بدھ, جولائی 2, 2025
ہوم بلاگ صفحہ 26939

کراچی : آج سے سی این جی اسٹیشنز غیر معینہ مدت کیلئے بند

0

کراچی : سندھ بھر میں سی این جی کی کلوگرام کے بجائے لیٹر میں فروخت کا معاملہ تنازع بن گیا، سی این جی ایسوسی ایشن نے سی این جی اسٹیشنز غیر معینہ مدت کیلئے بند کردیئے جبکہ کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد نے ہڑتا ل کا اعلان کردیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق سندھ میں سی این جی کی فی کلو کے بجائے فی لیٹر فروخت کرنے کے معاملے پر اوگرا اور سی این جی مالکان میں اختلافات شدت اختیار کر گئے، آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کی جانب سے سندھ میں فی لیٹر گیس فروخت کرنے کے فیصلے کو اوگرا نے غیر قانونی قرار دیا، جس پر سی این جی ایسوسی ایشن نے آج سے غیر معینہ مدت کیلئے سی این جی اسٹیشن بند کردئے۔

کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد نے بھی اوگرا کی اجازت کے بغیر سی این جی کلو کے بجائے لیٹر میں فروخت کرنے پر ہفتہ تیرہ اگست کو پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔


 

مزید پڑھیں: کراچی میں سی این جی بحران کا خدشہ، غیر معینہ ہڑتال کا اعلان


 

ٹرانسپورٹ اتحاد کے صدر ارشاد بخاری کا کہنا ہے کہ اوگرا کی اجازت کے بغیرسی این جی کی فروخت غیر قانونی ہے اور لیٹر میں سی این جی مہنگی فروخت ہو رہی ہے، جس کا نقصان ٹرانسپورٹرز برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

اوگرا کے مطابق سندھ میں پنجاب کے برعکس ملکی ذخائر سے گیس فراہم کی جارہی ہے، اس لیے اس کی فروخت فی کلو کے حساب سے ہی ہوگی۔

وزارت پیٹرولیم کے ذرائع کے مطابق سندھ کے سی این جی مالکان کی کچھ روز قبل وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان سے ملاقات کی تھی، جس میں وزیر پیٹرولیم نے سی این جی مالکان کی گیس فی لیٹر فروخت کرنے کے مطالبے کو جائز قرار دیا۔

آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلی غیاث پراچہ کا کہنا ہے کہ اوگرا آرڈیننس 2009 زائد المعیاد ہونے کی وجہ سے اب اوگرا سی این جی کی قیمت مقرر کرنے کا مجاز نہیں رہا لیکن دوسری جانب اوگرا کا کہنا ہے کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی اور اوگرا کی منظوری کے بغیر قیمت میں تبدیلی خلاف قانون ہے۔

اوگرا حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ لیٹر کے فارمولے کے تحت سی این جی قیمت 42 روپے فی لیٹر ہونی چاہیے جبکہ سی این جی مالکان 48 روپے فی لیٹر فروخت کرنے پر بضد ہیں۔ غیاث پراچہ نے کہا کہ سوئی سدرن گیس کمپنی پبلک ہیرنگ 15 اگست کو ہوگی، جس میں یہ سی این جی کی فروخت کا طریقہ کار اور قیمت کا تعین ہو جائے گا۔

لٹل ماسٹر حنیف محمد حیات ہیں دل کی دھڑکنیں بحال، بیٹے شعیب محمد

0

کراچی : لٹل ماسٹر حنیف محمد کے صاحبزادے شعیب محمد کا کہنا ہے کہ والد صاحب حیات ہیں، اُن کی دل کی دھڑکنیں بحال ہوگئی ہیں،عوام سے دعائے صحت کی اپیل کی ہے۔

تفصیلات کے مطابق پھپھڑے کےکینسر میں مبتلا حنیف محمد مقامی اسپتال میں انتہائی تشویشناک حالت میں داخل ہیں جہاں پیر کے روز طبعیت بگڑنے کے بعد انہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کردیا گیا تھا۔

آج علی الصبح وینٹی لیٹرہٹانے پر لٹل ماسٹر حنیف محمد کی دل کی دھڑکنیں بند ہو گئی تھیں لیکن معجزانہ طور پر چھ منٹ کے بعد اُن کی دل کی دھڑکنیں بحال ہو گئیں۔

معروف بلے باز حنیف محمد کے صاحبزادے شعیب محمد نے میڈیا کو بتایا کہ وینٹی لیٹر مشین ہٹانے کے بعد والد صاحب کی سانسیں رک گئی تھیں تا ہم چھ منٹ بعد دل کی دھڑکنیں معجزانہ طور پر دوبارہ بحال ہو گئیں ہیں جس پراللہ کےشکرگذارہیں۔

واضح رہے شعیب محمد اس وقت اسپتال میں اپنے والد صاحب کے ساتھ موجود ہیں۔

خود اعتماد افراد کی 8 عادات

0

دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو خود پر اور اپنی صلاحیتوں پر مکمل اعتماد رکھتے ہیں۔ وہ یقین کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں اور اپنے لیے کسی کام کو ناممکن نہیں سمجھتے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ خود اعتمادی اور ہر معاملے میں اعتماد کا مظاہرہ کرنا کامیابی کی علامت ہے۔ پر اعتماد لوگوں کی کچھ عادات ہوتی ہیں جن کو اپنا کر آپ بھی پراعتماد اور اس کے بعد کامیاب لوگوں کی فہرست میں شامل ہوسکتے ہیں۔

بہانے بازی سے گریز

پراعتماد لوگ بہانے بازی سے گریز کرتے ہیں۔ وہ اپنی غلطیوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور انہیں درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

دنیا کے بے شمار کامیاب لوگوں کو ابتدا میں بے شمار مسائل کا سامنا پڑا۔ اگر وہ ان مسائل کو بڑا سمجھ کر ان کے آگے ہار مان جاتے تو آج دنیا ان سے ناواقف ہوتی۔ کامیاب لوگ چھوٹے چھوٹے مسائل اور ناکافی وسائل کی شکایت کرنے کے بجائے انہیں نظر انداز کرتے ہیں اور اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔

آرام دہ ’زون‘ سے باہر نکلنا

پراعتماد لوگ آرام دہ زندگی گزارنے سے گریز کرتے ہیں۔ یاد رکھیں آرام دہ طرز زندگی آپ کے خوابوں کو قتل کردیتا ہے اور آپ کوئی مشکل اٹھانے کے قابل نہیں رہتے۔ پراعتماد لوگ ایسے طرز زندگی کو چھوڑ کر مشکل اور چیلنجنگ زندگی گزارتے ہیں۔

آج کا کام آج کرنا

پراعتماد لوگ آج کا کام آج ہی کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ اسے کل پر نہیں ٹالتے۔

لوگوں کو پرکھتے نہیں

لوگوں کو پرکھنا آپ کا کام نہیں۔ جس طرح آپ اپنی زندگی میں لوگوں کی مداخلت ناپسند کرتے ہیں اسی طرح کوئی یہ نہیں چاہے گا کہ آپ بھی دوسروں کی زندگی پر فیصلہ صادر کریں۔ لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں اور اپنے مقصد پر توجہ مرکوز رکھیں۔

مقابلہ بازی سے گریز

پراعتماد لوگوں کا مقابلہ اپنے آپ سے ہوتا ہے۔ وہ دوسروں سے مقابلہ کرنے سے گریز کرتے ہیں جس کے باعث وہ حسد اور جلن جیسے منفی جذبات سے محفوط رہتے ہیں۔

دوسروں سے مقابلہ کرنے سے گریز اس لیے بھی کرنا چاہیئے کیونکہ ہر شخص کے حالات زندگی مختلف ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے آپ جس شخس کی کامیابی سے جلن کا شکار ہوں اس نے اپنا بچپن نہایت مشکل حالات میں گزارا ہو۔

لوگوں کو خوش یا مطمئن رکھنا آپ کا کام نہیں

لوگوں کی خوشی کا خیال رکھنا، یا کسی چیز کے بارے میں یقین دہانی کروانا آپ کا مسئلہ نہیں۔ اگر آپ ان کی خوشی کا خیال رکھیں گے تو اپنی خوشی سے محروم ہوجائیں گے۔

زندگی کے حقائق کو قبول کرنا

پراعتماد لوگ خوابوں میں رہنے کے بجائے زندگی کے تلخ و شیریں حقائق کو قبول کرتے ہیں اور ان کا سامنا کرتے ہیں۔

lf-3

خود کو محدود نہ کرنا

خود کو محدود مت کریں۔ نئے نئے تجربات کرتے رہیں چاہے آپ عمر کے کسی بھی حصہ میں ہوں۔ کوئی کام کرنا نہیں بھی آتا تب بھی اسے کرنے کی کوشش کریں اور اپنی صلاحیتوں کو وسعت دیں۔

یاد رکھیں! خود اعتمادی کامیابی کی سیڑھی ہے۔ جو افراد خود اعتمادی سے محروم ہوتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔


 

فلم انڈسٹری کا اگلا سلمان خان نوازالدین صدیقی ہے،سلمان خان

0

ممبئی: بالی ووڈ کے سلطان سلمان خان کا کہنا ہے کہ فلم انڈسٹری کے اگلے سلمان اداکار نواز الدین صدیقی ہیں.

تفصیلات کے مطابق بالی ووڈ کےسلطان کروڑوں دلوں کی جان سلمان خان ایک ایسی شخصیت کے مالک ہین جن کے چاہنے والوں کی کمی نہیں ہے.ان کے ڈائیلاگ ہوں یا ان کا اسٹائل سب ہی سپر ہٹ ہوتا ہے اور اس کا سحر سر چڑھ کر بولتا ہے.

سلمان خان کے مداحوں کے لیے حیران کن بات یہ ہے خود دبنگ خان کسی اور اداکار کے ڈائیلاگ اور اداکاری سے متاثر ہیں.

بالی ووڈ انڈسٹری کے باصلاحیت اداکار نوازالدین صدیقی جنہوں نے اپنی متاثر کن اداکاری سے بالی ووڈ کے سلطان سلمان خان کا دل جیت لیا ہے،جبھی تو وہ ان کے گن گارہے ہیں.

حالیہ ایک تقریب کے دوران سلمان خان نے بتایا کہ انڈسٹری کا اگلا سلمان خان نوازالدین صدیقی ہے.نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے نوازالدین صدیقی کو فلم انڈسٹری کا سب سے شائستہ اور باصلاحیت اداکار کا خطاب بھی دے ڈالا.

یاد رہے کہ نوازالدین صدیقی نے سلمان خان کے ساتھ فلم کک اور بجرنگی بھائی جان میں کام کرچکے ہیں.

واضح رہے کہ اگلے ماہ نوازالدین صدیقی کی فلم فریکی مداحوں کے لیے ریلیز کی جائے گی.

پیمرا نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام لائیو ود شاہد مسعود پر پابندی لگا دی

0

کراچی : پیمرا نے اے آروائی کے پروگرام ’’لائیو ود شاہد مسعود‘‘پر کی پابندی لگادی اور ساتھ ہی ڈاکٹر شاہد مسعود پر بھی پابندی لگائی گئی۔

تفصیلات کے مطابق پیمرا کی جانب سے آزادی صحافت پر ایک اور کاری ضرب پیمرا نےعجلت میں اے آروائی کے پروگرام ’’لائیوود شاہد مسعود‘‘پرپینتالیس دن کی پابندی لگادی، چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے ایک صحافی ہوتے ہوئے صحافی پر پابندی لگائی، پیمرا نے پروگرام میں سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس پر بہتان لگانے کا الزام عائد کیا ہے۔

ایڈوکیٹ معین الدین پیمرا کا قدام عجلت اور جلد بازی کیا گیا ہے، پیمرا کے رویے سے لگا کہ شاہد مسعود پر پابندی کا فیصلہ طے تھا، پیمرا نے بغیر کسی شکایت کے خود ہی کاروائی کردی، نئی تاریخ کیلئے گئے جونیئر وکیل کو زبردستی بٹھا کر نوٹس وصول کرایا گیا، پیمرا نے10 تاریخ طے کی، اس دن کوئی اور کیس نہیں رکھا، سماعت کے روز محض دو ممبر آئے ، کیس میں پیمراخودہی شکایت کنندہ اورمنصف بن گئی۔

ڈاکٹر شاہد مسعود کا کہنا ہے کہ محض تاثر ملنے پر پینتالیس دن کی پابندی مضحکہ خیز ہے ، پابندی نے نام نہاد جمہوریت کی قلعی کھول دی، انھوں سوال کیا کہ حکومت بتائے ایسا کیاجرم کیاکہ کسی ٹی وی پروگرام پرنہیں آسکتا، میری بات کا حکومت بتنگڑ بنا دے تو کیا کیا جاسکتا ہے۔

واضح رہے کہ غداری کے الزام میں جیو نیوز پر صرف 15 دن کی پابندی لگائی گئی تھی۔

صدر پی ایف یو جے رانا عظیم نے پیمرا کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اجلاس طلب کرلیا ہے۔

لاہور میں الیکٹرنک میڈیا رپورٹرز ایسوسی ایشن کی جانب سے ڈاکٹر شاہد مسعود کے پروگرام پر پابندی کی شدید مذمت کی گئی ہے، صدر ایمرا عابد خان کا کہنا تھا کہ آزادی صحافت پر کسی قسم کی پابندی منظور نہیں، پیمرا اے آروائی نیوز کے ساتھ امتیازی سلوک کا مظاہرہ کررہا ہے ،پابندی لگانے سے سچ کی آواز کو نہیں دبایا جاسکتا۔

پاک ترک اسکولز کے ترکش پرنسپلز کو ہٹا دیا گیا

0

اسلام آباد : پاکستان میں قائم کردہ ترک اسکولز کے ترک پرنسپلز کو ہٹا کر پاکستانی وائس پرنسپلز کو اُن کی جگہ پرنسپلز تعینات کردیا گیا ہے،یہ فیصلہ ترک میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد کیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق ڈائریکٹر پاک ترک اسکولز عالم گیر خان نے بتایا کہ ترکش پرنسپلزکو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے،جب کہ اسکول کے وائس پرنسپلز کو پرنسپلز کی اضافی ذمہ داریاں دے دی گئی ہیں یہ فیصلہ ترک میں حالیہ ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد کیا گیا ہے، کہا جاتا ہے کہ پاک ترک فاؤنڈیشن فتح اللہ گولن کی تنظیم کے زیر انتظام چلائے جاتے ہیں۔

پاک ترک معاہدے کے تحت پاک ترک اسکول کے پرنسپلز ترک شہری ہوتے ہیں جب کہ وائس پرنسپلز کا عہدہ پاکستانی شہریوں کے پاس ہوتا ہے تا ہم فوجی بغاوت کے بعد ترک حکومت کی جانب سے تمام پرنسپلز کوفارغ کرنے کے بعد اب پاک ترک اسکولز کے تمام پرنسپلز پاکستانی شہری ہو گئے ہیں۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ترک فوجی بغاوت کو عوام کی جانب سے ناکام بنانے کے بعد طیب اردگان کی حکومت سمجھتی ہے اس فوجی بغاوت کے پیچھے جلا وطن رہنما اور طیب اردگان کے سابقہ ساتھی فتح اللہ گولن کا ہاتھ ہے۔

امریکہ میں مقیم فتح اللہ گولن دنیا بھر میں ماہر تعلیم اور دانشور سمجھتے ہیں،پاکستان میں چلنے والے پاک ترک اسکولز فتح اللہ گولن کی غیر سرکاری تنظیم کے زیر انتظام چلائے جاتے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پرنسپلز کی تبدیلی کے بعد بورڈز آف ڈائرکٹرز میں بھی جلد تبدیلیاں کی جائیں گی اور اسکولوں کا انتظام اردگان انتظامیہ سے منسلک ایک بین الاقوامی این جی او کے حوالے کیا جائے گا جب کہ ترک شہری جو اسکول کا انتظامیہ سنبھالے ہوئے ہے اب صرف استاذہ کے طور ہر کام کریں گے اور اب مزید اسکول رجسٹرڈ نہیں جائیں گے۔

یادر ہے پاک ترک ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تحت اسکول اور کالج کا نیٹ ورک 1995 میں قائم کیا گیا تھا،اس نیٹ ورک میں 28 اسکول اور کالجز کام کر رہے ہیں جو پاکستان کے ہر بڑے شہر بہ شمول لاہور، راولپنڈی،اسلام آباد،ملتان، کراچی،حیدرآباد،خیرپور،جامشورو اور کوئٹہ میں قائم ہیں جہاں 1500 ارکان پر مشتمل عملہ کا کررہا ہے جن میں 150 کا تعلق ترک سے ہے جب کہ بقیہ پاکستانی عملہ ہے،پاک ترج فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں میں 11 ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں۔

امریکی صدر اوباما اور ہیلری کلنٹن داعش کے بانی ہیں،ڈونلڈ ٹرمپ

0

فلوریڈا: ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکی صدر اور ہیلری کلنٹن داعش کے بانی ہیں.

تفصیلات کے مطابق رپپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز ریاست فلوریڈا کے شہر فورٹ لاڈرڈیل میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ دولت اسلامیہ والے اوباما کا احترام کرتے ہیں،انہون نے الزام صدر اوباما پر الزام عائد کیا کہ وہ دولتِ اسلامیہ کے بانی ہیں.

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حریف ہیلری کلنٹن کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ دولتِ اسلامیہ کی شریک بانی ہیں.

دوسری جانب ہیلری کلنٹن نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک بیان،جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اسلحہ رکھنے کے حقوق کے حامی ہیلری کو جیتنے سے روک سکتے ہیں.اس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ہیلری کلنٹن نے کہا کہ وہ لوگوں کو تشدد پر اکسا رہے ہیں.

*ہیلری کلنٹن داعش کی بانی اور اوباما بدترین صدر ہیں،ٹرمپ

یاد رہےگزشتہ ہفتے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی مخالف امیدوار ہیلری کلنٹن کو داعش کا بانی جبکہ صدربراک اوباما کو کمزور صدرقرار دے دیا تھا.

افغانستان آپریشن میں 300 داعش جنگجو ہلاک ہوئے،امریکا

0

نئی دہلی: افغانستان میں امریکی اور نیٹو فورسز کے کمانڈر جنرل جان نکلسن کا کہنا ہے کہ افغان فورسز نے امریکا کی مدد سے،دو ہفتے قبل کیے جانے والے آپریشن میں داعش کے تقریباً 300 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا.

تفصیلات کے مطابق جنرل جان نکلسن کا ہندوستانی دارالحکومت نئی دہلی میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہنا تھا کہ افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار میں چند روز قبل پیدا ہونے والی کشیدگی امریکی آپریشن کا حصہ تھی،جس کا مقصد وہاں داعش کی صلاحیتوں کو کمزور کرنا تھا.

دولت اسلامیہ نے گزشتہ ماہ کابل میں ہزارہ برادری کے احتجاج میں ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی،دھماکے میں 80 افراد ہلاک ہوئے تھے.

جنرل جان نکلسن نے کہا کہ امریکا کی مدد سے افغان فورسز کے آپریشن میں داعش کے اہم کمانڈروں سمیت تقریباً 300 دہشت گرد ہلاک ہوئے.

ان کا کہنا تھا کہ آپریشن میں ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کی حتمی تعداد بتانا مشکل ہے،لیکن یہ تعداد دہشت گرد گروپ میں شامل جنگجوؤں کی کل تعداد کا 25 فیصد ہے،جس سے گروپ کو بڑا نقصان ہوا ہے.

واضح رہے کہ جنرل جان نکلسن کا مزید کہنا تھا کہ داعش کے خلاف جارحانہ اقدامات اٹھاتے ہوئے افغان فورسز 2015 کے مقابلے میں رواں سال زیادہ کامیاب رہی ہے.

طرابلس:شہر سیرت میں داعش کے ہیڈکوارٹر پر فورسز کا قبضہ

0

طرابلس: لیبیا میں امریکا نواز ملیشیا نے داعش کے ہیڈ کوارٹر پر قبضہ کرلیا ہے۔

حکومت کی وفادار فورسز کے ترجمان کا کہنا ہے کہ شہر سیرت میں داعش کا ہیڈکوارٹر کا کنٹرول اب انکے قبضے میں ہے، عراق اور شام کے باہر لیبیائی شہر سیرت کو داعش کا اہم گڑھ سمجھا جاتا ہے۔


 مزید پڑھیں :  امریکا کا داعش کے خلاف لیبیا میں مزید کاروائیوں کا اعلان


ترجمان کا کہنا ہے کہ داعش کے جنگجو اب بھی شہر کے تین رہائشی مقامات اور سمندر کے قریبی کمپلیکس میں موجود ہیں، فورسز نے شہر میں قاہم اسپتال اور یونیورسٹی کمپلیکس کا بھی کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔

libya-post

انہوں نے بتایا کہ آپریشن میں تین اہلکار لقمہ اجل بنے جبکہ داعش کے بیس جنگجو بھی مارے گئے۔

یاد رہے کہ امریکا نے لیبیا میں یکم اگست سے فضائی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا اور اب تک اٹھائیس فضائی کارروائی کی جاچکی ہے، فضائی کارروائی کیلئے لیبیائی حکومت نے امریکا سے درخواست کی تھی۔

امریکی خفیہ ادارے کے مطابق اس ملک میں داعش کے تقریبا چھ ہزار جنگجو موجود ہیں۔ اس سے قبل امریکا نے فروری کے مہینے میں طرابلس کے مضافات میں سبراتھا کے دیہی مقام پر داعش کے ایک تربیتی کیمپ کو نشانہ بنایا تھا۔ اور ایسی ہی ایک کارروائی گزشتہ برس نومبر میں بھی کی گئی تھی۔


 مزید پڑھیں :  طرابلس: امریکا کی لیبیا میں داعش کے خلاف فضائی کارروائی


واضح رہے کہ داعش کے خلاف امریکا اپنے اتحادی مغربی اور عرب ممالک کے ساتھ مل کر پہلے ہی شام اور دیگر عرب ممالک میں فضائی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، جس میں اب تک متعدد شدت پسندوں سمیت ہزاروں عام شہری بھی مارے جاچکے ہیں۔

پاکستان میں شعبہ ماحولیات ۔ 1947 سے اب تک کا تاریخی جائزہ

0

پاکستان کو اپنے قیام کے ساتھ ہی بے شمار مسائل کا سامنا تھا۔ وسائل کی کمی اور بے سروسامانی کے ساتھ ایک نوزائیدہ مملکت کو چلانا ایک ایسا کام تھا جو جان توڑ محنت اور کئی قربانیوں کا متقاضی تھا۔

یہ زیادہ ضروری اس لیے بھی تھا کیونکہ پاکستان کے ابتدائی 10 سے 15 سال اس کی بنیاد کو مضبوط کرتے اور پاکستان کے مستقبل کا انحصار بھی انہی ابتدائی سالوں پر تھا۔

پاکستان میں ایک شعبہ ایسا ہے جسے ابتدا سے ہمیشہ نظر انداز کیا گیا اور وہ تھا ماحولیات کا شعبہ۔ پاکستان کے متنوع جغرافیہ اور وسائل کے باعث یہ بات ضروری تھی کہ اس شعبہ کو ترجیحات میں رکھا جاتا مگر ہوا اس کے برعکس۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں جب پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا ترقی کرنا شروع ہوا تو یہ ایک اہم ذریعہ تھا جس کے ذریعہ عوام کو ماحولیاتی نقصانات سے آگاہ کیا جاتا مگر ادھر سے بھی اس شعبہ کی جانب سے بے اعتنائی برتی گئی۔

دنیا کی دوسری بلند ترین پہاڑی چوٹی کے ٹو ۔ چین اور پاکستان کی سرحد پر واقع

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں ماحولیاتی تباہی کے اثرات آہستہ آہستہ واضح ہونے لگے۔ قدرتی آفات جیسے زلزلوں اور سیلاب میں اضافہ، آبی ذخائر کی جانب سے بے اعتنائی برتنے کے باعث پینے کے پانی کے ذخائر میں کمی اور پاکستان کا پانی کی کمی کے شکار ممالک میں پہلے 10 ممالک میں آنا، سطح سمندر میں اضافہ اور اس کے باعث ساحلی علاقوں کو نقصان پہنچنا، زراعت میں کمی اور ملک کے سب سے بڑے اور کاروباری شہر کراچی میں موسم کی قیامت خیز تبدیلی، یہ وہ عوامل ہیں جو شعبہ ماحولیات کی جانب سے ہماری مجرمانہ غفلت کو ظاہر کرتے ہیں۔

اس مضمون میں ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ 1947 سے لے کر اب تک پاکستان میں شعبہ ماحولیات کی کیا صورتحال تھی، اس میں کیا اصلاحات کی گئیں اور اس شعبہ میں کتنے قوانین نافذ العمل کیے گئے۔

پاکستان کن پروگرامز کا رکن ہے؟

پاکستان اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام یو این ای پی کا رکن ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے نونہالان یونیسف کا بھی رکن ہے اور یونیسف کے تحت اس وقت پاکستان میں کئی پروگرامز اور منصوبے جاری ہیں۔

برصغیر کا وسیع ترین صحرا ۔ صحرائے تھر

پاکستان مشترکہ ماحولیاتی پروگرام برائے جنوبی ایشیا ایس اے سی ای پی کا بھی رکن ہے۔

کن معاہدوں کا دستخط کنندہ ہے؟

پاکستان حال ہی میں پیرس کلائمٹ ڈیل پر دستخط کر کے موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کے خلاف عالمی کوششوں کا حصہ بن چکا ہے۔ اس ڈیل کے تحت دنیا کے 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا ہے کہ وہ اپنی صنعتی ترقی سے عالمی درجہ حرارت کو 2 ڈگری سینٹی سے زیادہ بڑھنے نہیں دیں گے۔

اس معاہدے کے علاوہ پاکستان دیگر کئی کثیر الجہتی ماحولیاتی معاہدوں کا دستخط کنندہ ہے جنہیں ایم ای ایز کہا جاتا ہے۔

سال 1992 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں ایک ’ارتھ سمٹ‘ منعقد ہوا جس میں پاکستان سمیت 100 سے زائد ممالک نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کا اعلامیہ ’ایجنڈا 21 ریو پرنسپلز‘ کی صورت میں سامنے آیا جس کے تحت تمام دستخط کنندگان کو اپنے ممالک میں ماحولیات کی بہتری اور ترقی کے لیے کام کرنا تھا۔

اسی کانفرنس میں جنگلات کے تحفظ کے لیے رہنما اصول، ماحولیاتی بہتری کے لیے اقوام متحدہ کے پروگرام یو این ایف سی سی، اور حیاتیاتی تنوع کے معاہدے کی منظوری عمل میں آئی۔

پاکستان 2002 میں جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں ہونے والی قدرتی وسائل کی پائیدار ترقی کانفرنس کے اعلامیہ پر بھی دستخط کنندہ ہے۔

صرف دریائے سندھ میں پائی جانے والی (نابینا) ڈولفن ۔ انڈس ڈولفن

اسی طرح پاکستان خطرے سے دو چار جنگلی حیات کے شکار پر روک تھام کا معاہدہ سائٹس، صحرا زدگی کی روک تھام کا معاہدہ یو این سی سی ڈی، کیوٹو پروٹوکول (اس معاہدے کے تحت کاربن کا اخراج کرنے والے ان ممالک کو ہرجانہ ادا کریں گے جو اس کاربن اخراج سے متاثر ہو رہے ہیں۔)، ہجرت کرنے والے جانداروں کی حفاظت کا معاہدہ، آبگاہوں (کی حفاظت) کا رامسر معاہدہ، زہریلے مادوں کی بین السرحد نقل و حرکت کو روکنے کا باسل معاہدہ، بین الاقوامی تجارت میں کیمیائی مادوں کی روک تھام کا روٹر ڈیم معاہدہ، مضر صحت نامیاتی مادوں سے روک تھام کا اسٹاک ہوم معاہدہ، اور اوزون کی حفاظت کے مونٹریال پروٹوکول پر بھی دستخط کنندہ ہے۔

پاکستان 2000 میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی اہداف کے منصوبے ایم ڈی جیز کا بھی حصہ بنا۔

ملک میں کون سے ماحولیاتی ادارے کام کر رہے ہیں؟

پاکستان میں اب ماحولیات کے شعبہ میں سرکاری اور غیر سرکاری ادارے مل کر کام کر رہے ہیں جو ایک احسن قدم ہے۔ غیر سرکاری اداروں اور تنظیموں میں ماحولیات سے تعلق رکھنے والے چوٹی کے ماہرین موجود ہیں جو ضرورت پڑنے پر حکومتی ارکان کی رہنمائی و مشاورت کرتے ہیں۔

پاکستان میں 1974 میں انوائرنمنٹ اینڈ اربن افیئرز ڈویژن کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا کام ملک میں جاری ماحولیاتی منصوبوں کی نگرانی کرنا تھا۔

سنہ 1983 میں پاکستان انوائرنمنٹ پروٹیکشن کونسل اور پاکستان انوائرنمنٹ ایجنسی کا قیام عمل میں لایا گیا۔

سنہ 1987 میں صوبائی پروٹیکشن ایجنسیاں ای پی ایز قائم کی گئیں تاہم یہ وفاق کے ماتحت تھیں۔

بقا کے خطرے کا شکار برفانی چیتا پاکستان کے شمالی علاقوں میں پایا جاتا ہے

اس کے بعد اس شعبہ میں کئی اصلاحات لائی گئیں اور پہلی بار باقاعدہ وزارت ماحولیات قائم کی گئی۔ پہلا وزیر ماحولیات سابق صدر آصف علی زرداری کو بنایا گیا۔

سنہ 2010 میں آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو اختیارات منتقل کردیے گئے جس کے بعد اب ہر صوبے کی ای پی اے یعنی ایجنسی برائے تحفظ ماحول خود مختار اداروں کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ اس ایجنسی کا مقصد صوبے میں ہونے والی ترقی کو ماحول دشمن ہونے سے بچانا اور ماحول اور عوامی صحت سے مطابقت کروانا ہے۔

اب تک کون سی پالیسیاں عمل میں لائی گئیں؟

پاکستان میں 1980 میں قومی حکمت عملی برائے تحفظ این سی ایس نافذ العمل کی گئی۔

اگست 1993 میں حکومت نے قومی ماحولیاتی معیارات (نیشنل انوائرنمنٹل کوالٹی اسٹینڈرڈز ۔ این ای کیوز) کا اعلان کیا۔ اس کا مقصد تمام صنعتوں کو پابند کرنا تھا کہ وہ ماحول دوست مشینری اور طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے مصنوعات بنائیں۔

فروری 2001 میں قومی ماحولیاتی ایکشن پلان این ای اے پی کی منظوری دی گئی۔ اس کا مقصد 4 شعبوں ( صاف ہوا، صاف پانی، زہریلے مادوں کی بحفاظت تلفی، اور ایکو / ماحول کی بہتری) میں حکومتی کارکردگی کو بہتر بنانا تھا۔

پاکستان کی بڑی آبگاہوں (میٹھے پانی کے ذخائر) میں سے ایک ۔ بلوچستان کا استولا جزیرہ

اسی طرح 2005 میں قومی ماحولیاتی پالیسی کی بھی منظوری دی گئی۔ قومی پالیسی برائے صحت و صفائی ۔ نیشنل سینیٹیشن پالیسی 2006، قومی آبی پالیسی ۔ نیشنل ڈرنکنگ واٹر پالیسی 2009، قومی پالیسی برائے موسمیاتی تغیرات ۔ نیشنل کلائمٹ چینج پالیسی 2012، اور قومی پالیسی برائے جنگلات 2015 کا مسودہ بھی تیار رکھا ہوا ہے جو تاحال منظوری کا منتظر ہے۔

ماحولیاتی عوامل کی اہمیت کے پیش نظر حکومت پاکستان نے 2009 کو ماحولیات کا قومی سال قرار دیا۔

سنہ 2013 کے عام انتخابات کے بعد وزارت ماحولیات کو وزارت برائے موسمیاتی تغیر (کلائمٹ چینج) میں تبدیل کردیا گیا اور اب ملک میں کلائمٹ چینج کی وزارت مختلف ماحولیاتی مسائل سے نبرد آزما ہے۔

اب تک کون سے قوانین بنائے گئے ہیں؟

پاکستان میں ماحولیاتی قانون سازی سلطنت دہلی، مغلوں اور برطانوی حکومت کے دور سے کی جارہی ہے۔ سلاطین دہلی کے ادوار سے ہی ماحولیات سے متعلق تمام شعبہ جات جیسے اراضی کا استعمال، جنگلات، آب پاشی کا نظام، جنگلی حیات کا تحفظ، توانائی، کیڑے مار ادویات کا استعمال، شور کی آلودگی وغیرہ سے متعلق قوانین بنائے گئے۔

اس وقت شکار کے متعلق بھی قوانین عائد تھے جو برطانوی دور میں بھی جاری رہے۔ مثال کے طور پر 1860 میں نافذ کیے جانے والے کرمنل کوڈ کے تحت ایسا جانور جس کی قیمت 10 روپے سے زیادہ ہو اس کے شکار پر جرمانہ عائد تھا۔

ایک اور ایکٹ 1912 میں نافذ کیا گیا جس کے تحت پرندوں کے شکار کی اجازت ایک مخصوص علاقے، عرصہ اور صرف لائسنس یافتہ افراد ہی کو تھی۔ یہ ایکٹ قیام پاکستان کے بعد بھی نافذ العمل رہا۔

اسی طرح 1913 میں جنگات کی کٹائی کے خلاف پنجاب فاریسٹ ایکٹ نافذ کیا گیا۔

سنہ 1927 میں جنگلات کی حفاظت کے لیے فاریسٹ ایکٹ کا نفاذ کیا گیا جو پاکستان کے قیام کے بعد کئی عشروں تک جنگلات کی قانون سازی کے لیے ایک ماڈل کی حیثیت اختیار کیے ہوئے رہا۔

سنہ 1936 میں ہزارہ فاریسٹ ایکٹ، 1934 میں فیکٹری ایکٹ (فیکٹریوں سے خارج ہونے والے زہریلے مواد کی بحفاظت تلفی) نافذ کیا گیا۔

پاکستان کی طویل اور قدیم ترین نمک کی کان ۔ کھیوڑہ سالٹ مائن

قیام پاکستان کے بعد ماحولیات سے متعلق پہلا قانون 1948 میں متعارف کروایا گیا جو کان کنی اور تیل کی صنعت سے متعلق تھا۔

سنہ 1952 میں 2 ایکٹ پنجاب ڈویلپمنٹ آف ڈیمیجڈ ایریاز ایکٹ اور پنجاب سوائل ری کلیمیشن ایکٹ متعارف کروائے گئے۔ یہ دونوں ایکٹ زرعی اراضی سے تعق رکھتے تھے۔

سنہ 1954 میں جنگلی حیات اور پارکس کے تحفظ کے لیے کوہاٹ مزاری کنٹرول ایکٹ متعارف کروایا گیا۔

سنہ 1959 میں مویشیوں سے متعلق ایکٹ ویسٹ پاکستان گوٹس ایکٹ اور عوامی صحت سے متعلق ویسٹ پاکستان فیکٹریز کینٹین رولز متعارف کروائے گئے۔

سنہ 1960 میں ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے ویسٹ پاکستان اسموکنگ آرڈیننس متعارف کروایا گیا جس کے تحت سینما گھروں کے اندر سگریٹ نوشی پر پابندی عائد کردی گئی۔

سنہ 1961 میں آبی حیات کے تحفظ کے لیے ویسٹ پاکستان فشریز آرڈیننس متعارف کروایا گیا۔

سنہ 1964 میں جنگلات کی حفاظت کے لیے ویسٹ پاکستان فائر ووڈ ایکٹ متعارف کروایا گیا۔

سنہ 1965 میں فضائی معیار اور شور کی آلودگی کے خلاف موٹر وہیکل آرڈیننس متعارف کروایا گیا۔ اسی قسم کا ایک اور آرڈیننس اسلام آباد آرڈیننس کے نام سے 1966 میں بھی متعارف کروایا گیا۔

ایشیا کے طویل ترین دریاؤں میں سے ایک دریائے سندھ ۔ یہ دریا پنجاب اور سندھ کی بیشتر زرعی زمینوں کو سیراب کرتا ہے

سنہ 1970 سے لے کر 1980 کے دوران اس شعبہ میں بہت زیادہ قانون سازی دیکھنے میں آئی جن پر مختصر نظر ڈالیں گے۔

سنہ 1970 ۔ بلوچستان سی فشریز آرڈیننس

سنہ 1971 ۔ آبی حیات، پارک اور جنگی حیات کی حفاظت کے لیے رہنما اصول، زراعت میں کیڑے مار ادویات کا آرڈیننس

سنہ 1972 ۔ تحفظ جنگلی حیات ایکٹ سندھ

سنہ 1973 ۔ زہریلے اور مضر صحت مواد کے خلاف اصول ۔ اس سال تشکیل دیے جانے والے مملکت خداداد کے آئین میں ماحولیات کو بھی شامل کیا گیا۔

سنہ 1974 ۔ تحفظ جنگلی حیات ایکٹ پنجاب، جنگلی حیات اور پارکس کے تحفظ و انتظام کا قانون، شجر کاری و تحفظ جنگلات پنجاب کا قانون

سنہ 1975 ۔ تحفظ جنگلی حیات ایکٹ بلوچستان، ثقافتی ماحول کی بہتری کے لیے نوادرات ایکٹ، خطرے کا شکار جنگلات کی حفاظت کا قانون، تحفظ جنگلی حیات ایکٹ سرحد (خیبر پختونخوا)۔

سنہ 1976 ۔ پاکستان شجر کاری ایکٹ، علاقائی پانیوں کا ایکٹ، پنجاب کی شہری ترقی کا ایکٹ، صوبہ سرحد کے فشریز کے قوانین

سنہ 1978 ۔ بلوچستان کے زمینی پانی کے حقوق کا آرڈیننس، پانی کے بہتری معیار میں اضافے اور مویشیوں کے جنگلات میں چرنے کے حوالے سے قانون

بلوچستان کا ہنگول نیشنل پارک ۔ یہ متنوع اقسام کے جانوروں اور پرندوں کا مسکن ہے

سنہ 1979 ۔ 1980 ۔ زرعی زمین کے استعمال، آبی اور فضائی معیار، ٹھوس اخراج، جنگلات، پارکس، جنگلی حیات، مویشی اور عوام کی صحت و حفاظت کا آرڈیننس چاروں صوبوں اور مقامی سطح پر نافذ العمل کیا گیا۔

اسی دوران جنگلی حیات اور پارکس کے تحفظ کا آرڈیننس ’اسلام آباد وائلڈ لائف آرڈیننس‘، جانوروں کی درآمد و برآمد کا آرڈیننس اور وبائی بیماریوں کے حوالے سے آرڈیننس بھی نافذ کیا گیا۔

ماحولیات کے حوالے سے جامع قانون سازی 1983 میں عمل میں لائی گئی جسے آرڈیننس برائے تحفظ ماحول 1983 کا نام دیا گیا۔ 1983 سے 1997 تک کا عرصہ ماحولیاتی قوانین پر عملدرآمد کے حوالے سے بہترین عرصہ تھا۔

سنہ 1997 میں پاکستان انوائرنمنٹ ایکٹ 1997 نافذ کیا گیا۔ یہ جنگلی حیات اور ماحول کی بہتری اور تحفظ کے حوالے سے بہترین ایکٹ تھا۔ اس کے تحت کئی ذیلی قوانین بھی نافذ  کیے گئے جن میں۔۔

ماحولیاتی معیارات کے قوانین ۔ نیشنل انوائرنمنٹل کوالٹی اسٹینڈرڈز رولز 2001

پائیدار ترقی کے لیے فنڈز کا استعمال ۔ پاکستان سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ فنڈ (یوٹیلائزیشن) رولز 2001

آلودگی پھیلانے پر جرمانہ ۔ پلوشن چارج فار انڈسٹری رولز 2001

ماحولیاتی عدالت یا بینچ کا قیام ۔ انوائرنمنٹ ٹربیونل پروسیجر اینڈ کوالیفکیشن رولز 2000

ہنزہ ۔ گلگت بلتستان میں پھسو کونز، اس قسم کے نوکیلے پہاڑ دنیا میں بہت کم پائے جاتے ہیں

ماحولیاتی مثالی اصول ۔ انوائرنمنٹل سیمپل رولز 2001

مضر صحت اجزا کا قانون ۔ ہزارڈس سبسٹنس رولز 2000

اور قومی ماحولیاتی معیارات کے قوانین ۔ نیشنل انوائرنمنٹل کوالٹی اسٹینڈرڈز ریگولیشن 2000 قابل ذکر ہیں۔

پاکستان کے 2 نایاب قدرتی ذخائر

آخر میں پاکستان میں موجود 2 ایسے ذخائر کا ذکر کریں گے جن کی موجودگی اور اہمیت کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ ان میں سے ایک صنوبر کے جنگلات ہیں اور دوسرے تیمر کے جنگلات۔

واضح رہے کہ اس وقت پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 4 فیصد سے بھی کم ہے جبکہ بین الاقوامی معیارات کے مطابق کسی بھی ملک میں ماحول کی بہتری کے لیے اس کے 25 فیصد رقبہ پر جنگلات ہونا ضروری ہے۔

صنوبر کے جنگلات

بلوچستان کے ضلع زیارت میں واقع صنوبر کے تاریخی جنگلات کو یونیسکو کی جانب سے عالمی ماحولیاتی اثاثہ قرار دیا جاچکا ہے۔ تقریباً 1 لاکھ ہیکٹر رقبے پر پھیلا اور ہزاروں سالہ تاریخ کا حامل یہ گھنا جنگل دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور نایاب ذخیرہ ہے۔

واضح رہے کہ صنوبر کو سب سے قدیم اور سب سے طویل عمر پانے والے درختوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق ان درختوں کی عمر 3 ہزار سال تک محیط ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ سطح سمندر سے 2 سے 3 ہزار میٹر بلندی پر شدید موسم میں بھی افزائش پاسکتا ہے۔

یونیسکو کے مطابق صنوبر کے بیش قیمت ذخائر انسان اور قدرت کے مابین تعلق کی وضاحت اور سائنسی تحقیق میں انتہائی مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔ صنوبر کے جنگل میں موجود درختوں کی عمروں، ہیئت اور ساخت سے صحت، تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے نئی معلومات کے حصول میں مدد ملے گی۔

زیارت میں واقع صنوبر کا گھنا جنگل

پاکستان میں موجود صنوبر کے جنگلات میں بیشتر درختوں کی عمریں ہزاروں برس ہے جنہیں ’زندہ فاسلز‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ جنگلات سلیمانی مار خور، اڑیال، کالے ریچھ، بھیڑیے، لومڑی، گیدڑ اور ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کی جائے سکونت و افزائش، 13 سے زائد قیمتی جنگلی حیات اور چکور سمیت 36 اقسام کے نایاب پرندوں کا مسکن ہیں۔

اس تاریخی جنگل میں 54 سے زائد اقسام کے انمول پودے اور جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں جنہیں ادویہ کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ یہ جنگلات مقامی آبادیوں کے لیے تالابوں، چشموں اور زیر زمین پانی کے ذخائر کو محفوظ اور متواتر جاری رکھنے میں بھی انتہائی مدد گار ہیں۔

تیمر کے جنگلات

کراچی میں سینڈز پٹ سے لے کر پورٹ قاسم تک پھیلے ہوئے تیمر کے جنگلات کراچی کو قدرتی آفات سے بچانے کے لیے قدرتی دیوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تیمر کے جنگلات سمندری کٹاؤ کو روکتے ہیں اور سمندر میں آنے والے طوفانوں اور سیلابوں سے حفاظت فراہم کرتے ہیں۔

سنہ 2004 میں بحیرہ عرب میں آنے والے خطرناک سونامی نے بھارت سمیت کئی ممالک کو اپنا نشانہ بنایا تاہم پاکستان انہی تیمر کے جنگلات کی وجہ سے محفوظ رہا۔

کراچی میں تیمر کے جنگلات

لیکن خدشہ ہے اب ایسا نہ ہوسکے۔ ٹمبر مافیا کی من مانیوں کی وجہ سے 60 ہزار ایکڑ اراضی پر پھیلے تیمر کے جنگلات کے رقبہ میں نصف سے زائد کمی ہوچکی ہے اور تیمر کے جنگلات اب اپنی بقا کے خطرے سے دوچار ہیں۔

آئیں اس یوم آزادی کے موقع پر عہد کریں کہ ہم ماحولیاتی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے اور ماحول کو مزید تباہی کی طرف جانے سے بچائیں گے۔

اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل ماہرین سے مدد لی گئی۔
رافع عالم ۔ ماحولیاتی وکیل
شبینہ فراز ۔ ماحولیاتی کارکن