پیر, جون 23, 2025
ہوم بلاگ صفحہ 10124

ساٹھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

0

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

فیونا ٹوٹی ہوئی چٹانوں پر چڑھ کر غار کے اندھیرے سے روشنی میں آ گئی۔ پفن نامی پرندوں کی تلاش میں وہ پہاڑوں کی طرف احتیاط سے دوڑنے لگی۔ اسے معلوم تھا کہ پفن پہاڑی کی کھڑی چٹانوں سے لٹکے ہوئے ہوتے ہیں، اس لیے وہ سب سے قریبی کھڑی چٹان کو ڈھونڈنے لگی۔ راستے میں آنے جانے والوں سے پوچھنے کے بعد فیونا ایک کھڑی چٹان کی طرف دوڑ پڑی۔ پتھروں اور سبزے والی جگہوں سے گزرنے کے بعد جب وہ کھڑی چٹان کے اوپر پہنچ گئی تو رک کر اپنی بے ترتیب سانسیں درست کرنے لگی۔ حواس بحال ہوئے تو پفن نامی پرندوں کو وہاں دیکھ کر خوش ہو گئی۔ وہ پیٹ کے بل لیٹ کر احتیاط سے کھڑی چٹان کے اوپری کنارے پر پہنچ گئی۔ ہزاروں فٹ نیچے سمندر کو دیکھ کر اس کے بدن میں خوف کی لہر دوڑ گئی اور وہ چٹان پر لیٹے لیٹے پریشانی کے عالم بڑبڑانے لگی: ’’میں اب ان پرندوں کو اپنے پیچھے کس طرح لگا لوں؟ کیا کوئی میری مدد کر سکتا ہے کہ میں کیا کروں؟‘‘

سمندر کی لہریں چٹان کی دیوار سے مسلسل ٹکرا رہی تھیں۔ اس ٹکراؤ میں ایک عجیب سی دھن تھی، ایک آہنگ تھا۔ یہ دھن اور آہنگ وہ ہوا کے ذریعے اوپر تک پہنچنے والے ننھے چھینٹوں کے ساتھ سن رہی تھی۔ اسے کوئی اشارہ نہیں ملا تھا لیکن سوچتے سوچتے وہ بے خیالی میں منھ سے سیٹی کی مانند ویسے ہی دُھن نکالنے لگی جو سمندر کی لہریں چٹان سے ٹکرانے سے پیدا ہو رہی تھی۔

’’ہیں … یہ دھن میں بھلا کیوں گنگنانے لگی ہوں، مجھے تو آتا بھی نہیں ہے۔‘‘ وہ تعجب سے بڑبڑائی۔ لیکن اس نے وہ دھن گنگنانا نہیں چھوڑا۔ ایسے میں اچانک چند پرندے اڑ کر چٹان کی چوٹی پر آ گئے، اور فیونا انھیں دیکھ کر حیرت کے مارے اچھل پڑی۔

’’ارے یہ تو کمال ہو گیا، یعنی مجھے ہیملن کا پچرنگی بانسری بجانا والا بننا پڑے گا، جب میں سیٹی بجاؤں گی تو یہ پرندے میرے پیچھے پیچھے اڑ کر آئیں گے۔ اگرچہ میری سیٹی اتنی اصلی نہیں ہے تاہم یہ اثر کر رہی ہے۔‘‘

فیونا زیادہ بلند آواز سے وہ مخصوص دھن منھ سے نکالنے لگی اور اس نے دیکھا سیکڑوں پرندے اڑ کر آئے اور آس پاس گھاس پر بیٹھ گئے۔ فیونا خوشی سے چہکنے لگی: ’’بہت خوب میرے پیارے پرندو، مجھے تمھاری دھاری دار چونچیں اور نارنجی پنجے بے حد پسند ہیں، ٹھیک ہے اب تم سب میرے پیچھے آؤ۔‘‘

فیونا پہاڑی سے اتر کر گنگنانے لگی اور سیکڑوں کی تعداد میں آنے والے پرندے جلد ہی ہزاروں کی تعداد میں بدل گئے۔ وہ لاوا غار کی طرف تیزی سے بڑھنے لگی۔ چلتے چلتے وہ بڑبڑائی: ’’جس نے بھی میری مدد کی ہے، اس کا بہت بہت شکریہ۔‘‘

غار کے پاس پہنچ کر اس نے مڑ کر دیکھا تو سحر زدہ ہو گئی۔ اس نے خود کلامی کی: ’’اوہ یہ تو ایک لاکھ ہوں گے۔ لیکن اب مزا آئے گا، میری یہ پرندوں کی فوج درندوں کی ایسی تیسی کر دے گی۔‘‘

وہ پرندوں کے سامنے اس طرح کھڑی تھی جیسے کوئی کمانڈر اپنی فوج کے آگے تن کر کھڑا ہوتا ہے۔ اس نے بلند آواز میں کہا: ’’میں تم سب سے ایک کام لینا چاہتی ہوں، یہ سوراخ تم سب کو نظر آ رہا ہے نا۔‘‘ فیونا نے انگلی سے غار کے دہانے کی طرف اشارہ کیا۔ ’’اگر تم اس کے اندر اڑ کر جاؤ گی تو تمھیں اندر چار عدد ٹرال ملیں گے۔ میں چاہتی ہوں کہ تم سب ان پر حملہ کر دو۔ ان کی موٹی ناکیں، ان کے بد نما انگوٹھے، ان کی آنکھیں، کان اور جو کچھ تم چاہو نوچ لو۔ اور اس وقت تک انھیں نوچتے رہو جب تک وہ غار سے باہر نہ نکلیں۔ کیا تم سب میری بات سمجھ گئے ہو؟‘‘

کوئی بھی پرندہ الفاظ میں تو کچھ نہ کہہ سکا البتہ انھوں نے اپنی مخصوص آوازوں سے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ فیونا غار کی طرف بڑھنے لگی، دہانے پر پہنچ کر وہ مڑی اور کہا: ’’ابھی باہر ٹھہرو تم سب، میں پہلے اندر جا کر دانیال کو بتاتی ہوں، جب میں گانے لگوں تو تم سب اندر آ کر ٹرالز پر حملہ کر دینا۔ اس دوران میں اور دانیال مل کر جبران کو آزاد کر کے بھاگ جائیں گے، اب میں اندر جاتی ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر وہ اندر چلی گئی جب کہ پرندے غار کے دہانے پر منڈلانے لگے۔ دانیال نے اسے اندر آتے دیکھا تو اس کی جان میں جان آ گئی۔’’اوہ فیونا تم واپس آ گئی، میں بہت ڈرا ہوا تھا کہ پتا نہیں کیا ہو جائے گا اس دوران، کیا تم مدد لے آئی ہو؟‘‘

فیونا نے کہا کہ جو میں لے کر آئی ہوں اس پر تم کبھی یقین نہیں کر پاؤ گے۔ میرے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں پرندے ہیں، تم یہیں ٹھہرو ذرا۔ پھر وہ غار میں بے خوفی کے ساتھ آگے بڑھی، اس نے دیکھا تینوں ٹرالز نے آگ بھڑکا دی تھی اور اب لکڑی کے ٹکڑے کاٹ رہے تھے۔ اس نے انھیں بہادری سے للکارا: ’’ہیلو گندے اور بدبودار درندو، میں تم سے بالکل نہیں ڈرتی۔‘‘

دانیال کو یہ دیکھ کر اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ وہ ایک بدلی ہوئی فیونا کو حیرت سے دیکھنے لگا۔ جبران نے بھی آنکھیں گھما کر ان کی طرف دیکھنے کی کوشش کی۔ ’’فیونا … تم کیا کرنے والی ہو؟‘‘ جبران کی چیخ وسیع غار میں انھیں ایک سرگوشی کی طرح سنائی دی۔ ٹرال کو شاید اس کا بولنا اچھا نہیں لگا اس لیے اس نے اپنا بھاری بھر کم پیر فرش پر پڑے جبران کی پیٹھ کر رکھ دیا۔ جبران کے منھ سے دبی دبی چیخ نکل گئی۔ فیونا غصے میں چلائی: ’’بے وقوف درندو، تم میرے دوست کو لنچ سمجھ کر نہیں کھا سکتے، میں تم سب کا بندوبست کر کے آئی ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر وہ گنگنانے لگی اور ٹرال غضب ناک ہو کر فیونا کی طرف بڑھنے لگے۔

(جاری ہے)

سرفراز کمال کے گلوکار نکلے، ویڈیو وائرل

0

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سرفراز احمد اور کرکٹراعظم خان کی دلچسپ ویڈیو وائرل ہوگئی ہے۔

کیریبیئن پریمیئر لیگ کی جانب سے شیئر کی گئی ویڈیو میں سابق کپتان سرفراز احمد اور کرکٹر اعظم خان نے گٹار کے ساتھ گانا گایا جو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی۔

ترپن سیکنڈ دورانیے کی ویڈیو میں اعظم خان گٹار پر دھن بجاتے ہیں جب کہ سرفراز احمد کو ایک کلاسیکل گانا گنگناتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

گانے کے بول ‘ایک پیار کا نغمہ ہے، موجوں کی روانی ہے، زندگی اور کچھ بھی نہیں، تیری میری کہانی ہے’ سرفراز احمد کا یہ مخصوص انداز شائقین کو بھاگیا۔

ویڈیو ٹائم لائنز پر وائرل کیا ہوئی، سوشل میڈیا صارفین نے سرفراز سے اپنے پسندیدہ گانوں کا ذکر کرتے ہوئے ان سے وہ بھی سنانے کی فرمائش کی۔

دیکھنے والوں نے سرفراز احمد اور اعظم خان کی مہارت کی داد دی تو ایک انڈین فین نے لکھا کہ ’اب آپ انڈین گانے گا رہے ہیں اور چیمپیئنز ٹرافی کے بعد کراچی میں آپ انڈیا کو ٹرول کر رہے تھے۔‘

کرکٹرز کی گلوکاری پر تبصرہ کرنے والوں نے ان کے گانے کے انتخاب کی داد بھی دی۔

روہت نامی صارف نے سرفراز احمد کو ’لوٹ آنے‘ کی دعوت دی تو لکھا کہ ’کوئی تھا جو وکٹ کے پیچھے سے گیم بدل دیا کرتا تھا۔

سائنس سے تصدیق شدہ طریقوں کو آزمائیں اور وزن کم کریں

0

لوگوں کے لیے وزن کم کرنا کافی جان جوکھوں کا کام ہو سکتا ہے، لیکن اگر تھوڑی سی توجہ دی جائے تو اس مسئلے کا حل بھی موجود ہے، دنیا کی ایک بڑی آبادی موٹاپے کا شکار ہے اور وہ اس سے نجات کے لیے مختلف جتن بھی کرتی نظر آتی ہے

یہاں آج ہم آپ کو وزن کم کرنے کے کچھ ایسے طریقے بیان بتائیں گے جن کی تصدیق سائنس سے کی جا چکی ہے اور یقیناً اس کے بارے میں آپ نے پہلے کبھی نہیں  سنا ہوگا۔

غذا کو زیادہ چبا کر کھائیں

اکیڈمی آف نیوٹریشن اینڈ ڈائیٹیٹکس کے جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق غذا کو چبا کر کھانا وزن کم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ اس تحقیق میں شامل شرکاء نے غذا کو زیادہ چباکر کھانے میں جتنا وقت صرف کیا اس طرح ان کے کھانے کی مقدار میں واضح کمی دیکھی گئی۔

محققین نے اس کے بارے میں ااگاہی نہین لیکن یہ ایک نظریہ ضرور ہے کہ زیادہ چبانے سے لوگ بہت زیادہ آہستہ کھاتے ہیں اس طرح وہ کم غذا لیتے ہیں۔

کاربو ہائیڈریٹ کا زیادہ استعمال کریں

ایک مفروضہ ہے کہ زیادہ کاربوہائیڈریٹ جسم کے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے تاہم ایسا نہیں ہے۔ آپ کے جسم کو کاربو ہائیڈریٹ کی مناسب مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اس کی مقدار میں اضافہ ہوجائے تو اس سے بھی وزن بڑھ سکتا ہے۔

تھوڑی سی چاکلیٹ کھائیں

یہ  بات درست ہے کہ چاکلیٹ کے شوقین افراد اتنی آسانی سے وزن کم نہیں کر سکتے کیونکہ چاکلیٹ میں موجود کیلوریز اور مٹھاس آپ کا وزن بڑھاتی ہے۔ تاہم ایک تحقیق کے مطابق چاکلیٹ  کی قلیل مقدار بھوک کو کم کر سکتی ہے اس طرح آپ کھانا کم مقدار میں کھائیں گے۔

کھانے کے بغیر ورزش کریں

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ کا ورک آؤٹ طویل وقت اور زیادہ مشقت طلب ہے تو اس سے پہلے پروٹین سے بھرپور غذا لینا ضروری ہے۔ لیکن ورزش سے کتنا پہلے اور کتنی مقدار میں غذا لی جائے یا زیادہ توجہ دینے والی والی بات ہے۔

انٹرنیشنل جرنل آف اسپورٹ نیوٹریشن اینڈ ایکسرسائز میٹابولزم میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق  آپ جو پروٹین کھاتے ہیں وہ 1 گرام فی گھنٹہ سے 10 گرام فی گھنٹہ کے درمیانی وقت میں کبھی بھی ہضم ہوتی ہے۔ لہذا، اگر آپ کا کھانا 25 گرام پروٹین پر مشتمل ہے، تو وہ کھانا آپ کے سسٹم میں کم از کم 25 گھنٹے تک رہ سکتا ہے۔

اس کے علاوہ، نیند کے پیٹرن اور ہائیڈریشن کی سطح بھی وزن کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، لہذا، اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ اچھی طرح سے آرام کر رہے ہیں اور کافی مقدار میں پانی پی رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کھانا اس وقت کھائیں جب بھوک محسوس ہو۔

پھلوں کو سونگھیں

مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ تازہ کیلے، سبز سیب اور ناشپاتی کو سونگھنا بھوک اور میٹھے کی طلب کم کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ پھلوں کی خوشبو ہو سکتی ہے، جو آپ کو لاشعوری طور پر صحت مند اور بہتر انتخاب کرنے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔

ارشد شریف کو ٹارگٹ کرکے قتل کیا گیا، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ

0

اسلام آباد : وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ ارشد شریف کو ٹارگٹ کرکے قتل کیا گیا، کینیا پولیس کی جانب سے غلط شناخت کی بات درست نہیں لگتی۔

تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے پریس کانفرنس میں ارشد شریف قتل کیس کے حوالے سے بتایا کہ کینیاسےجوٹیم واپس آئی ہے میں نے ان سےبریفنگ لی ہے، ابھی کچھ چیزیں مزید انکوائری طلب ہیں۔

وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ میں نے ٹیم سے کہا ہے کہ دبئی بھی جائیں جو ضروری چیزیں حاصل کرنی ہیں وہ کریں، وزارت خارجہ سے درخواست کریں گے کہ کینیا حکومت سےکہیں وہ ڈیٹا فراہم کریں۔

راناثنا اللہ نے کہا کہ اب تک جو تحقیقات سامنے آئی ہے ارشد شریف مرحوم کو قتل کیا گیا ہے، کینیا پولیس نے جو مؤقف اختیار کیا تھا وہ ثابت نہیں ہوتا۔

انھوں نے بتایا کہ دو رکنی ٹیم جو کینیا گئی تھی میں انہیں سراہتا ہوں، انہوں نے محنت اورپروفیشنل انداز سے ایک ایک چیزکو پرکھا ہے۔

وزیرداخلہ نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھا ہے، چیف جسٹس آف پاکستان کسی کو بھی کمیٹی کا سربراہ بنا دیں، ارشد شریف کی والدہ محترمہ ہماری بہن اور قابل احترام ہیں، ہم کوئی بات یا گفتگو ایسی نہیں کرنا چاہتے کہ ان کے دکھوں میں اضافہ ہو۔

راناثنا اللہ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کمیشن کاسربراہ مقررکرتے وقت والدہ سے بھی رائے لے لیں، امید ہے چیف جسٹس آف پاکستان کمیشن کا نام حکومت کو دیں گے اور میں پرامید ہوں ارشد شریف کے قاتلوں کی نشاندہی ہو جائے گی۔

انھوں نے کہا کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن پربات کرناقبل ازوقت ہوگا، جو چیزیں سامنے آئی ہیں سمجھتا ہوں بہت ظلم ہوا ہے، کینیا پولیس سے متعلق بھی سامنے آیا کہ وہ اس طرح کی چیزیں کرنے میں ماہرہیں ، وہاں کی پولیس تو پیسے لے کر بھی ایسےکام کردیتی ہیں۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ فائرکرنے والوں کو معلوم تھا کہ اس گاڑی میں ارشد شریف کون ہے اور ارشد شریف کس سیٹ پربیٹھا ہے، گاڑی ڈرائیو کرنےوالےکوبھی معلوم تھا کہ کیا کرنا ہے، وزیراعظم سے کہوں گا کہ دوبارہ کینیا کے صدر سے بات کریں۔

انھوں نے کہا کہ ارشد شریف کے سامان میں سے بہت ساری چیزیں مل گئیں، کینیا والوں نے کچھ چیزیں دانستہ طور پر نہیں دیں، ارشد شریف کو ٹارگٹ کرکے قتل کیا گیا، کینین پولیس کی جانب سے غلط شناخت کی بات درست نہیں لگتی۔

۔۔۔۔۔۔۔

چند دن میں 70 ہزار سے زائد صارفین نے ٹوئٹر کے متبادل پلیٹ فارم کا رخ کر لیا

0
ٹوئٹر

ٹوئٹر کے نئے مالک ایلون مسک کے تباہ کن اقدامات کے بعد چند دن میں 70 ہزار سے زائد ٹوئٹر صارفین نے ٹوئٹر کے متبادل پلیٹ فارم مسٹوڈن کا رخ کر لیا ہے۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق پچھلے کچھ دنوں میں مسٹوڈن کی طرف 70 ہزار سے زائد نئے صارفین نے رخ کیا ہے، مسٹوڈن پر اس وقت 6 لاکھ 55 ہزار سے زائد صارفین موجود ہیں۔

خیال رہے کہ ایلون مسک کے ٹوئٹر کا کنٹرول سنبھالنے اور اکاؤنٹ کی تصدیق یعنی بلیو چیک کے لیے ماہانہ 8 ڈالر فیس کے اعلان کے بعد صارفین کی بہت بڑی تعداد مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ کا متبادل ڈھونڈ رہی ہے۔

ٹوئٹر کے ویریفائیڈ صارفین کے لئے بڑی خبر آگئی

یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک اور پلیٹ فارم صارفین کی گفتگو میں شامل نظر آنے لگا ہے، اور اس پلیٹ فارم کا نام ہے مسٹوڈن (Mastodon)۔

اسے 2016 میں بنایا گیا تھا، اسے اشتہارات سے پاک پلیٹ فارم بھی کہا جاتا ہے، یہ پلیٹ فارم دیکھنے میں تو ٹوئٹر جیسا ہی نظر آتا ہے لیکن اس میں کافی چیزیں مختلف ہیں، ٹوئٹر پر صارفین ٹویٹ کرتے ہیں لیکن مسٹوڈن پر اس ٹویٹ کو ’ٹوٹ‘ کہا جاتا ہے۔

مسٹوڈن پر سائن اپ کرنے پر آپ سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کون سا سرور جوائن کرنا چاہتے ہیں؟ یہ سرورز آپ کے علاقے، رجحانات اور پیشوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تشکیل دیے گئے ہیں۔

ٹوئٹر نے بھارتی ملازمین پر دکھوں کا پہاڑ گرا دیا

ٹوئٹر پر کافی صارفین یہ کہتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ وہ مسٹوڈن منتقل ہو گئے ہیں لیکن ان کے مطابق اس پلیٹ فارم کا استعمال ٹوئٹر جتنا آسان نہیں۔

برائن بلسٹن نامی صارف نے ایک ٹویٹ میں لکھا ’میرا ٹوئٹر چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں لیکن پھر بھی مسٹوڈن پر اکاؤنٹ بنا لیا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہر کوئی ٹوئٹر سے غائب ہو جائے اور یہاں صرف میں اور ایلون مسک ہی رہ جائیں۔‘

کمپیوٹر سیکیورٹی کے ماہر گراہم کلولی نے ٹوئٹر پر مسٹوڈن کے حوالے سے ہونے والی گفتگو پر ایک طنزیہ ٹویٹ میں کہا ’کس نے سوچا ہوگا کہ ایلون مسک مسٹوڈن کے فروغ کے لیے 44 ملین ڈالرز خرچ کریں گے۔‘

کچھ سوشل میڈیا صارفین نے مسٹوڈن کے استعمال کو انتہائی پیچیدہ بھی قرار دیا۔

جان ملٹن: انگریزی ادب کا درخشاں ستارہ

0

سترھویں صدی کا جان ملٹن اپنی شاعری کے سبب انگریزی ادب میں ممتاز اور دنیا بھر میں اپنے افکار اور تخلیقات کی وجہ سے پہچانا گیا۔ تنقید نگار تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا کے دس بڑے شعرا کی فہرست بنائی جائے اور اس میں ملٹن کا نام شامل نہ ہو تو اسے نامکمل سمجھا جائے گا۔

ملٹن نے جس فضا میں پرورش پائی وہ علمی اور فنی شوق اور تہذیبی نفاستوں کی فضا تھی جو حق پرستی اور حریّت پسندی کے جذبے سے بھی معمور تھی۔ اُس کے گھر کا ماحول اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں‌ معاون ثابت ہوا اور ایک مثبت اور نہایت تعمیری فضا میں ملٹن کی پرورش ہوئی۔ اس کے والد کو لوگ ایک راست گو، دیانت دار اور نہایت سمجھ دار شخص مانتے تھے اور والدہ کی شہرت ایک سخی اور دردمند عورت کے طور پر تھی۔ اپنے علم و ادب اور شعور و آگاہی کے سفر کی بابت خود ملٹن کا کہنا تھا کہ یہ سب اس کے باپ کی بدولت ممکن ہوا جس نے اس کے رجحان اور صلاحیتوں کو پہچان کر نہ صرف اس کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی بلکہ اسے ہر سہولت بھی فراہم کی۔

جان ملٹن لکھتا ہے کہ مجھے علم کا ایسا ہوکا تھا کہ بارہ سال کی عمر سے میں مشکل ہی سے کبھی آدھی رات سے پہلے مطالعہ چھوڑ کر بستر پر گیا ہوں گا۔

جان ملٹن عمر کے ایک حصّے میں‌ اپنی بینائی سے محروم ہوگیا تھا۔ اس بابت وہ لکھتا ہے کہ شروع ہی سے میری آنکھیں‌ کم زور تھیں اور میں اکثر دردِ سَر میں‌ مبتلا رہتا تھا، لیکن اس کے باوجود میں نے ہرگز مطالعے کا شوق، تحقیق کی لگن اور غور و فکر کی عادت کو ترک نہیں کیا۔

زمانۂ طالبِ علمی میں ملٹن اپنی علمی فضیلت، وسعتِ مطالعہ اور اچھوتے خیالات کی وجہ سے ہم جماعتوں‌ میں‌ نمایاں‌ رہا۔ کالج کے دور مین ملٹن کو خدا اور مذہب سے متعلق اپنے خیالات، عقائد اور بعض نظریات کی وجہ سے ناپسندیدگی کا بھی سامنا کرنا پڑا، لیکن اس نے اپنا سفر جاری رکھا اور ڈگری لینے میں کام یاب رہا۔ اس وقت تک وہ شاعری کا سلسلہ شروع کرچکا تھا جب کہ متعدد زبانوں پر بھی عبور حاصل کر لیا تھا۔

اسے انگریزی زبان کا عظیم شاعر مانا گیا اور وہ انگلستان میں ادب کا روشن ستارہ بن کر ابھرا۔ 17 ویں صدی کے اس مشہور شاعر کی نظم "فردوسِ گم گشتہ” اور "فردوسِ باز یافتہ” دنیا بھر میں مقبول ہیں اور متعدد زبانوں میں ان کے تراجم کیے جاچکے ہیں۔

اس کی یہ رزمیہ شاعری انگریزی ادب کی بہترین نظموں میں شمار ہوتی ہے۔اس نظم میں ملٹن انسان کی نافرمانی اور جنت سے نکالے جانے کا احوال بیان کرتا ہے۔ اس نظم میں اس نے خدا، انسان اور شیطان سے مکالمہ کیا ہے۔

شاعرِ مشرق علامہ اقبال بھی ملٹن کی نظم فردوسِ گم گشتہ سے بے حد متاثر تھے اور انھوں نے اسی طرز پر رزمیہ نظم لکھنے کا ارادہ کیا تھا۔ اس بابت وہ اپنے ایک مکتوب بنام منشی سراج الدین میں لکھتے ہیں کہ: ‘‘ملٹن کی تقلید میں لکھنے کا ارادہ مدت سے ہے۔ اور اب وہ وقت قریب معلوم ہوتا ہے کیونکہ ان دنوں وقت کا کوئی لحظہ خالی نہیں جاتا جس میں اس کی فکر نہ ہو۔ پانچ چھے سال سے اس آرزو کی دل میں پرورش کر رہا ہوں، مگر جتنی خوہش آج کل محسوس کر رہا ہوں اس قدر کبھی نہ ہوئی۔ مگر روزگار سے نجات ملتی ہے تو اس کام کو باقاعدہ شروع کروں گا۔’’

جان ملٹن 9 دسمبر 1608ء کو لندن میں پیدا ہوا۔ وہ انگریزی اور لاطینی زبانوں کا ماہر تھا۔ ذخیرۂ الفاظ سے مالا مال جس کا شاعری میں مخصوص طرزِ بیان، جذبات اور اچھوتے خیالات کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ سترھویں صدی کی غنائیہ نظموں میں شاید ہی کسی نے ایسا انگریزی ادب تخلیق کیا ہو۔ اُس نے شیکسپیئر کی رومانی مثنوی، ڈرامائی عناصر اور طنز و مزاح کا گہرا مطالعہ کیا اور وہ ادبی ماحول پیدا کیا جو اسی سے منسوب ہے۔

ملٹن کی 1646ء میں جب کتاب شائع ہوئی تو وہ 38 سال کا تھا۔ کئی جلدوں پر مشتمل اپنی رزمیہ شاعری میں ملٹن نے قدیم داستانوں، روایت اور مافوق الفطرت کے کارناموں کا جو تذکرہ ہے، اس میں مذہبی عقائد اور روزِ ازل سے متعلق تصورات کو اس نے موثر اور دل کش پیرائے میں بیان کیا ہے۔ ملٹن نے انگریزی کے علاوہ لاطینی زبان میں بھی نظمیں تخلیق کیں۔

وہ ایک مصلح اور سیاست کار بھی تھا جس نے مختلف اصولوں، ضابطوں کو نام نہاد اور فرسودہ قرار دیتے ہوئے فرد کی آزادی کو سلب کرنے والے قوانین کے خلاف بھی لکھا۔ اس نے نثر میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور بیک وقت مذہبی اور سیاسی انقلابات پر لکھا۔

جان ملٹن نے 1674 میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

‘عدالت پاکستان میں مظاہرین پر آنسو گیس کے استعمال پر پابندی کا حکم دے’

0

لاہور : لاہورہائی کورٹ میں مظاہرین پر آنسو گیس کےاستعمال کیخلاف درخواست دائر کردی گئی، جس میں کہا گیا عدالت پاکستان میں مظاہرین پرآنسو گیس کے استعمال پر پابندی کا حکم دے۔

تفصیلات کے مطابق مظاہرین پر آنسو گیس کےاستعمال کو لاہورہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا، جسٹس شاہد کریم نےشہری شیریں نواز کی درخواست پر سماعت کی۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ آنسو گیس انسانی صحت کیلئے انتہائی مضر اثرات کی حامل ہے، آنسو گیس خطرناک ذرات پر مشتمل ہوتاہے جوپھیپڑوں کومتاثر کرتا ہے اور متاثرہ شخص پھیپڑوں کےکینسر اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہوتا ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ عالمی جنگوں میں آنسو گیس کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا رہا، پاکستان میں اپنے ہی لوگوں پر زہریلے آنسوگیس کا استعمال ظلم ہے۔

عالمی کنونشنز میں آنسو گیس کےجنگوں اور مظاہرین پر استعمال کو ممنوع قرار دیا گیا ہے، پاکستان نے ان عالمی کنونشنز میں دستخط کر رکھے ہیں۔

پاکستان میں مظاہرین پر آنسو گیس کا استعمال بغیرکسی قانون کیاجاتاہے، عدالت پاکستان میں مظاہرین پرآنسو گیس کے استعمال پر پابندی کا حکم دے، بعد ازاں عدالت نےدرخواست پرفریقین سےجواب طلب کرلیا۔

ابشر اکاؤنٹ کے حوالے سے تارکین وطن اور سعودی میں مقیم شہریوں کیلئے اہم خبر

0

سعودی ٹریفک پولیس نے کہا ہے کہ ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید کی سہولت ابشر اکاؤنٹ پرموجود ہے تاہم تجدید کے لیے اپلائی کرنے سے پہلے مقررہ اور منظور شدہ اسپتال سے میڈیکل چیک اپ کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔

ٹریفک پولیس کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک صارف نے پوچھا تھا کہ ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید کرانے کے لیے فیس جمع کرائی مگرابشر اکاؤنٹ پر جب تجدید کی کمانڈ دی جاتی ہے توکارروائی مکمل نہیں ہوتی اس صورت میں کیا کروں؟

اس کے جواب میں ٹریفک پولیس کا کہنا تھا کہ ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید کی سہولت ابشر اکاؤنٹ پرموجود ہے تاہم اس کے لیے لازمی ہے کہ مقررہ اور منظور شدہ اسپتال سے میڈیکل چیک اپ کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا جائے۔

ٹریفک پولیس نے یہ بھی بتایا کہ بعدازاں جتنی مدت کے لیے لائسنس تجدید کرانا ہو، اس کی فیس ادا کرنے کے بعد تجدید کی کمانڈ دی جائے۔

واضح رہے طبی معائنے میں نظر کا بہت ٹیسٹ اہم ہوتا ہے اس کےعلاوہ بلڈ گروپ بھی درج کیا جاتا ہے۔ میڈیکل چیک اپ ایسے اسپتال سے کرانا ضروری ہوتا ہے جو ٹریفک پولیس کے سسٹم سے منسلک ہو۔

میڈیکل چیک اپ کی رپورٹ ٹریفک پولیس کے سسٹم میں خود کارطریقے سے طبی ادارہ ارسال کرتا ہے جس کے بعد پانچ یا 10برس کے لیے مقررہ فیس ادا کی جاتی ہے۔

یاد رہے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پرعائد شدہ چالان کی عدم ادائیگی کی وجہ سے بھی ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید ممکن نہیں ہوتی۔

ٹریفک چالان موجود ہونے کی صورت میں جب تک ادائیگی نہ کی جائے ڈرائیونگ لائسنس تجدید نہیں کرایا جا سکتا۔

یاد رہے گاڑی خریدتے وقت خریدار کے نام سے موٹروہیکل انشورنس بھی حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے جس کے لیے مقررہ کمپنی سے انشورنس سکیم حاصل کی جائے جو ٹریفک پولیس کے سسٹم میں رجسٹرڈ اور منظورشدہ ہو۔

گورنر پنجاب کا صوبے میں گورنر راج لگانے کا عندیہ

0

کراچی : گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کا کہنا ہے کہ گورنر ہاؤس پر حملہ کیا گیا، ایسے حالات ہوں گے تو گورنر راج بھی لگایا جائے گا۔

تفصیلات کے مطابق گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیاست میں ہم خدمت پر یقین رکھتے ہیں، پاکستان جس تباہی کے دہانے پر تھا اسے واپس لایا گیا ہے، وفاقی حکومت اپنی پوری کوشش کررہی ہے۔

بلیغ الرحمان نے کہا کہ گورنر راج ایک انتہائی قدم ہے، جب حالات ہاتھ سے نکلتے ہیں توآئین میں اس کی گنجائش موجود ہے، ابھی کچھ دنوں پہلے گورنر ہاؤس پر حملے کئے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ایسے حالات ہوں گے تو گورنر راج بھی لگایا جائے گا ، یہ بہت اچھی مثالیں نہیں قائم کی جا رہیں، بہتری کی جانب ہماری کوششیں جاری ہیں۔

گورنرپنجاب نے مزید کہا کہ چین پاکستان سے ناراض تھا، سی پیک معاہدوں کو پیچھے رکھ دیا گیا تھا، وزیراعظم کے دورہ چین کے بعد معاہدوں پر کام دوبارہ شروع ہوا ہے۔

بلیغ الرحمان کا کہنا تھا کہ سی پیک جب بھی ملک میں آتاہےانتشارکی سیاست شروع ہوجاتی ہے،سی پیک واپس آیا ہے تو اب اپنے اثرات دکھائے گا۔

محمد حارث اوپننگ کرنے کیلئے تیار ہیں؟

0

سڈنی: آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں فائنل کی جنگ کے لیے محمد حارث نے سیمی فائنل میں کھیلنے کا پلان بتایا ہے۔

پاک ٹی وی کی جاب سے محمد حارپ سے گفتگو کی گئی، جس میں ہوسٹ نے پوچھا کہ کیا آپ اوپپنگ کرنے کے لیے تیار ہیں، جس پر ان کا کہنا تھا کہ میں گراؤنڈ میں اپنی اسٹرنتھ میں اترتا ہوں، اور کوشش کرتا ہوں کہ مخالف ٹیم کو خود پر حاوی نہیں ہونے دوں اور اچھا اسکور کروں۔

حارث کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی بھر پور کوشش کی جس میں مجھے اللہ کی جانب سے کامیابی ملی، امید بھی تھی کہ میں کچھ کرسکتا ہوں، میں نے سوچا تھا کہ اگر مجھے موقع ملا تو میں اپنی ٹیم کیلئے کچھ اچھا کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ بابر اعظم، باقی کھلاڑی اور ٹیم کے مینٹور میری کافی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، اس بار میری کوشش ہوگی کہ میچ ختم کرکے آؤں۔

انہوں نے کہا کہ نیٹ پریکٹس میں اپنے بولرز کا سامنا کرنے سے کافی فائدہ ملتا ہے، پاکستان کے 6 فاسٹ بولر ہیں ٹیم میں جس سے بہت فائدہ ملتا ہے، حارث رؤف کی بولنگ کو سامنا کرنا سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا پہلا سیمی فائنل کل پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلا جائے گا، میچ پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر ایک بجے شروع ہوگا۔