پیر, اپریل 28, 2025
ہوم بلاگ صفحہ 3801

پاکستان اور ایران کے درمیان تجارتی حجم 10 ارب ڈالر تک لے جانا چاہتے ہیں: ایرانی صدر

0

اسلام آباد: ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان تجارتی حجم 10 ارب ڈالر تک لے جانا چاہتے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان اور ایران کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کی تقریب اسلام آباد میں ہوئی جس میں وزیرِ اعظم شہباز شریف اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے شرکت کی۔

اس موقعے پر ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے خطاب میں کہا کہ پرتپاک استقبال پر حکومت پاکستان، وزیراعظم اور عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں، پاکستان کی سرزمین ہمارے لئے قابل احترام ہے، میں ایران کے سپریم لیڈر کی طرف سے پاکستان کے عوام کو سلام پیش کرتا ہوں۔

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان مشترکہ مذہبی، ثقافتی اور تجارتی تعلقات ہیں، دونوں کے درمیان تعلقات کے وسیع موقع ہیں، دہشت گردی کیخلاف جنگ میں دونوں ممالک کا تعاون ضروری ہے۔

ایرانی صدر کا کہنا تھا پاکستان اور ایران کے درمیان تجارتی حجم بہت کم ہے، اسے 10 ارب ڈالر تک لے جانا چاہتے ہیں، ہم دہشتگردی، منظم جرائم اور منشیات کے خاتمے کیلئے مل کر کام کریں گے۔

خطاب میں انہوں نے کہا کہ بارڈر تجارت سے دونوں ممالک کے عوام کی خوشحالی ممکن ہے، بارڈر مارکیٹ سے تجارت کو فروغ اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونگے، دونوں ممالک میں ثقافت اور تجارت سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے وسیع مواقع ہیں جس کے لیے دونوں ممالک کا تعاون ضروری ہے۔

ایرانی صدر نے کہا کہ فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت کا خاتمہ ضروری ہے، غزہ کے عوام کی بھرپور حمایت پر پاکستان کے عوام کو سلام پیش کرتے ہیں، غزہ اور فلسطین میں مظالم کیخلاف پاکستانی عوام کا ردعمل قابل ستائش ہے۔

انہوں نے کہا کہ غزہ کی صورتحال پر اقوام متحدہ کا سلامتی کونسل اپنا کردار ادا نہیں کررہا، فلسطین میں مظالم، نسل کشی کیخلاف پاکستان کے مؤقف کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اقوام عالم اور اقوام متحدہ کو فلسطین کے نہتے عوام کیلئے آواز بلند کرنا ہوگی، غزہ کے مسلمانوں کو ایک دن اپنا حق اور انصاف ضرورت ملے گا۔

پاکستان اور ایران کے درمیان کتنے اور کن معاہدوں پر دستخط ہوئے؟

0

ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی آج تین روزہ دورے پر پاکستان پہنچے اس دوران وزیراعظم ہاؤس میں دونوں ممالک میں کئی معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی پاکستان آمد کے بعد وزیراعظم ہاؤس پہنچے جہاں ان کا وزیراعظم شہباز شریف نے پُرتپاک استقبال کیا اور پاک فوج کے دستے نے انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا۔ اس موقع پر دونوں ممالک کے درمیان معاہدوں پر دستخط کی تقریب بھی منعقد ہوئی۔

وزیراعطم ہاؤس میں منعقدہ تقریب میں دونوں ممالک کے درمیان 8 مفاہمتی یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط کی تقریب ہوئی جس میں وزیراعظم شہباز شریف اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے بھی شرکت کی۔

تقریب میں پاکستان اور ایران کے درمیان باہمی سیکیورٹی تعاون کے معاہدے کی توثیق کی گئی جب کہ دونوں ممالک کے درمیان عدالتی معاونت کے سمجھوتے پر دستخط کیے گئے۔

پاکستان اور ایران کے درمیان خصوصی اقتصادی زون کیلیے مشترکہ تعاون اور ویٹرنری اور حیوانات کی صحت سے متعلق معاہدوں پر بھی دستخط کیے گئے۔

اس کے علاوہ پاکستان اور ایران کی وزارت اطلاعات کے درمیان فلم کے تبادلوں اور دونوں ممالک کے درمیان سمندر پار پاکستانیز، انسانی ترقی اور سوشل ویلفیئر سے متعلق معاہدوں پر بھی دستخط کیے گئے۔

پاکستانی نژاد برطانوی شہری پر ایف آئی اے اہلکار کا مبینہ تشدد

0

کراچی: لاہور ایئرپورٹ پر پاکستانی نژاد برطانوی شہری پر ایف آئی اے اہلکار کی جانب سے مبینہ تشدد کا معاملہ سامنے آیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق دبئی سے لاہور آنے والے پاکستانی نژاد برطانوی شہری ملک بلال نے سول ایوی ایشن اتھارٹی کو تشدد کے حوالے سے ایک تحریری شکایت کی ہے، جس پر اے ایس آئی بلال کو معطل کر دیا گیا ہے۔

مسافر نے کہا کہ امیگریشن کاؤنٹر پر موجود اے ایس آئی نے ان سے ای ویزا طلب کیا تھا، تاہم موبائل فون کی بیٹری ختم ہو جانے کے باعث انھوں نے اہلکار کو پاسپورٹ نمبر سے ویزا چیک کرنے کو کہا، جس پر اہلکار کی جانب سے ای ویزا دکھانے پر اصرار کیا گیا تو اس پر تلخ کلامی ہو گئی۔

برطانوی شہری نے دعویٰ کیا ہے کہ اے ایس آئی نے ان کے چہرے اور کان پر مکے مارے، جس کی وجہ سے ان کے کان سے خون نکلنے لگا تھا، ملک بلال نے مطالبہ کیا ہے کہ واقعے سے متعلق تحقیقات کے بعد اے ایس آئی کے خلاف کارروائی کی جائے۔

ترجمان سی اے اے نے اس سلسلے میں بتایا کہ ڈی جی سی اے اے نے واقعے کی انکوائری رپورٹ طلب کی ہے، اگر زد و کوب کرنے کی تصدیق ہو گئی تو اہلکار کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

دوسری جانب ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور سرفراز ورک نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے امیگریشن کاؤنٹر کے اے ایس آئی بلال کو معطل کر دیا ہے، انھوں نے کہا ڈپٹی ڈائریکٹر کی سربراہی میں ایک انکوائری ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے، اور اے ایس آئی بلال سے واقعے کا تحریری جواب بھی طلب کر لیا گیا ہے، سرفراز ورک کا کہنا تھا کہ کسی شہری کے ساتھ زیادتی برداشت نہیں کی جائے گی۔

سیکیورٹی فورسز کا خیبر پختونخوا میں آپریشن، 11 دہشتگرد ہلاک

0

سیکیورٹی فورسز کی جانب سے صوبہ خیبر پختونخوا میں دو مختلف مقامات پر آپریشن کیا گیا جس میں 11 دہشتگرد مارے گئے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق سیکیورٹی فورسز کی جانب سے صوبہ خیبر پختونخوا میں دو مختلف مقامات پر آپریشن کیا گیا جس میں 11 دہشتگرد مارے گئے ہیں۔

آئی ایس پی آر کے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے ڈیرہ اسماعیل خان میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا۔ اس آپریشن کے دوران فائرنگ کا شدید تبادلہ ہوا اور سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 10 دہشتگرد مارے گئے۔

اس کے علاوہ شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز اور دہشتگردوں میں جھڑپ ہوئی جس فائرنگ کے تبادلے میں ایک دہشت گرد ہلاک ہوا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق تمام دہشتگرد فورسز پر حملوں اور بے گناہ شہریوں کے قتل میں ملوث تھے۔ آپریشنز کے دوران ہتھیار، گولیاں اور دھماکا خیز مواد بھی برآمد کیا گیا۔

سیکیورٹی فورسز کے آپریشنز اور دہشت گردوں کے خاتمے کیلیے مقامی افراد کی حمایت حاصل تھی۔

وزیراعلیٰ سندھ کا اسٹریٹ کرائمز کے خاتمے کیلئے بڑا فیصلہ

0
سمندری طوفان وزیراعلیٰ سندھ

کراچی: وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اسٹریٹ کرائم کیخلاف دوطرفہ کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیرصدارت اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے صوبے میں امن وامان سے متعلق بریفنگ دی۔

اجلاس میں وزیر اعلیٰ مرادعلی شاہ نے اسٹریٹ کرائم کیخلاف سخت اقدامات کا حکم دیا اور کہا آئی جی سندھ تھانوں کو مضبوط اور بہتر بنائیں، شاہین فورس اور اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کو فعال کریں۔

 وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے آئی جی سندھ کو کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کو اپ گریڈ کرنے، ون فائیو مدد گارکو مزید بہتر کرنے کی بھی ہدایت کی۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ چوری کا سامان جس بازار میں فروخت ہوتا ہے وہاں کارروائی ہو گی، اسٹریٹ کرمنلز کے مکمل ڈیٹا پر پولیس کی سی ٹی ڈی اور اسپیشل برانچ باقاعدہ کام کرے گی۔

آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے بریفنگ میں بتایا کہ اسٹریٹ کرائم کے روزانہ 250 مقدمات درج ہورہے ہیں، جس پر وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ شاہین فورس کرائم ہونے والی جگہوں پر پیٹرولنگ کریں۔

آئی جی سندھ نے بتایا کہ کراچی میں دہشت گردی کی فنڈنگ اور غیر قانونی اسلحہ کے خلاف سخت کارروائی کی گئی ہے، غیر قانونی اسلحہ کے 2769 مقدمات داخل کیے جبکہ اس کارروائی کے دوران 2769 ملزم کو گرفتار کیا گیا، اس سال 18 اپریل تک مختلف قسم کے 2822 ہتھیار برآمد کیے۔

آئی جی سندھ نے کچے میں آپریشن سے متعلق بریفنگ میں کہا کہ جنوری سے 19 اپریل  تک 118 افراد اغواکیے گئے ہیں، جس میں سے 94 بافراد ازیاب کرائے گئے جبکہ 24 کیلئے کوششیں جاری ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کچے میں آپریشن تیز کرنے اور ٹیکنالوجی کے استعمال کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ شکار پور اور کشمور کے  کچے میں پولیس چوکیاں بنائی جائیں۔

ہمارے ہاں مزاح کیوں نہیں؟

0

اس سوال پر زیادہ توجہ صرف نہیں کی گئی ہے۔ بہر حال کبھی کبھی لوگوں کے دل میں یہ خیال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اردو کے جدید ادب میں مزاح کیوں نہیں ہے؟ یعنی خالص مزاح، ورنہ ویسے تو افسانوی ادب کا بیشتر حصّہ طنز پر مشتمل ہے اور طنزیہ نظموں کے علاوہ بہت سی اور نظموں میں بھی طنزیہ عناصر آ جاتے ہیں۔

ادب میں مزاح کی کمی ایسا مسئلہ نہیں جو صرف اردو ادب تک ہی محدود ہو۔ اس کا تعلق بیسویں صدی کے ہر ادب سے ہے بلکہ صنعتی دور کے ادب سے ہے۔ یوں ہونے کو تو مغرب میں مزاحیہ ادب کی تھوڑی بہت تخلیق ہو رہی ہے اور طنز و تضحیک سے لے کر FANTASY تک ہر چیز موجود ہے۔ اگر خالص ادبی حثییت رکھنے والی چیزیں ختم بھی ہو جائیں تو بھی جب تک MUSIC HALL زندہ سلامت ہیں، مغربی تہذیب سے مزاح غائب نہیں ہو سکتا بلکہ اگر کاڈویل کی بات مانیں تو میوزک ہال کی تخلیقات کو پرولتاری آرٹ کہنا پڑے گا، لیکن ان سب باتوں کے باوجود خود مغرب میں چوسر، رابیلے، سروانیٹنراور شیکسپئر کی قسم کا عظیم المرتبت مزاحیہ ادب پیدا نہیں ہو رہا ہے۔ ہاں البتہ جوئس کی کتابوں کے بہت سے حصّے مستثنیٰ کے طور پر پیش کئے جا سکتے ہیں، مگر ان مزاحیہ اور طربیہ حصوں کے پہلو بہ پہلو جوئس کے یہاں حزن بھی بلا کا موجود ہے۔ بہرحال جوئس سے قطع نظر عمومی حیثیت سے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ بیسویں صدی وہ زمانہ ہی نہیں جہاں طربیہ روح پھلے پھولے۔

ہمارے دور کا انسان ایک بڑی مصیبت میں مبتلا ہے۔ وہ مستقبل کو نہیں بھول سکتا۔ چنانچہ وہ اپنے آپ کو حال کے لمحے میں بھی اس طرح جذب نہیں کر سکتا جس طرح صنعتی دور سے پہلے کا انسان کر سکتا تھا۔ اور پھر مستقبل بھی ایسا کہ جو ہمیشہ خوفناک نہ سہی، مگر اتنا بے شکل ہے کہ دل میں تردد پیدا کر دیتا ہے۔ بیسویں صدی کا انسان اس یقین کے ساتھ نہیں ہنس سکتا کہ کل بھی وہ اسی طرح ہنس سکے گا۔ پہلے آدمی کے لئے حیات بعد ممات کا عقیدہ ایک بہت بڑا سہارا تھا، اس کے ساتھ یہ عقیدہ بھی کہ ایسی طاقت موجود ہے جس کی رضا کے مطابق ہر بات ہوتی ہے۔ یہ طاقت انسان سے بلند تر ہونے کے باوجود بہت سی باتوں میں انسان سے مشابہ تھی۔

یہ طاقت غضب ناک سہی مگر رحیم و کریم تھی۔ کم سے کم انسان کو تھوڑا بہت یہ ضرور معلوم تھا کہ یہ طاقت کن باتوں سے خوش ہوتی ہے اور کن باتوں سے ناراض۔ ان تصورات پر سے اعتقاد اٹھ جانے کے بعد کوشش کی گئی ہے کہ ان کی جانشینی چند معاشیاتی یا عمرانی نظریوں کے سپرد کی جائے، مگر یہ نظریے ابھی تک عوام کے شعور میں جذباتی تجربوں کا درجہ حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ چنانچہ اب ان کے پاس اپنی دنیا کو سمجھنے کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں رہا جو انہیں مطمئن کر سکے۔ ہر نیا واقعہ اتفاق یا حادثے کی حیثیت رکھتا ہے اور عوام کی ذہنی حالت کچھ حیرانی اور سراسیمگی کی زیادہ ہے۔ چنانچہ اس زمانے میں اگر کوئی مزاح نگار پیدا بھی ہو جائے تو اسے ایسی پبلک نہیں ملے گی جو ہنسنے کے لئے تیار ہو۔ چیٹرٹن کے اندر بڑا مزاح نگار بننے کی کچھ صلاحیت موجود تھی، لیکن ماحول کا جبر دیکھئے، ساری عمر وہ ہنسنے کی ضرورت پر وعظ کہتا رہا، مگر خود نہیں ہنس سکا (یعنی کسی بڑی مزاحیہ تخلیق کی شکل میں)

ایک اور وقت ہمارے زمانے کے مزاح نگار کو پیش آتی ہے۔ وہ پورے یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس چیز پر ہنسا جا سکتا ہے اور اس چیز پر نہیں۔ ماحول اتنی تیزی سے بدل رہا ہے کہ کسی چیز کو غور سے دیکھنے کی مہلت ہی نہیں ملتی۔ جو چیز آج طربیہ ہے کل وہ حزنیہ بن جاتی ہے۔ ان کے اس طرح گڈمڈ ہو جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر چیز یا تو ہولناک نظر آنے لگی ہے یا مضحکہ خیز۔ لیکن جب ہر چیز مضحکہ خیز ہو گئی تو اس کے یہ معنیٰ ہوں گے کہ آپ کسی چیز پر بھی ہنس نہیں سکتے۔ سوچئے کہ آپ ALICE IN WONDERLAND والی دنیا میں پہنچ جائیں تو آپ کے دماغ کی کیا حالت ہوگی؟

ہنسی کے لئے تضاد اور تقابل کا وجود لازمی ہے۔ تضاد کے بغیر چیزوں کی معنویت غائب ہونے لگتی ہے۔ جب ساری چیزیں ایک سی بے معنی ہوگئیں تو ہنسی کی گنجائش کہاں رہی؟ ہمارے زمانے میں کوئی STANDARD OF FORMALITY ہی باقی نہیں رہتا ہے، حالانکہ مزاح کے لئے یہ چیز بنیادی طور پر ضروری ہے۔ غیر معمولی باتیں اتنی عام ہوگئی ہیں کہ ہم انہیں روزمرّہ کی چیزیں سمجھ کر قبول کرنے لگے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ سب باتیں ہمارے اندر رنج و غم بلکہ وحشت اور دیوانگی تک پیدا کرتی ہوں۔ لیکن جب تک ہم انہیں معمول سے ہٹتی ہوئی باتیں نہ سمجھیں ہم ان پر ہنس نہیں سکتے۔

کچھ ہماری دنیا میں نظریہ بازی کا شوق بھی بہت بڑھ گیا ہے اور واقعی ہمارے زمانے کے واقعات ہیں بھی بہت اہم۔ ساری انسانیت کا مستقبل بلکہ انسانیت کی زندگی تک ان کے رجحانات پر منحصر ہے۔ چنانچہ ہر چیز ایک مسئلہ بن گئی ہے اور ایسا مسئلہ کہ جس سے لطف لینے کا وقت بالکل نہیں ہے بلکہ جسے جلدی سے جلدی سمجھنا ہے اور کوئی حل تلاش کرنا ہے۔ ہر چیز اتنی سنجیدہ ہو گئی ہے کہ بے پروائی سے اس پر ہنستے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ ہاں جب ہم کسی چیز کا حل نہیں تلاش کر سکتے تو شکست، مایوسی اور جھنجھلاہٹ کی وجہ سے ایک زہر خند ضرور ہمارے ہونٹوں تک آ جاتا ہے۔ چنانچہ بیسویں صدی کے ادب میں اذیت پرستانہ طنز کی بڑی فراوانی ہے۔

اور بہت سی چیزوں کی طرح اس بحرانی دور میں ادب اور ادیب بھی بڑی غیر ضروری اور بے کار سی چیزیں معلوم ہونے لگے ہیں۔ یہاں تک کہ ادیب کو بھی شدت سے یہ احساس ہوگیا ہے کہ سماج اب اس کی ضرورت نہیں سمجھتی، یا اسے سامانِ تعیش میں گنا جاتا ہے جس کا بوجھ اب سماج نہیں اٹھا سکتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ چند ادیب سماج سے بے نیاز ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن ہر آدمی میں تو اتنا بل بوتا نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ ادیبوں کے ایک بہت بڑے طبقے نے سماج پر اپنی اہمیت واضح کرنے اور اپنا کھویا ہوا وقار پا لینے کی کوشش کی ہے۔ وہ سماج کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم بھی ذمہ دار آدمی ہیں، ہم بھی نظریے بنا سکتے ہیں، ہمارے پاس بھی مسائل کے حل موجود ہیں، ہمارا بھی مقصد ایک ہے۔ ادیب اس بات سے بہت ڈرتے ہیں کہ کہیں انہیں غیر ذمہ دار یا غیرسنجیدہ نہ سمجھ لیا جائے، لہٰذا وہ کوشش کر کر کے اپنے چہرے پر شکنیں ڈالتے ہیں، خود اپنے آپ کو زبردستی یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہم بڑے سنجیدہ اور ذمہ دار آدمی ہیں، حالانکہ زندگی سے لطف لینا خود ایک بڑ ی ذمہ داری ہے۔ اس طرح یہ ادیب اپنے اندر ہنسی کا گلا خود دبائے رکھتے ہیں۔

یہ ایسی باتیں تھیں جو صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں مزاحیہ ادب کی تخلیق کو روک رہی ہیں۔ لیکن اردو کے نئے ادب میں مزاح کی کمی کے علاوہ ایک اور بھی سبب ہے۔ اردو کے ادیبوں کا سرمایہ بس لے دے کے ادیب بننے کی خواہش ہے۔ ان کی جڑیں نہ تو ادب میں مضبوط ہیں نہ زندگی میں۔ جس زندگی نے انہیں پیدا کیا ہے اس سے نہ تو انہیں واقفیت ہے نہ اس سے محبت۔ یوں حب الوطنی کا اظہار اور چیز ہے، لیکن جس طرح ہم سرشار اور نذیر احمد کے متعلق کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے ماحول میں ڈوبے ہوئے تھے اور اپنی دنیا سے محبت کرتے تھے، اس طرح کے جملے ہم نئے ادیبوں کے متعلق استعمال نہیں کرسکتے۔ عصمت چغتائی اس بات سے بہت حد تک مستثنی ہیں۔ ذاتی خواہشات کے میدان کو چھوڑ کر اردو کے اکثر و بیشتر نئے ادیبوں کو زندگی سے کچھ یوں ہی سا علاقہ ہے۔ غریبوں سے ہمدری کے تمام اعلانوں کے باوجود زندگی سے ناواقف ہیں۔

میرا مطلب ذہنی علم سے نہیں بلکہ اعصابی ادراک سے ہے۔ اگر میرا یہ الزام کچھ غیرمتوازن معلوم ہوتا تو امتحان بھی کچھ مشکل نہیں۔ اردو کے سارے نئے ادب میں سے صرف ایک افسانہ ایسا نکال کر دکھا دیجیے جس میں ہندوستان کی زندگی اور ہندوستان کی روح اپنی پوری شدت کے ساتھ نظر آتی ہو۔ ایک ایسا افسانہ جسے پڑھ کر کوئی غیر ملکی آدمی یہ کہہ سکے کہ ہاں، اس افسانے میں ہندوستان سما گیا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میں صرف PICK PAPERS جیسی چیز سے مطمئن ہوں گا۔ یہاں تو اسکاٹ کے THE TWO DROVERS کے مقابلے کا افسانہ ملنا مشکل ہے۔

اردو کے ادیبوں کی دوسری کمزوری یہ ہے کہ انہیں اپنی زبان ہی نہیں آتی۔ ہمارے ادیبوں نے عوام کو بولتے ہوئے نہیں سنا، ان کے افسانوں میں زندہ زبان اور زندہ انسانوں کا لب و لہجہ نہیں ملتا۔ ایسی صورت میں مزاح کی تخلیق ممکن ہی نہیں۔ ادب کی اور اصناف کی بہ نسبت مزاح کہیں زیادہ سماجی چیز ہے۔ جب تک مزاح دوسروں کے اندر آواز بازگشت پیدا نہیں کرتا، کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔ اور یہ آواز بازگشت اس وقت تک پیدا نہیں ہوتی جب تک زبان پر قدرت حاصل نہ ہو۔ لوگوں کو رلانے کے لئے اتنے فن کی ضرورت نہیں جتنی ہنسانے کے لئے ہے۔ ہمارے لکھنے والوں کو ایک طرف تو اردو نہیں آتی، دوسری طرف زیادہ تعداد ایسے ادیبوں کی ہے جنہیں صرف اتنی انگریزی آتی ہے کہ عبارت کا مفہوم سمجھ لیں۔ جب وہ کسی انگریزی مصنف سے اثر پذیر ہوتے ہیں تو وہ اس اثر کا تجزیہ نہیں کر سکتے۔ لہٰذا موٹی موٹی باتوں کی نقل تو وہ خیر بری بھلی کر لیتے ہیں مگر اصلی چیز ان کی گرفت میں نہیں آتی۔

بہرحال اور جتنی رکاوٹیں ہیں وہ دور بھی ہو جائیں تب بھی اردو میں مزاحیہ ادب کا مستقبل کچھ زیادہ تابناک نہیں بن سکتا، جب تک کہ اردو کے ادیب اردو سیکھنے کی کوشش نہ کریں۔

(اردو کے ممتاز نقاد، مترجم اور افسانہ نگار محمد حسن عسکری کی ایک فکرانگیز تحریر)

مودی کے ’’400 پار‘‘ نعرے میں کیا راز چھپا ہے؟ پرینکا گاندھی نے بھانڈا پھوڑ دیا

0

بھارت میں لوک سبھا کے انتخابات کیلیے وزیراعظم مودی نے الیکشن میں 400 پار کا نعرہ دیا لیکن پرینکا گاندھی نے اس نعرے میں چھپے راز کا بھانڈا پھوڑ دیا۔

انڈین میڈیا کے مطابق کانگریس کی جنرل سیکریٹری پرینکا گاندھی نے چھتیس گڑھ میں انتخابی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مودی کے اس نعرے سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ بی جے پی 400 پار کا نعرہ اس لیے لگایا ہے کہ وہ بھارتی آئین کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔

کانگریس رہنما نے کہا کہ بی جے پی کے لیڈر جہاں جہاں تقریریں کر رہے ہیں، وہاں کہہ رہے ہیں کہ ہم کو 400 سیٹیں دے دو ہم آئین کو تبدیل کر دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ جس آئین نے ہندوستانی عوام کو حقوق دیے، ووٹ ڈالنے کا حق دیا، ریزرویشن دیا، قبائلیوں کی ثقافت کی حفاظت کی، بی جے پی اس آئین کو تبدیل کر کے آپ عوام کے حقوق کو کمزور کرنا چاہتی ہے۔

پرینکا گاندھی نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ ایک طرف بی جے پی کے چھوٹے لیڈر اور ان کے وزرا جگہ جگہ جا کر کہہ رہے ہیں کہ ہم آئین کو تبدیل کر دیں گے، دوسری طرف مودی اور ان کے بڑے لیڈران کہتے ہیں کہ ہم آئین کو تبدیل نہیں کریں گے۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ بی جے پی کے لیڈران بغیر مودی جی کی اجازت اتنی بڑی بات کہہ سکتے ہیں! یہ پوری سازش ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپ نے اندرا گاندھی کو بہت عزت و احترام سے نوازا۔ آج جب میں ان کی پوتی آپ کے سامنے آتی ہوں تو آپ میرا احترام کرتے ہیں کیوں کہ انہوں نے دکھاوے کی سیاست نہیں کی جب کہ مودی 10 سال سے صرف دکھاوے کی سیاست کر رہے ہیں  اس دوران کچھ ٹھیک نہیں ہوا بلکہ بگاڑ ہی پیدا ہوا ہے۔

امریکی شہریت کے حصول میں بھارت دوسرے نمبر پر، کیا بھارتی اپنے ملک سے مایوس ہو گئے؟

پرینکا گاندھی نے اس دوران عوام سے کانکیر سے کانگریس کے امیدوار بیریش ٹھاکر کو ووٹ دینے کی اپیل کی۔

مالدیپ میں بھارت مخالف صدر کی جماعت بھاری اکثریت سے کامیاب

0

مالدیپ کے پارلیمانی انتخابات میں بھارت مخالف اور چین نواز صدر محمد موئزو کی پارٹی پی این سی کو بھارتی اکثریت سے کامیابی ملی ہے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق مالدیپ کے عوام نے ایک بار پھر بھارت مخالف موئزو کو اپنے ملک کی قیادت کے لیے پسند کیا ہے اور موئزو کی پارٹی پی این سی کو پارلیمنٹ کی 93 نشستوں میں سے 66 نشتیں حاصل ہو گئی ہیں جو دو تہائی اکثریت سے بھی زیادہ ہیں۔ اس نتیجے سے حزب اختلاف کی جماعت ایم ڈی پی کو شدید مایوسی ہوئی ہے۔

مالدیپ کے پارلیمانی انتخابات میں محمد موئزو کی پارٹی پی این سی کو بڑی کامیابی ملی ہے جب کہ حزب اختلاف کی جماعت ایم ڈی پی کو مایوسی ہوئی ہے۔نیوز پورٹل ’اے بی پی‘ پر شائع خبر کے مطابق  ایسا مانا جا رہا ہے کہ مالدیپ کے لوگوں نے ایک بار پھر ہندوستان  مخالف موئزو  کو پسند کیا ہے۔ مالدیپ کی 93 نشستوں والی پارلیمنٹ میں پی این سی کو 66 نشستیں حاصل ہوئی ہیں، جب کہ موئزو کی پارٹی کو مالے میں ہونے والے حالیہ میئر کے انتخابات میں عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

دراصل، 20ویں عوامی مجلس کے لیے ووٹنگ اتوار کو مقامی وقت کے مطابق صبح 8 بجے سے شام 5:30 بجے تک ہوئی۔

گزشتہ روز ہونے والے الیکشن کے نتائج کے مطابق 93 نشستوں میں سے 66 نشستوں پر موئزو کی پارٹی پیپلز نیشنل کانگریس نے کامیابی حاصل کی۔ مرکزی اپوزیشن جماعت مالدیوین ڈیموکریٹک پارٹی (ایم ڈی پی) کو 12 نشستوں پر قناعت کرنا پڑی جب کہ 8 نشستوں پر آزاد امیدواروں اور 7 نشستیں مختلف چھوٹی جماعتوں نے حاصل کی ہیں۔

گزشتہ سال محمد موئزو نے محمد صالح کو شکست دی تھی جس کے بعد وہ مالدیپ کے صدر بنے تھے لیکن مالدیپ کی پارلیمنٹ میں پی این سی کے پاس اکثریت نہیں تھی جس کی وجہ سے وہ ملک میں بڑی تبدیلیاں نہیں کر سکے تھے اور انتخابات سے قبل موئزو نے ملک کی عوام سے مالدیپ کی پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کی اپیل کی تھی۔

محمد موئزو کو چین نواز رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اب پارلیمنٹ میں ایم ڈی پی کی اکثریت ختم ہو چکی ہے تو موئزو کے لیے مالدیپ میں بڑی تبدیلیاں کرنا آسان ہو گیا ہے۔

ان انتخابات کے نتیجے میں ماہرین مالدیپ اور بھارت کے تعلقات میں نمایاں دراڑ پڑتے دیکھ رہے ہیں کیونکہ موئزو کے گزشتہ سال صدر بننے کے بعد دونوں ممالک میں تعلقات پہلے ہی خراب ہو چکے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق چین مالدیپ میں فوجی اڈہ بنانا چاہتا ہے اور حال ہی میں مالدیپ اور چین کے درمیان کئی خفیہ معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں جب کہ چین نے مالدیپ کو مفت فوجی امداد فراہم کرنے کی بات کی ہے۔

واضح رہے کہ مالدیپ میں پارلیمانی انتخابات پانچ سال کے لیے ہوتے ہیں جب کہ صدارتی انتخابات الگ سے ہوتے ہیں۔

اسرائیل کے ملٹری انٹیلیجنس چیف 7 اکتوبر کے حملے کی ناکامی پر مستعفی

0

تل ابیب: اسرائیل کے ملٹری انٹیلیجنس چیف أهارون هاليفا 7 اکتوبر کے حملے کی ناکامی پر مستعفی ہو گئے۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل کے ملٹری انٹیلیجنس چیف نے 7 اکتوبر کے حملے کی ناکامی پر استعفیٰ دے دیا ہے، وہ پہلی اعلیٰ سرکاری شخصیت ہیں جنھوں نے حماس کے حملے پر عہدہ چھوڑا۔

اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملٹری چیف آف اسٹاف نے أهارون هاليفا کا استعفیٰ قبول کر لیا اور ان کی خدمات پر ان کا شکریہ ادا کیا۔

الجزیرہ کے مطابق ھالیفا کے اس اقدام کی وجہ سے اسرائیل کے دیگر اعلیٰ سیکیورٹی افسران کو موقع ملے گا کہ وہ بھی حملے کو روکنے کے لیے ذمہ داری قبول کریں، یاد رہے کہ هاليفا نے اکتوبر میں کہا تھا کہ حملے کو نہ روک سکنے کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر ہے۔

اسرائیل نے لبنان میں اپنا ڈرون مار گرائے جانے کی تصدیق کردی

اسرائیلی فوج نے بیان میں کہا کہ میجر جنرل أهارون هاليفا کو 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد ذمہ داری قبول کرتے ہوئے سروس ختم کرنے کو کہا گیا تھا، الجزیرہ کے مطابق هاليفا کے ساتھ ساتھ دیگر فوجی اور سیکیورٹی حکام سے بڑے پیمانے پر توقع کی جا رہی تھی کہ وہ ان واضح ناکامیوں کے جواب میں مستعفی ہو جائیں گے جن کی وجہ سے حملہ ہوا۔

اگر ایک طرف هاليفا اور دیگر نے اکتوبر کے حملے کو نہ روک سکنے کی ذمہ داری قبول کی ہے، تو دوسری طرف وزیر اعظم نیتن یاہو نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی، اور کہا کہ وہ اپنے کردار کے حوالے سے سخت سوالات کا جواب دیں گے۔

فیکٹریوں میں کام کرنیوالے مزدوروں کیلئے خوشخبری

0

23 اپریل کو غیر ملکی معززین کی آمد پر محکمہ لیبر نے کراچی میں فیکٹریوں میں کام کرنیوالے مزدوروں کیلئے عام تعطیل کا اعلان کیا ہے۔

 تفصیلات کے مطابق سندھ کی محکمہ لیبر نے فیکٹریوں میں کام کرنیوالے مزدوروں کیلئے عام تعطیل کا اعلان کیا ہے، سندھ فیکٹری ایکٹ کے تحت 23 اپریل کو فیکٹریز میں مزدوروں کی چھٹی ہوگی۔

سندھ کے سیکرٹری لیبر حفیظ اللہ عباسی نے چھٹی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا۔

ایرانی صدر کی پاکستان آمد پر عام تعطیل کا اعلان

واضح رہے کہ گزشتہ روز کمشنرکراچی نے بھی 23 اپریل (منگل)کو  شہر میں عام تعطیل کا اعلان کیا، کمشنر کراچی کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق کل کراچی ڈویژن میں تمام نجی اور سرکاری دفاتر  اور  تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔

خیال رہےکہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی پاکستان پہنچ گئے ہیں، ایرانی صدر دورہ پاکستان کے دوران اسلام آباد ، لاہور اور کراچی جائیں گے۔

23 اپریل منگل کو ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کراچی پہنچیں گے، کراچی میں ایرانی صدر کی وزیراعلیٰ سندھ اور گورنر سندھ سےملاقاتیں ہوگی، ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کراچی میں مزار قائد پر بھی حاضری دیں گے۔