جمعہ, مئی 24, 2024
اشتہار

فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل : وفاقی حکومت کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد : سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز سے متعلق کیس میں وفاقی حکومت کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس یحیی آفریدی ،جسٹس منیب اختر بینچ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بینچ میں شامل ہیں۔

- Advertisement -

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ایک متفرق درخواست دائر کی ہے، جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

صدرسپریم کورٹ بار عابد زبیری نے کہا کہ 1999سپریم کورٹ میں لیاقت حسین کیس سے اصول طے ہے، اصول طے ہے کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل نہیں ہو سکتا، میں نے اپنا جواب عدالت میں جمع کرا دیا ہے،پانچ نکات پر عدالت کی معاونت کروں گا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے آپ کی رائے آنا اچھا ہوگا ، عابد زبیری نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 83اے پر دلائل کا آغاز کروں گا، آرٹیکل 83 اے ک ےتحت سویلینزکا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوسکتا،21 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر فیصلے میں عدالت نےجوڈیشل ریویوکی بات کی، بنیادی نکتہ یہ ہے جو الزامات ہیں ان سے ملزمان کا تعلق کیسےجوڑا جائے گا۔

صدرسپریم کورٹ بار کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں ، عدالتی کہہ چکی ملزمان کا براہ راست تعلق ہوتوہی فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے، سوال یہ ہے کیا بغیر آئینی ترمیم سویلینز کا فوجی عدالتوں ٹرائل ہوسکتا ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ اپنا موقف واضح کریں کیا ملزمان کا تعلق جوڑناٹرائل کیلئےکافی ہوگا؟ کیا آئینی ترمیم کے بغیر سویلینز کا ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا؟ جس پر عابد زبیری نے بتایا کہ سویلینزکا فوجی عدالتوں میں ٹرائل آئینی ترمیم کے بغیر نہیں ہوسکتا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں ملزمان کا تعلق ٹرائل کےلئے پہلی ضرورت ہے؟ آپ کےمطابق تعلق جوڑنے، آئینی ترمیم کے بعد سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ لیاقت حسین کیس میں آئینی ترمیم کے بغیرٹرائل کیا گیا تھا، فوج سےاندرونی تعلق ہوتوکیا پھر آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں؟ عابدزبیری نے بتایا کہ سویلینزکےفوجی عدالتوں میں ٹرائل کیلئےترمیم ضروری ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگرملزمان کااندرون تعلق ثابت ہوجائےتوکیاہوگا؟ جس پر صدر سپریم کورٹ بار نے بتایا کہ موجودہ حالات میں ٹرائل کےلئے خاص ترمیم کرنا ہوگی، کچھ ملزمان کو چارج کیا جارہا ہے کچھ کو نہیں، ہمیں معلوم نہیں ملزمان کےفوج عدالتوں میں مقدمات چلانےکاپیمانہ کیاہے۔

عابد زبیری کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں میں مقدمات سننےوالےجوڈیشل کےبجائےایگزیکٹوممبران ہوتےہیں، 21ویں اور 23ویں ترامیم خاص مدت کےلئےتھیں، 21ویں ترمیم کےبعدسپریم کورٹ نے اجازت تودی مگرریویو کا اختیار بھی دیا، سپریم کورٹ نے دائرہ اختیاریااختیارات سے تجاوز بدنیتی پرجوڈیشل ریویوکااختیاردیا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے صدر سپریم کورٹ بار سے استفسار کیا کیا آپ کہہ رہے ہیں پہلےعام عدالتوں میں فردجرم لگےپھرمعاملہ ملٹری کورٹس جائے؟ جس پر انھوں نے بتایا کہ قانون میں ملزم کا لفظ ہی ہے جب تک فرد جرم عائد نہ ہو بندہ مجرم نہیں ہوتا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے مزید کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کیس پہلے عام عدالت میں چلے پھر ملٹری کورٹس جاسکتاہے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لیاقت حسین کیس میں کہاگیاملٹری اتھارٹیز تحقیقات کرسکتی ہیں سویلین کا ٹرائل نہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کس پر آرمی ایکٹ لگے گا کس پرنہیں ؟ عابد زبیری نے کہا کہ تحقیقات کرنا پولیس کا کام ہے،پولیس ہی فیصلہ کرے گی۔

صدرسپریم کورٹ بارعابدزبیری نےمختلف امریکی عدالتی فیصلوں کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شہریوں کی فوج کی جانب سے حراست بھی غیر قانونی ہے۔

صدرسپریم کورٹ بارعابدزبیری کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا عدالت کے سامنے 21ویں آئینی ترمیم اورلیاقت حسین کیس کو بھی زیر بحث لایا گیا،جس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ سویلینز پر آرمی ایکٹ کا اطلاق کیسےہوسکتا ہے؟

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لیاقت حسین کیس میں 9 رکنی بنچ تھا،عدالت کے 23 جون کے حکم نامے کو پڑھوں گا۔

اٹارنی جنرل نےفل کورٹ کی تشکیل سے متعلق دلائل دینا شروع کرتے ہوئے جسٹس یحییٰ آفریدی کا نوٹ پڑھا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے نوٹ میں فل کورٹ تشکیل دینے کا کہا، جسٹس یحییٰ آفریدی کے نوٹ میں دیگر بینچ ممبران کے اعتراض کا تذکرہ کیا گیا۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ آپ 26 جون کا حکمنامہ بھی پڑھیں، وفاقی حکومت نے خودبینچ کے ایک ممبر پر اعتراض کیا، کیا اب حکومت فل کورٹ کاکہہ سکتی ہے؟ جس ہر اٹارنی جنرل نے کہا کہ استدعا ہے کہ دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔

جسٹس عائشہ ملک نے مزید کہا کہ کون فیصلہ کریگا کہ کونسے ججز دستیاب ہیں؟ آپ خود مان رہے ہیں کہ بینچ کی تشکیل کا فیصلہ چیف جسٹس کرینگے، اس حوالے سے جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے یہ بینچ اس کیس کو سن چکاہے،آپ اپنی گذارشات جاری رکھیں، کافی حد تک موجودہ بینچ یہ کیس سن چکا ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہ رہے ہیں 17 سے زیادہ ججز اس کیس کےلئے دستیاب ہوں جو کہ ممکن نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے عدالت کےہر جج کی رائے کا احترام کرتا ہوں، جسٹس یحییٰ آفریدی نے عدالت کے اعتماد کی بات کی ہے، چھٹیاں ہیں ججز دستیاب نہیں،اسلام آباد میں موجود تمام ججز کو پہلی سماعت پر ہی بینچ میں شامل ہونے کا کہا تھا۔

جسٹس عطا عمر بندیال کا کہنا تھا کہ 3ججز تو بینچ سے علیحدہ ہو چکے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ پر حکومت کے اعتراض اٹھانے پر بھی حیرت ہوئی تھی،جسٹس منصور علی شاہ نے گریس دکھاتے ہوئے خود کو بینچ سے علیحدہ کرلیا۔

دوران سماعت وزارت دفاع کےوکیل عرفان قادرکی اٹارنی جنرل کولقمہ دینےکو کوشش کی تو اٹارنی جنرل نے وکیل عرفان قادر کو بیٹھنے کی ہدایت کردی۔

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز سےمتعلق کیس میں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی فل کورٹ کی استدعا مسترد کر دی ، چیف جسٹس نے کہا کہ فی الحال فل کورٹ قائم کرنا ممکن نہیں، اس وقت چھٹیاں چل رہی ہیں،ججز دستیاب نہیں۔

خیال رہے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق درخواستوں پر وفاقی حکومت نے ایک بار پھر فل کورٹ بنانے کی استدعا کر رکھی ہے۔

وفاقی حکومت نے اپنے مؤقف میں کہا تھا کہ آرمی ایکٹ ،آفیشل سیکرٹ ایکٹ آئین سے پہلےسے موجود ہیں، آرمی ،آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اقدامات قانون کے مطابق ہیں،سپریم کورٹ براہِ راست اس کیس کو نہ سنے۔

وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ درخواستیں خارج کیں توفریقین کا ہائیکورٹ میں حق متاثرہونےکاخدشہ ہے، پنجاب الیکشن کیس میں جسٹس یحییٰ آفریدی معاملے پر رائے دے چکے ہیں، فوجی عدالتوں کے خلاف کیس فل کورٹ کو سننا چاہیے۔

حکومت نے مزید کہا تھا کہ آرمی سے مماثلت قوانین کے تحت دیگربھی بہت سےعدالتی فورمزبنائےگئے ، تمام فورمز کے کارروائی کا اپنا طریقہ کار ہے، عدالتی فورمز کے علاوہ دیگر فورمز کی موجودگی کسی طرح قانون کی خلاف ورزی نہیں۔

مؤقف میں کہا گیا تھا کہ کورٹ مارشل کا ٹرائل قانون میں دئیے گئے حقوق اور فئیر ٹرائل میں کمی نہیں کرتا، کورٹ مارشل صرف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کا مؤثر عدالتی نظام دیتا ہے ، آرمی ایکٹ اور آرمی رولز ہر طرح کے فیئر ٹرائل کا تحفظ دیتے ہیں۔

گذشتہ روز سپریم کورٹ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سےمتعلق درخواست قابل سماعت قرار دی تھی، صدر سپریم کورٹ بارعابدزبیری کی درخواست قابل سماعت قرار دی۔

Comments

اہم ترین

راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز اسلام آباد سے خارجہ اور سفارتی امور کی کوریج کرنے والے اے آر وائی نیوز کے خصوصی نمائندے ہیں

مزید خبریں