جمعہ, مئی 10, 2024
اشتہار

رافیل اور اس کے شاہکار

اشتہار

حیرت انگیز

اطالوی مصوری کی دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک مصوّر موجود ہے، جنہوں نے آرٹ کی دنیا پر حکمرانی کی، لیکن ایسے مصور بھی ہیں، جنہیں زندگی نے مہلت کم دی، لیکن پھر بھی آرٹ کی دنیا میں انہوں نے اپنی قابلیت کا سکہ چلایا۔ اطالوی مصوّر ‘رافیل Raphael’ بھی ایسا ہی نبض شناس مصوّر تھا۔

سولہویں صدی کے وسط میں رافیل کا شمار دنیا کے بہترین مصوروں میں ہونے لگا تھا۔ اس نے مصوّری کے تمام مروجہ معیارات کو چھو لیا تھا۔

رافیل کا آرٹ ورک تین حصّوں پر مشتمل ہے۔ اوّل، اپنے کریئر کی ابتدا میں کیا ہوا کام، جس میں تقریباً 21 فن پارے تخلیق کیے۔ دوم، وہ کام جو اس نے فلورنس میں کیا، اس عرصے میں کوئی 27 شاہکار بنائے اور سوم، وہ دور جب اس نے روم میں قیام کیا۔ رافیل کے عہد میں اس کے علاوہ مائیکل اینجلو اور لیونارڈو ڈاونچی جیسے ماہر مصور بھی کام کر رہے تھے۔ اس لیے یہ عہد مصوری کا ”ثلاثی عہد“ بھی کہلاتا ہے۔ ایک ایسا دور جس میں مصوری کے اساتذہ اپنی فنی مہارت کو کینوس پر بکھیر رہے تھے۔ اجسام کی مصوری میں رافیل کے کام کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

- Advertisement -

رافیل کی بنائی ہوئی مشہورِ زمانہ پینٹنگز میں دو بہت مقبول ہیں، جن میں سے ایک ”اسکول آف ایتھنز“ ہے۔ یہ تصویر دنیا کی ان چند پینٹنگز میں سے ہے جو es Fresco تکنیک پر بنی ہوئی ہے۔ Fresco تکنیک کی بنیاد Mural Painting ہے، یعنی ایسی پینٹنگ جو براہِ راست دیوار پر بنائی جائے۔ یہ تصویر 1510 سے 1511 کے درمیانی عرصے میں بنائی گئی۔ اسکول آف ایتھنز کے جمالیاتی پہلو بیان کرتے ہیں کہ رافیل نے کینوسز اور دیواروں پر ایک دنیا آباد کی۔

ایک ایسا جہاں، جس میں ارسطو اور افلاطون جیسے مفکر اور فلسفی محوِ گفتگو ہیں۔ دنیا کے دیگر عالم بھی سوچ میں غرق ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ حسن کی پیکر دیویاں بھی اس تصویر میں نمایاں ہیں۔ بچوں کی معصومیت اور زندگی کے رنگ، ان کے لباس اور چہرے کے تاثرات سے چھلک رہے ہیں۔

رافیل کی دوسری مشہور پینٹنگ ”دِی ویژن آف اِے نائٹ“ ہے۔ اس تصویر کو بنانے کے لیے اس نے مصوری کی ایک خاص تکنیک ”Egg Rempera“ کا استعمال کیا، یعنی پانی اور انڈے سمیت کئی اجزا کے عناصر کے پیسٹ سے پینٹنگ بنائی۔ اس تکنیک کو مصوری میں کلاسیکی درجہ حاصل ہے۔

اس پینٹنگ کا جمالیاتی پہلو یہ ہے، ایک جنگجو صرف تلوار اور کشت و خون کا ہی دلدادہ نہیں ہوتا۔ اس کو صرف جسم پر ہی زخم نہیں لگتے، بلکہ زندگی کی لڑائی میں اس کی روح بھی گھائل ہوتی ہے۔ اس کے خواب بھی ٹوٹتے ہیں۔ وہ پا پیادہ زندگی کو جینے اور اپنے آدرشوں کو پالینے کی تمنا لیے تشنگی کی راہ پر چلتا رہتا ہے۔ یہ تصویر بھی کچھ ایسے ہی جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔

(فلمی ناقد، تحقیقی مضمون نگار اور مصنف خرّم سہیل کے ایک مضمون سے منتخب کردہ)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں