”

نوال السعدوی نے اپنی زندگی میں کبھی سمجھوتا نہیں کیا؛ خواہ وہ ان کی ذاتی زندگی کا معاملہ ہو یا پھر ہر عورت کے حق کی اور انصاف کی لڑائی ہو۔ وہ موقع پرست نہیں تھیں، اور انعام و اکرام یا اپنی جان کی خاطر اپنے نظریات سے دستبردار نہیں ہوئیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں