ہفتہ, مئی 25, 2024
اشتہار

وادیٔ استور جسے کشمیر خورد بھی کہا جاتا ہے

اشتہار

حیرت انگیز

پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کا ایک ضلع استور اپنے قدرتی حُسن اور سرسبز وادیوں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ یہ گلگت سے کشمیر جانے والے راستے پر واقع ایک اہم شہر ہے جسے اس کی خوب صورتی، قدرتی مناظر اور آب و ہوا کی وجہ سے ’’کشمیر خورد‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اسی استور کا ایک گاؤں پولو فیسٹیول کے لیے بھی مشہور ہے۔

استور زمانۂ قدیم سے آباد خطّہ ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ البیرونی کے دور میں اس شہر کا نام اسور تھا۔ فارسی زبان میں اس شہر کو باسارا کہا جاتا تھا۔ ایک قدیم کتبہ کی دریافت کے بعد ماہرین کو معلوم ہوا کہ کبھی استور کو سندی ویشیا بھی کہا جاتا تھا۔

مؤرخین اور جغرافیہ کے ماہرین بتاتے ہیں‌ کہ اسے متعدد ناموں سے پکارا گیا اور یہاں صدیوں کے دوران بسنے والی اقوام کی زبان اور روایات کے مطابق نام بدلتا رہا، لیکن قرین قیاس یہی معلوم ہوتا ہے کہ استور اپنے قدیم نام اسور سے ہی نکلا ہے۔ عہدِ قدیم میں یہ علاقہ راجہ گمون کے ماتحت تھا، مغلوں کے آخری دور میں وہ استور کا راجہ تھا۔ مغل حکم رانوں کے آخری ادوار میں کشمیر کے راجہ نے اس علاقہ پر تسلط قائم کر لیا اور استور کے حاکم نے اس کی امارت تسلیم کر لی۔ جب گلاب سنگھ ڈوگرا کو انگریزوں نے کشمیر فروخت کردیا اور وہ یہاں کا حاکم بنا تو اس کے ایک وزیر لکھپت نے اسکردو کی فتح کے بعد استور کا بھی محاصرہ کر لیا۔ یہاں‌ ایک قلعہ تھا جس کا محاصرہ چار ماہ تک جاری رہا۔ جب سامانِ رسد ختم ہوگیا تو استور کے محافظوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ یوں استور کے راجہ گرفتار ہوگئے۔ مؤرخین کے مطابق 1846ء سے 1893ء کے دوران استور کے باسیوں پر بے انتہا مظالم کیے گئے۔ گلاب سنگھ کے بارے میں یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ وہ ایک نہایت ظالم اور سفاک حکم راں تھا جس نے کشمیر اور قرب و جوار کے علاقوں پر حملہ کرکے قبضہ کیا اور وہاں کے عوام سے بھاری ٹیکس وصول کرنے کے لیے طرح طرح‌ کے مظالم کیے اور خوب ستم ڈھائے۔

- Advertisement -

تقسیمِ ہند کے موقع پر مہاراجہ نے بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا لیکن استور کو آزادی نصیب ہوئی۔ استور کی علاقائی زبان شینا ہے اور خواندہ افراد قومی زبان اردو بھی جانتے ہیں۔

نانگا پربت چوٹی پر جانے کے لیے استور سے ہی راستہ جاتا ہے۔ استور سے دس کلو میٹر اور نانگا پربت کے پاس راما جھیل ہے جو دس ہزار فٹ کی بلندی پر ہونے کی علاوہ ٹراؤٹ مچھلی کی بہتات کے لیے بھی مشہور ہے۔ یہاں سیّاح آتے جاتے رہتے ہیں‌ جن کے لیے یہاں پر ریسٹ ہاؤس اور ہوٹل بنایا گیا ہے۔ وادیٔ استور سیاحوں کے لیے ایک پُرکشش مقام ہے۔ وہ یہاں کے سیب، آڑو اور چیری کے باغات کے علاوہ قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور سرسبز و شاداب علاقے میں موجود پہاڑ، دریا، جھیلوں اور چراگاہوں میں وقت گزارنا پسند کرتے ہیں۔

استور کی وادیوں میں‌ جگوٹ کی وادی اس علاقہ کی دوسری بڑی وادی ہے جہاں باغات کے علاوہ گندم اور مکئی کی فصل پیدا ہوتی ہے۔ روپل کی وادی بھی بہت خوب صورت ہے۔ استور کے چھوٹے بڑے دیہات میں آباد لوگ نہایت مہمان نواز ہیں جن کی اپنی ثقافت اور رسم و رواج ہیں۔ یہاں کے مخصوص پکوان اور تہوار کے ساتھ اگر سیاحوں کو شادی بیاہ اور خوشی کی دیگر تقریبات دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے تو وہ اس سے محظوظ ہوتے ہیں۔ یورپ اور مغربی ممالک سے آنے والوں کے لیے مقامی لوگوں‌ کا رہن سہن، ان کا اوڑھنا بچھونا اور یہاں‌ کی روایتی چیزیں دل چسپی کا باعث بنتی ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں