احسان دانش کی زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت تھی۔ روزی روٹی کا چکر ان کے پیروں میں ایسا پڑا کہ عمر اسی میں گزر گئی اور وہ شاعرِ مزدور مشہور ہوگئے۔
اردو کے اس مشہور شاعر کی زندگی کے ابتدائی ایّام بے حد سخت اور کٹھن تھے، جب احسان دانش کو جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے بڑے جتن کرنا پڑے۔ انھوں نے کبھی مزدوری کی تو کبھی باروچی گیری، کہیں چپڑاسی بھرتی ہوئے تو کبھی مالی بن کر دو وقت کی روٹی کا انتظام کیا، لیکن اس کے ساتھ قلم بھی تھامے رکھا اور تخلیقی ادب کے ساتھ زبان و بیان، تحقیق اور تدوین کا کام بھی انجام دیتے رہے۔
احسان دانش ایسے کج کلاہ تھے جنھوں نے ضمیر فروشی کے علاوہ ہر معمولی مگر جائز کام کر کے پیسے کمائے۔ ان کا اصل نام قاضی احسانُ الحق تھا، مگر شعر و ادب میں احسان دانش کے نام سے شہرت پائی۔ 22 مارچ 1982ء کو وفات پانے والے احسان دانش نام وَر شاعر، ادیب اور ماہرِ لسان تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کی مشکلات اور تلخیوں کے ساتھ اردو زبان و ادب میں جو نام و مرتبہ پایا اس کی مثال کم ہی نظر آتی ہے۔
قاضی احسان الحق 1914ء میں کاندھلہ، مظفر نگر (یو پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ غربت کی وجہ سے چوتھی جماعت سے آگے نہ پڑھ سکے، لیکن مطالعہ کے شوق اور لگن سے اردو، فارسی اور عربی کے ساتھ شاعری میں کمال حاصل کیا۔ نوعمری میں تلاشِ معاش کی غرض سے لاہور آگئے اور یہیں عمر تمام کی۔
احسان دانش شاعری نے ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ غزلوں کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر کہی گئی نظمیں احسان دانش کے تخلیقی شعور اور انسان دوستی کی مثال ہیں۔ ان کے شعری مجموعوں میں حدیثِ ادب، دردِ زندگی، تفسیرِ فطرت، آتشِ خاموش، چراغاں اور گورستان سرِفہرست ہیں۔
لسانیات کا مضمون بھی احسان دانش کی علمی قابلیت اور استعداد کا ثبوت ہے۔ اس میدان میں دستورِ اردو، تذکیر و تانیث اور اردو مترادفات ان کی یادگار کتابیں ہیں۔ حضرت احسان دانش کی خود نوشت سوانح عمری جہانِ دانش بھی علمی اور ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہوئی جس پر پاکستان رائٹرز گلڈ نے انھیں آدم جی ادبی ایوارڈ دیا اور حکومتِ پاکستان نے اس کتاب پر احسان دانش کو انعامی رقم دی۔
علمی اور ادبی خدمات پر انھیں ستارۂ امتیاز اور نشانِ امتیاز بھی عطا کیے گئے تھے۔ احسان دانش کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔
آج اس نے ہنس کے یوں پوچھا مزاج
عمر بھر کے رنج و غم یاد آ گئے
ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے:
یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو
تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ
یہ کون ہنس کے صحنِ چمن سے گزر گیا
اب تک ہیں پھول چاک گریباں کیے ہوئے