اتوار, مئی 19, 2024
اشتہار

سحرؔ کی کراچی آمد اور سی آئی ڈی کا آدمی

اشتہار

حیرت انگیز

”یادوں کا جشن“ اردو کے ممتاز شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی کی آپ بیتی ہے جس میں اُن کے دور کے معروضی حالات کے ساتھ کئی دل پذیر واقعات اور پُراثر باتیں ہمیں‌‌ پڑھنے کو ملتی ہیں۔ یہ کتاب 1983 میں منظرِ عام پرآئی تھی۔ کنور مہندر سنگھ بیدی کا تخلّص سحر تھا اور ہندوستان ہی نہیں پاکستان بھر میں انھیں بطور شاعر پہچانا جاتا تھا۔

یہ بھی پڑھیے:‌ کنور صاحب کی بذلہ سنجی

کنور مہندر سنگھ بیدی 1909ء میں منٹگمری (موجودہ ساہیوال) میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم کے بعد وہ بھارت کے شہری ہوگئے اور وہیں دہلی میں وفات پائی۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ پہلی مرتبہ 1956ء میں کراچی آئے جس کا ذکر انھو‌ں نے اپنی آپ بیتی میں کیا ہے۔ مہندر سنگھ بیدی سحر لکھتے ہیں:

- Advertisement -

"جب میں کراچی پہنچا تو بہت سے دوست مجھے جانتے تھے اور بہت سے جو مجھے نہیں بھی جانتے تھے، ہوائی اڈے پر موجود تھے۔ کراچی میں پورے سال میں آٹھ، دس انچ بارش ہوتی ہے، اُس روز ایک ہی دن میں چھ انچ بارش ہو چکی تھی اور کراچی کے لحاظ سے شدید سردی کا موسم تھا، مگر اس کے باوجود میرے دوست احباب نے پُرتپاک استقبال کیا۔

میرے ساتھ چند اور دوست بھی دہلی سے گئے تھے، ان کے قیام کا انتطام بھی وہاں کے بہترین ہوٹلوں میں کیا گیا تھا مگر مجھے میرے پرانے دوست سلطان جاپان والا اپنے پاس لے گئے اور اپنے ہوٹل نازلی میں ٹھہرایا، میں پانچ، چھ دن وہاں ٹھہرا۔ اس قیام میں دوستوں نے اس قدر اور مہمان نوازی کا ثبوت دیا کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔

دعوتوں کا یہ عالم تھا کہ صبح ناشتے سے شروع ہوتی تھیں۔ ناشتے کے بعد دو، دو تین، تین جگہ کافی، پھر لنچ اس کے بعد کئی کئی جگہ چائے اور پھر کلام و طعام کی محفلیں سجتی تھیں، جن لوگوں کے ہاں شام کی چائے پینی ہوتی ناشتے کے وقت سے ہمارے ساتھ ہو لیتے تھے، جہاں بھی میں جاتا دس، بارہ موٹر گاڑیاں میرے ساتھ رہتی تھیں۔ اچھا خاصا جلوس سا دکھائی دیتا تھا۔

اس قیام کے دوران مجھے دہلی کے سب ہی پرانے دوست ملے، جس شام مجھے کراچی سے رخصت ہو کر واپس دہلی آنا تھا، اُس روز صبح سویرے ہی ایک صاحب نے مجھے اپنے گھر لے جانے کی درخواست کی، یہ صاحب پہلے ہی دن میرے ساتھ تھے بلکہ مجھے سلا کر جاتے تھے اور میرے بیدار ہو نے سے پہلے ہی آجاتے تھے اور مجھ سے ملنے والوں کی چائے پانی سے تواضع کرتے۔ ان کی خدمت گزاری سے بہت متاثر ہو کر جی چاہتا تھا کہ میں بھی ان کے لیے کچھ کروں جس روز مجھے وہاں سے دہلی واپس آنا تھا، وہ حسبِ دستور اس روز بھی صبح سویرے میرے کمرے میں آگئے اور اس سے پیشتر کہ میں ان سے کچھ کہوں وہ خود ہی مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے کہ میں آپ کے سامنے یہ انکشاف کر رہا ہوں کہ میں سی۔آئی۔ ڈی کا آدمی ہوں اور میری ڈیوٹی لگائی گئی تھی کہ میں آپ کے ساتھ رہوں۔ اور دیکھوں کہ کون کون آپ سے ملنے کے لیے آتا ہے اور آپ سے کیا بات چیت ہوتی ہے۔ میں آپ سے اس قدر مانوس ہو چکا ہوں کہ آپ کو یہ سب بے تکلفی سے بتا رہا ہوں۔ اب میری ایک خواہش ہے اور یہ کہ آپ میرے گھر چلیے میری بیوی اور گھر کے دیگر لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔

اس نے اس محبت سے یہ بات کہی کہ میں انکار نہ کر سکا۔ وہ میرا کراچی میں آخری دن تھا اور مجھے کئی جگہ الوداع کہنے کے لیے جانا تھا مگر میں نے اس سے اس کے گھر چلنے کا وعدہ کرلیا۔ چنانچہ تیار ہو کر میں اس کے ساتھ ہو لیا اور بھی کئی دوست میرے ہمراہ تھے۔ جب اس کا گھر نزدیک آیا تو ہم سب رک گئے اور وہ باقی حضرات سے معذرت کر کے صرف مجھے ساتھ لے کر اپنے گھر لے آیا۔ اس کا گھر گلی میں واقع تھا۔

میں دروازے پر رک گیا۔ لیکن اس نے کہا کوئی مجھ سے پردہ نہیں کرے گا، میں اندر آجاؤں چنانچہ میں گھر کے اندر داخل ہوا۔ گھر میں اس وقت صرف اس کی بیوی تھی۔ اس نے ایک صاف تھالی میں کچھ پھل وغیرہ پیش کیے۔ میں نے شکریہ ادا کیا۔

کچھ دیر رکنے کے بعد میں نے اجازت چاہی تو وہ کہنے لگا میرے ہاں بچہ ہونے والا ہے۔ دعا کیجیے کہ وہ آپ کی طرح صالح اور نیک ہو۔ مجھے یہ سن کر اپنے گناہوں کا احساس ہوا اور میں نے اُس سے کہا کہ میں ایک گناہ گار آدمی ہوں، مگر وہ بضد رہا۔ آخرکار میں نے اُس ہونے والے بچے کی درازیٔ عمر اور خوش حالی کی دعا مانگی۔

اُس کی بیوی کے سر پر ہاتھ رکھا اور اُن سے رخصت لی۔ میرے دل پر اس واقعے کا بہت دیر تک اثر رہا۔ اب جب بھی یاد آتا ہے تو اس شخض کی فراخ دلی، اعتماد، صاف گوئی اور غیر متعصب جذبے کی داد دیتا ہوں۔ مجھے قلق اس بات کا کہ اُس سے اس کا ایڈریس نہ لے سکا ورنہ واپس آکر اسے شکریہ کا خط لکھتا۔‘‘

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں