اتوار, جون 29, 2025
ہوم بلاگ صفحہ 26968

سمندر کنارے پیاسا گاؤں اور غربت کا عفریت

0

دنیا کے باشعور افراد کا ماننا ہے کہ دنیا کی ترقی کے لیے تمام آبادی کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ دنیا کی نصف آبادی تو گھر بیٹھے، اور پھر ہم یہ توقع بھی کریں کہ دنیا جلد ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گی۔ دراصل یہاں ’نصف آبادی‘ خواتین کی طرف اشارہ ہے جو نصف اب سے کچھ سال پہلے تک تھیں، اب ان کی تعداد مردوں سے دگنی ہوچکی ہے۔

اکیسویں صدی کے دور میں اب یہ محاورہ پرانا ہوچکا ہے، ’ایک کمانے والا اور دس کھانے والے‘۔ جدید دور میں وہی گھرانہ یا قوم ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے جس میں کم از کم 8 ’کمانے والے‘ موجود ہیں، اور خواتین بھی اس میں شامل ہیں۔

حمیدہ خاتون بھی اس بات پر یقین رکھتی ہیں مگر ان کی کم علمی ان کے پیروں کی زنجیر ہے۔

حمیدہ خاتون سومار گوٹھ کی رہائشی ہیں جو کیماڑی سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک ساحلی گاؤں ہے۔ سمندر کنارے واقع، 83 گھروں پر مشتمل اس گاؤں کے مردوں کا پیشہ تو مچھلی پکڑنا ہے البتہ خواتین صرف گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی ہیں اور گاؤں کی معیشت میں ان کا کوئی کردار نہیں۔

حمیدہ بی بی اور ان کی رشتہ دار خاتون زیتون

گاؤں دیہاتوں میں عموماً خواتین مردوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتی ہیں۔ کچھ دیہاتوں میں پانی کی سہولت نہ ہونے باعث وہ میلوں دور پیدل چل کر جاتی ہیں اور پانی بھر کر لاتی ہیں۔ لیکن سومار گوٹھ ان تمام دیہاتوں سے نسبتاً ’جدید‘ گاؤں ہے۔ یہاں باتھ روم بھی ہیں، اور پائپوں سے متصل نلکے بھی، جن میں ہفتے میں چند دن پانی آہی جاتا ہے۔ اس گاؤں کا اصل مسئلہ غربت ہے۔

کبھی یہاں آباد گاؤں والے بہت خوشحال ہوا کرتے تھے۔ سمندر میں مچھلیوں کی بہتات ہوا کرتی تھی۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ بہت کچھ تبدیل ہونے لگا۔ شہری آبادی نے جہاں سمندروں کو آلودہ کر کے لوگوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال دیا، وہیں سمندری حیات بھی اس سے محفوظ نہ رہی۔ فیکٹریوں سے نکلنے والے زہریلے فضلے نے کمزور سمندری حیات کا تو وجود ختم کردیا، جو ذرا سخت جان تھیں، وہ یہ وار سہہ گئیں لیکن اس قابل نہ رہیں کہ کسی انسان کی خوارک بن سکتیں۔

حمیدہ خاتون کے مطابق جب حالات بہتر تھے تو ’مندی‘ کے دن بھی آسانی سے گزر جاتے تھے۔

کشتیاں گاؤں والوں کا واحد ذریعہ روزگار ہیں

یہ ’مندی‘ دراصل ان 4 مہینوں میں آتی ہے جن دنوں سمندر کی لہریں بلند ہوتی ہیں اور مچھیرے سمندر میں نہیں جا پاتے۔ مچھیروں کی کشتیاں کمزور ہیں اور سمندر کی تیز، چیختی چنگھاڑتی لہروں کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ چنانچہ یہ 4 مہینے مچھیرے تقریباً گھر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس دوران وہ اپنے جالوں اور کشتیوں کی مرمت کرتے ہیں۔

خواتین معاشی عمل کا حصہ کیسے؟

حمیدہ خاتون بتاتی ہیں کہ جب حالات اچھے تھے تب تو تصور ہی نہیں تھا کہ عورتیں کچھ کمانے کی کوشش کریں۔ لیکن اب حالات بدل گئے ہیں اور مرد بھی مجبور ہوگئے ہیں کہ وہ خواتین کو باہر جانے کی اجازت دیں۔

لیکن خواتین کے پاس نہ ہی تو تعلیم ہے، نہ کوئی ہنر۔ کچھ خواتین نے شہروں میں جا کر قسمت آزمائی کی تو انہیں گھروں میں صفائی کرنے کا کام مل گیا۔ لیکن شہر میں رہائش، کھانا پینا اور ہفتے میں ایک بار گاؤں آنے جانے کے اخراجات اتنے تھے کہ وہ اپنی تنخواہ سے گھر والوں کو کچھ نہ دے پاتیں یوں انہوں نے واپس گاؤں آنے میں ہی عافیت جانی۔

حمیدہ خاتون کی ایک اور رشتہ دار نوجوان خاتون زیتون نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے بتایا کہ جب گاؤں میں پولیو مہم شروع ہوتی ہے تو انتظامیہ کو خواتین رضا کاروں کی تلاش ہوتی ہے۔ تب وہ اس موقع کو حاصل کرتی ہیں اور گھر گھر جا کر پولیو پلانے کا کام سر انجام دیتی ہیں۔ 3 یا 4 دن تک جاری اس پولیو مہم میں حصہ لینے کے انہیں 2 ہزار روپے ملتے ہیں۔

ہر گاؤں کی طرح یہاں بھی بچے وافر تعداد میں تھے۔ میں نے سوال کیا کہ، جب لوگوں کو اپنی غربت کا احساس ہے، اور وہ اسے ختم کرنا چاہتے ہیں، تو وہ اتنی تعداد میں بچے کیوں پیدا کرتے ہیں؟

میرا سوال سن کر حمیدہ بی بی اور زیتون ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگیں۔ شاید انہوں نے اس پہلو پر سوچا ہی نہیں تھا۔ بعد میں حمیدہ بی بی نے دھیمی آواز میں کہا، ’کیا کریں مرد سنتے ہی نہیں ہیں‘۔

حمیدہ بی بی کا شوہر شکار کے دوران کشتی میں گر پڑا تھا جس کی وجہ سے اسے کمر میں شدید چوٹ آئی۔ اب وہ کوئی کام کرنے سے محروم ہے اور پچھلے ایک سال سے گھر میں ہے۔ حمیدہ بی بی نے بعد ازاں درخت کی چھاؤں میں بیٹھے ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا، ’وہ میرا شوہر ہے۔ ایک سال سے گھر پر پڑا ہے۔ بچے پیدا کرنے کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں ہے‘۔ یہ کہہ کر وہ ڈوپٹے کے پلو میں منہ چھپا کر ہنسنے لگی۔

گاؤں کے بچے گرین کریسنٹ نامی تنظیم کی جانب سے قائم کردہ ایک اسکول میں پڑھنے جاتے ہیں۔ اسکول میں صرف 50 یا 100 روپے (پڑھنے والے کی مالی استعداد کے مطابق) فیس وصول کی جاتی ہے۔ دو کمروں پر مشتمل صاف ستھرا اسکول حقیقی معنوں میں گاؤں کے بچوں کو علم کے زیور سے آراستہ کر رہا ہے۔

گاؤں میں واقع مڈل اسکول

لیکن یہ اسکول صرف مڈل تک ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کوئی اور تعلیمی ادارہ نہیں۔ گاؤں والے اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ بچوں کو پڑھنے کے لیے کہیں اور بھیج سکیں، یوں بچے تعلیم حاصل کرنے اور ان کے والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ مقام تک پہنچانے کی حسرت دل میں دبائے بیٹھے ہیں۔

حمیدہ خاتون نے اپنی بیٹی سے بھی ملوایا۔ ’اس نے اس سال اسکول میں سب سے زیادہ نمبر لیے ہیں‘۔ حمیدہ بی بی نے فخر سے بتایا۔

ان کے 3 بیٹے اور 3 بیٹیاں ہیں اور حمیدہ بی بی کے مطابق سب ہی کو پڑھنے کا بے حد شوق ہے۔

مسائل کیا ہیں؟

سمندر کنارے واقع اس گاؤں میں پینے کی پانی کی شدید قلت ہے۔ گاؤں میں نلکے تو موجود ہیں لیکن ان میں پانی نہیں۔ یہاں ایک آر او پلانٹ لگایا گیا ہے اور گاؤں والے اس کا پانی خرید کر پیتے ہیں۔

اسی طرح بجلی کا بھی مسئلہ ہے جو کم و بیش ہر پاکستانی کا مسئلہ ہے۔ گاؤں میں 18 سے 22 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، یوں اس گاؤں اور ان دیگر پسماندہ دیہاتوں میں کوئی فرق نہیں رہتا جہاں سورج ڈھلتے ہی اندھیرے کا راج ہوتا ہے۔

جس وقت ہم وہاں گئے ہمیں ماڑی پور روڈ سے آنے کے بجائے دوسرے متبادل اور لمبے راستے سے آنا پڑا کیونکہ ماڑی پور روڈ پر مختلف دیہاتوں کے لوگ بجلی کی بندش کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے اور سڑک بند تھی۔

گاؤں میں بجلی کے تار تو ہیں مگر بجلی نہیں

میں نے اس سے قبل جتنے بھی دیہاتوں کا دورہ کیا تھا وہاں باتھ رومز کی عدم دستیابی پائی تھی جو خواتین کے لیے ایک بڑا مسئلہ تھی۔ اس بارے میں جب دریافت کیا تو پتہ چلا کہ تقریباً ہر گھر میں ایک ٹوٹا پھوٹا باتھ روم ضرور موجود ہے جسے سن کر مجھے خوشی ہوئی۔ ان میں سے کچھ باتھ رومز ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے بنوائے گئے ہیں۔

البتہ حمیدہ بی بی نے یہ بتا کر میری خوشی ماند کردی کہ ان کے اپنے گھر کا باتھ روم اس قدر ٹوٹ چکا تھا کہ وہ قابل استعمال نہیں رہا تھا، اور اس ضرورت کے لیے وہ اپنے والد کے گھر آتی تھیں جو ان کے گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھا۔ باتھ روم کی از سر نو تعمیر میں وہی غربت حائل تھی۔

غربت کا عفریت

گاؤں کی معاشی حالت کے بارے میں بتاتے ہوئے حمیدہ بی بی نے بتایا کہ سمندری آلودگی کی وجہ سے ویسے ہی سمندر میں مچھلیاں کم ہیں۔ اوپر سے سمندر کی پابندی کے 4 ماہ مشکل ترین بن جاتے ہیں۔ بعض دفعہ گاؤں والے مچھلی پکڑنے کے لیے سمندر میں بہت آگے تک چلے جاتے جہاں تعینات کوسٹ گارڈز انہیں پکڑ لیتے ہیں۔

’ایک دفعہ انہوں نے سب کو بہت برا مارا‘۔ حمیدہ خاتون نے بتایا۔ ’انہوں نے ہنٹر کا استعمال کیا اور میرے شوہر سمیت کئی لوگوں کو مرغا بھی بنادیا۔ میرا بیٹا زخموں کی وجہ سے 2 دن تک اٹھ نہیں پایا‘۔

حمیدہ بی بی کا کہنا تھا کہ وہ لوگ جان بوجھ کر قانون شکنی نہیں کرتے۔ شدید بھوک اور غربت انہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ مچھلی کا شکار کرنے والے خود ایک عرصہ سے مچھلی کھانے کے لیے ترس رہے ہیں کیونکہ جو بھی مچھلی ہاتھ آتی ہے وہ بیچ دی جاتی ہے۔

یہاں شکار کی ہوئی مچھلی کو 20 سے 30 روپے کلو میں بیچا جاتا ہے۔ یہ خریداری ان سے ’بروکرز‘ کرتے ہیں جو شہر جا کر یہی مچھلی 300 سے 400 روپے میں بیچتے ہیں۔

وہ خود کیوں نہیں اس مچھلی کو شہر لے جا کر بیچتے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حمیدہ بی بی نے بتایا کہ شہر جانے کے لیے سواری کا بندوبست کرنا، وہاں آنا اور پھر جانا اس قدر مہنگا اور تھکن طلب کام ہے کہ جو دگنی قیمت وہ شہر جا کر کمائیں گے وہ آنے اور جانے کے کرایوں کی ہی نذر ہوجائے گی۔ ’شہر کوئی نہیں جانا چاہتا‘۔

شکار کے مہینوں میں بھی شکار پر جانا اتنا آسان نہیں۔ غربت کی وجہ سے بعض خاندان کشتی نہیں خرید پاتے۔ یوں 2 یا 3 گھر مل کر ایک کشتی خریدتے ہیں اور جو بھی مچھلی ہاتھ آتی ہے اس میں تمام گھروں کا حصہ ہوتا ہے۔

پابندی کے مہینوں میں گاؤں والے آس پاس کے دیہاتوں میں محنت مزدوری کرتے ہیں لیکن چونکہ وہ اس کے عادی نہیں لہٰذا یہ ان کے لیے ایک مشکل کام ہے۔ حمیدہ خاتون کا بیٹا بھی سائن بورڈز کی پینٹنگ کا کام کرتا ہے تاہم کم علم ہونے کی وجہ سے اسے زیادہ کام نہیں ملتا۔

شکار کے لیے استعمال ہونے والے جال

جن دنوں مرد شکار پر نہیں جاتے ان دنوں وہ گھر پر رہ کر اپنے جالوں کی مرمت بھی کرتے ہیں۔ خواتین ان کا ہاتھ بٹاتی ہیں تاہم یہ ایک مشکل اور محنت طلب کام ہے۔ جالوں کی بنائی میں رسی، ڈوری اور نائیلون استعمال ہوتا ہے جس کی وجہ سے خواتین کے ہاتھ کٹ جاتے ہیں اور ان پر چھالے پڑجاتے ہیں۔

جال تیاری کے مراحل میں

حمیدہ بی بی نے بتایا کہ کچھ مخیر حضرات کبھی کبھار راشن دینے کے لیے آتے ہیں لیکن وہ آ کر گاؤں کے وڈیرے سے ملتے ہیں اور اس کے توسط سے گاؤں والوں کو جو راشن ملتا ہے وہ سب کے لیے ناکافی ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ سومار گوٹھ قومی اسمبلی کے حلقہ 239 میں آتا ہے جو پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل کا حلقہ ہے۔ وہ 2008 کے الیکشن میں یہاں سے فتح یاب ہو کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ قادر پٹیل الیکشن کے بعد تو کیا آتے، وہ تو کبھی ووٹ مانگنے بھی یہاں نہیں آئے۔

ان کی جانب سے کچھ لوگ آ کر گاؤں کے وڈیرے سے ملتے ہیں، اور پھر وڈیرے کے حکم پر گاؤں والوں کو قادر پٹیل کو ہی ووٹ دینا پڑتا ہے۔

گاؤں والے ’کلائمٹ چینج‘ سے واقف ہیں

دنیا بھر کے ماہرین ابھی تک لوگوں کو یقین دلانے کی کوششوں میں ہیں کہ دنیا کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر کے باعث کس قدر خطرات کا شکار ہے اور ہنگامی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ دنیا کے لیے دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ ثابت ہوگا، تاہم دنیا ابھی تک شش و پنج میں مبتلا ہے۔

البتہ سومار گوٹھ کے رہنے والے ’کلائمٹ چینج‘ کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کیونکہ وہ براہ راست اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ حمیدہ بی بی نے بتایا کہ سمندر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور زمین ختم ہو رہی ہے۔

منہ زور سمندر 4 ماہ تک گاؤں والوں کو فاقے کرنے پر مجبور کردیتا ہے

گاؤں کے پہلے سرے پر واقع جامع مسجد کبھی گاؤں کے آخری سرے پر قائم تھی۔ لیکن سمندر آگے آتا گیا جس کی وجہ سے گاؤں والوں کو اپنی رہائش پیچھے منتقل کرنی پڑی یوں پورا گاؤں اب کئی فٹ پیچھے چلا گیا ہے۔ گھروں کو دور منتقل کرنے کی وجہ سیلاب بھی تھے۔ سیلاب کے وقت سب سے آگے گھروں کو زیادہ نقصان پہنچتا تھا چنانچہ گاؤں والے سمندر سے دور چلے گئے۔

تاہم گاؤں والوں کے گھر اب بھی غیر محفوظ ہیں۔ سیلاب کے دنوں میں انہیں اپنے گھر بار چھوڑ کر کہیں اور جانا پڑتا ہے جبکہ تیز بارش میں بھی وہ اپنے گھروں میں نہیں بیٹھ سکتے۔ ’کچے گھر بارش سے کیسے بچا سکتے ہیں‘۔

گاؤں میں سمندر کنارے اب صرف مسجد ہے جس کی بیرونی دیوار لہروں کے ساتھ مستقل تصادم کے باعث مکمل طور پر ٹوٹ چکی ہے۔

حمیدہ خاتون کو شہر والوں کی صنعتی ترقی سے بھی شکوہ ہے۔ ’یہ اپنی فیکٹریوں سے زہر والا پانی چھوڑ دیتے ہیں جس سے مچھلیاں مرجاتی ہیں، جو زندہ ہوتی ہیں وہ بیمار ہوتی ہیں، ان کو ہم کھا نہیں سکتے‘۔

مداوا کیا ہے؟

گاؤں میں سرگرم عمل ایک فلاحی تنظیم ’کاریتاس‘ حقیقی معنوں میں گاؤں کے لوگوں کا سہارا ہے۔ بقول حمیدہ بی بی کے مذکورہ تنظیم کے علاوہ انہیں کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ ’ادھر نثار مورائی آیا، سنیعہ ناز (رکن سندھ اسمبلی) آئی، آکر دلاسے دیے، کیا کچھ بھی نہیں‘۔

جب میں نے انہیں بتایا کہ فشرمین کو آپریٹو سوسائٹی کے سابق چیئرمین نثار مورائی آج کل جیل میں ہیں تو حمیدہ بی بی کی آنکھوں میں حیرت امڈ آئی، ’نثار مورائی کو پکڑ لیا؟ چلو اچھا ہی ہوا‘۔

تنظیم کے کوآرڈینیٹر منشا نور کے مطابق خواتین کو صرف، شیمپو اور بلیچ بنانے کی ٹریننگ دی گئی ہے تاکہ وہ گاؤں کی معیشت میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ مچھلی کے جال بھی اکثر گھروں میں کاریتاس ہی کے فراہم کردہ ہیں۔ ایک جال مشترکہ طور پر 2 یا 3 گھروں کی ملکیت ہوتا ہے۔

گاؤں میں سرگرم عمل تنظیم ’کاریتاس‘ کے کوآرڈینیٹر منشا نور

انہوں نے مقامی آبادی کو مون سون کے حوالے سے بھی آگہی دی ہے جبکہ انفارمیشن شیئرنگ کا ایک سسٹم بھی قائم کیا گیا تاکہ سیلاب آنے کی صورت میں لوگ پہلے سے تیار رہیں۔

پانی کے مسئلے کے حل کے لیے مستقبل قریب میں یہ پانی ذخیرہ کرنے کے ٹینکس بنوانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ ہینڈ پمپس اس لیے کارآمد نہیں کیونکہ زیر زمین تمام پانی سمندر کی وجہ سے نمکین ہے۔

حمیدہ بی بی کی رشتہ دار خاتون زیتون نے مجھے بتایا کہ اسے سلائی کڑھائی کا شوق ہے اور اپنے اس شوق سے وہ پیسہ بھی کمانا چاہتی ہے۔ ’ہم نے کاریتاس والوں سے کہا ہے کہ وہ ہمیں سلائی کا کام بھی سکھائیں‘۔

خواتین کیسے گزارا کرتی ہیں؟

اس سفر کا حاصل سفر ثمینہ محمد علی سے ملاقات رہی۔ ثمینہ مڈل پاس اور گاؤں کی لیڈی ہیلتھ ورکر ہیں۔ وہ یہیں کی رہائشی ہیں اور ان کی ذہانت کی بدولت حکومت کی جانب سے انہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

ثمینہ محمد علی

انہوں نے بتایا کہ وہ گاؤں والوں کی کھانسی اور بخار جیسی بیماریوں کا علاج کردیتی ہیں جبکہ پولیو مہم کے دوران وہ گھر گھر جا کر پولیو پلانے کا کام بھی انجام دیتی ہیں۔

انہیں ادویات صوبائی محکمہ صحت کی جانب سے بھجوائی جاتی ہیں مگر اکثر اوقات اس میں تاخیر ہوجاتی ہے اور وہ خود ہی ماڑی پور جا کر اپنے پیسوں سے دوائیں خرید لاتی ہیں۔

اس سے قبل حمیدہ بی بی بتا چکی تھیں کہ گاؤں میں کوئی باقاعدہ اسپتال نہیں، اور خواتین کی زچگی کے لیے پورے گاؤں میں صرف ایک دائی موجود ہے۔ نارمل ڈلیوری گھر پر ہی ہوجاتی ہے البتہ کسی پیچیدگی کی صورت میں شہر جانا پڑتا ہے۔ قریب ترین شہر ماڑی پور ہے جہاں کا زیب النسا اسپتال ان گاؤں والوں کا سہارا ہے۔

کئی بار ایسا بھی ہوا کہ گاڑی کا بندوبست کرنے میں اتنی دیر لگی کہ اسپتال جاتے ہوئے راستے میں ہی بچے کی ولادت ہوگئی۔

اس حوالے سے ثمینہ نے بتایا کہ کئی بار حکومت کی جانب سے انہیں ٹریننگ دینے کی پیشکش ہوئی لیکن انہوں نے منع کردیا۔ ’میری ہمت نہیں ہوتی اتنا بڑا کام کرنے کی، اس لیے میں نے منع کردیا‘۔

البتہ ضرورت کے وقت ثمینہ گاؤں میں موجود دائی زرینہ کی مدد ضرور کرتی ہیں۔ ان کا گھر ایک چھوٹی سی ڈسپنسری معلوم ہوتا ہے جہاں انہوں نے ویٹ مشین بھی رکھی ہوئی ہے۔ وہ بچوں اور خواتین کا وزن کرتی ہیں اور حمل کے دوران خواتین کو مشورے بھی دیتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس خاندانی منصوبہ بندی کا سامان بھی ہے۔ کیا لوگوں کو اس کی ضرورت ہوتی بھی ہے؟ اس سوال پر انہوں نے بتایا کہ گاؤں کے کئی لوگ انہیں استعمال کرتے ہیں۔ ’لوگوں کو شعور ہے اس بارے میں‘۔

یہی نہیں سال میں اگر کوئی خصوصی مہم جیسے انسداد ڈینگی یا انسداد خسرہ مہم چلائی جاتی ہے تو گاؤں والے بھرپور تعاون کرتے ہیں۔

رخصت ہوتے وقت ثمینہ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں کسی حکومت کے محکمہ سے آئی ہوں؟ جب میں نے انہیں بتایا کہ میں اے آر وائی نیوز کی نمائندہ ہوں تو ان کی خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ انہوں نے جوش سے بتایا، ’ہم بہت شوق سے اے آر وائی دیکھتے ہیں‘۔

بعد ازاں جب ان کے گھر کی ایک خاتون نے میرے متعلق دریافت کیا تو ثمینہ نے انہیں بتایا، ’اماں یہ آے آر وائی سے آئی ہیں۔ اپنا اے آر وائی، جو ہم روز دیکھتے ہیں‘۔

غالباً گاؤں والوں کی واحد تفریح اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامے ہی تھے۔

سندھ کے بے شمار دیہاتوں کی طرح سومار گوٹھ بھی ایک محروم گاؤں ہے۔ سندھ میں لاتعداد گاؤں ایسے بھی ہیں جو بنیادی سہولتوں سے اس حد تک محروم ہیں کہ وہاں جا کر آپ خود کو پندرہویں صدی میں محسوس کرتے ہیں۔ اس بات پر یقین کرنا ذرا مشکل ہے کہ یہ گاؤں ترقی کر کے جلد جدید دنیا کے ساتھ آ کھڑا ہوگا لیکن گاؤں والوں کے دل خوش فہم کو امیدیں باقی ہیں، اور یہی ان کے جینے کا سہارا ہیں۔

ننھے عبداللہ کو کاغذی کاروائی کے بعد اس کی نانی کے حوالے کر دیا گیا

0

کراچی : عدالتی حکم پر ایدھی سینٹر میں مقیم عبداللہ کو کاغذی کاروائی کے بعد اس کی نانی کے حوالے کر دیا گیا، گزشتہ روز عدالت نے ننھے عبداللہ کو نانی کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا۔

تفصیلات کے مطابق عدالتی حکم پر ننھے عبد اللہ لینے اسکی نانی اور خالہ دستاویز لے کر ایدھی سینٹر پہنچی،جہاں عبداللہ کی سپردگی کے لیے ایدھی انتظامیہ اور عبداللہ کی نانی کے درمیان کاغذی کارروائی مکمل کی گئی، اس طرح دو ماہ پانچ دن کی مدت کے بعد عبداللہ کو اس کی نانی کے حوالے کیا گیا۔

مزید پڑھیں :  عبداللہ حوالگی کیس : عدالت کا ننھے عبداللہ کو نانی کے حوالے کرنے کا حکم

اس موقع پر ایدھی فاونڈیشن کے رہنما فیصل ایدھی نے بتایا کہ عدالت نے گزشتہ روز عبداللہ کو اس کی نانی کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا لیکن نانی کے شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزی کی تصدیق نہیں کرائی گئی، جس کے باعث عبداللہ کو اس کی نانی کے حوالے نہیں کیا گیا تھا، عبداللہ کو اس کی نانی کے ہی حوالے کرنا چاہتے تھے کیونکہ عبداللہ کی نانی نے بتایا ہے کہ عبداللہ کی خالہ رابعہ بے اولاد ہے اور وہ عبداللہ کو ایک بیٹے کی حیثیت سے کفالت کرنا چاہتی ہے جبکہ عبداللہ کو اس کے والد کے حوالے کرنے پر کچھ خدشات تھے ۔

عبداللہ کی خالہ رابعہ نے بتایا کہ وہ عبداللہ کو پا کر بہت خوشی محسوس کر رہی ہے، عبداللہ کو کسی بھی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہونے دیں گے اور اس کی کفالت بھرپور طریقے سے کی جائے گی جبکہ عبداللہ کے ماموں عمر کا کہنا تھا کہ عبداللہ کے والد جب چاہیں رابطہ کرکے عبداللہ سے ملاقات کر سکتے ہیں اس سلسلے میں انھیں عدالت نے بھی اجازت دے رکھی ہے۔

مزید پڑھیں : عبداللہ کے والد اور بھائی پہنچ گئے،ایدھی سینٹر کا بچہ دینے سے انکار

یاد رہے کہ گزشتہ روز مقامی عدالت نے ایدھی ہوم میں موجود مقتولہ حلیمہ کے بیٹے عبداللہ کو نانی کے حوالے کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ بچے کے باپ کو بیٹے سے ملاقات کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔

مزید پڑھیں : عبداللہ کیس : مرکزی ملزم رضوان سپرہائی کے قریب سے گرفتار

عدالت نے حکم دیا کہ عبداللہ کے حوالے سے کسی بھی غیر ذمہ داری اور غفلت کی اطلاعات نہیں ملنی چاہئے۔

یاد رہے کہ رواں برس مئی میں رضوان ایاز نامی شخص ایک چھوٹے بچے عبداللہ کو ایدھی سینٹر چھوڑ گیا تھا اور کہا کہ اس کو یہ بچہ دو دریا سے ملا ہے اس کے والدین گم ہوگئے ہیں جسے ایدھی فاؤنڈیشن نے مسنگ چائلڈ کے طور پر اپنے پاس رکھ لیا اور اس کے والدین کی تلاش شروع کردی۔

مزید پڑھیں :   دو دریا سے ملنے والے بچے کے حوالے سے کہانی کا نیا رخ سامنے آگیا

رضوان وہی شخص تھا، جس نے عبداللہ اورا س کی والدہ کو دہلی کالونی میں ناصر منزل میں دوسری منزل پر فلیٹ کرائے پر دلوایا ،کرائے نامہ میں بھی رضوان نے اپنا اوورسیز والا شناختی کارڈ لکھوایا جبکہ رضوان نے ایدھی سینٹر میں غلط بیانی سے کام لیا کہ بچہ اس کو دو دریا سے ملا ہے۔

ہندو گروپ کی بالی ووڈ اداکارہ ارشد وارثی کو زندہ جلانے کی دھمکی

0

ممبئی: بالی ووڈ اداکار ارشد وارثی اپنی آنیوالی فلم ’’لیجنڈز آف مائیکل مشرا‘‘ میں ایک ڈائیلاگ کی وجہ سے مشکل میں پھنس گئے ہیں، ہندو گروپ کی جانب سے بالی ووڈ اداکارہ ارشد وارثی کو زندہ جلائے جانے کی دھمکیاں دی جارہی ہے۔

arshad-post-1

بھارتی میڈیا کے مطابق ارشد وارثی نے اپنی آنیوالی فلم میں ایک ڈائیلاگ بولا کہ ’’ڈاکو والمیک سے سنت والمیک بن جائیں گے‘‘ جس پر انھیں ٹیلی فون کالز ، میسیجز اور خطوط کے ذریعہ زندہ جلانے اور جسم کے ٹکڑے کرنے کی دھکمیاں دی جارہی ہیں ۔

ہندو گروپ کا کہنا ہے کہ اس ڈائیلاگ سے ان کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں اور انھوں نے ارشد وارثی اور لیجنڈ آف مائیکل مشراکے رائٹر و ہدایتکار منیش جاء کے علاوہ فلمسلازوں کشور اروڑا اور شیرین مانتری کیدا کیخلاف ایف آئی آر درج کروادی ہے ۔

ارشد وارثی کا کہنا ہے کہ ہر کوئی والمیت کی کہانی جانتا ہے اگر مجھے پتہ ہوتا کہ اس ڈائیلاگ سے کسی کے جذبات مجروح ہونگے تو میں کبھی بھی اسے ادا نہ کرتا، میں تو خود ہمیشہ مذہبی یا دوسرے تنازعات سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔

arshad-post-2

انھوں نے بتایا کہ اس سے پہلے بھی انکو دھمکیاں مل چکی ہے، جب وہ فلم کابل ایکسپرس کی شوٹنگ کر رہے تھے، طالبان نے انھیں جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی۔

kabul

ارشد وارثی کا مزید کہنا تھا کہ آج کل کچھ بھی کہتے ہوئے ہر کوئی خیال کرتا ہے کیوںکہ بھارت مذہبی جذبات سے بھرا پڑا ہے اور کوئی بھی گروپوں اعتراض کر سکتا ہے، لیکن سنسر بورڈ نے اس فلم کو منظوری دے دی اور سنسر بورڈ فلم کے دو مناظر میں تبدیلی چاہتا تھا، ہم فلم کے ریلیز ہونے سے قبل مذکورہ کمیونٹی کو معذرت خواہ کا پیغام ارسال کرینگے۔

انھوں نے مزید کہا کہ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ فلم کی کامیابی کیلئے تنازعات کا استعمال نہیں کرنا چاہیے، فلم کی کہانی ہی اسکی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔

لاہور : بچوں کے اغواء کا معاملہ، سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں‌ بینچ تشکیل

0

لاہور : سپریم کورٹ رجسٹری میں اہم مقدمات کی سماعت کے لیے دو خصوصی بینچز تشکیل دے دیے گیے۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان انور  ظہیر جمالی کی ہدایت پر سپریم کورٹ رجسٹرا نے عدالتی روسٹر جاری کردیا، روسٹر کے مطابق یکم اگست سے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں دو بینچز تشکیل دیے گیے ہیں۔

ان بینچز پر جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل بینچ نمبر 1 آئینی اور سول مقدمات کے علاوہ بچوں کے اغواء سے متعلق کیس کی سماعت کرے گی جبکہ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ، جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بنچ نمبر دو فوجداری نوعیت کے مقدمات اور اپیلوں کی سماعت کرے گا۔

مزید پڑھیں : پنجاب کے مختلف علاقوں سے چھ ماہ میں 652 بچے اغواء سرکاری رپورٹ جاری

یاد رہے لاہور میں بچوں کے اغواء کے واقعات میں مسلسل اضافے کے معاملے پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے بینچ تشکیل دینے کا حکم دیا تھا، دو رکنی بنچ آئندہ ہفتے سے بچوں سے متعلق لیے گیے ازخود نوٹس کیس کی بھی سماعت شروع کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں : سپریم کورٹ نے بچوں کے اغواءسے متعلق پولیس رپورٹ مسترد کر دی

اس ضمن میں آئی جی پنجاب سمیت دیگر متعلقہ افراد کو نوٹس جاری کردیے گیے ہیں۔

یاد رہے پنجاب پولیس کی جانب سے بچوں کے اغواء سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ’’رواں سال کے 6 ماہ میں 652 بچے اغواء ہونے کا انکشاف کیا ہے، محکمہ پولیس کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لاہور سے گزشتہ 6 ماہ کے دوران 312 بچوں کے اغواء سے متعلق مقدمات درج کیے گیے ہیں۔

لاڑکانہ :کریکردھماکہ،1اہلکار جاں بحق،سیاسی شخصیات کی مذمت

0

لاڑکانہ : صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ میں میروخان چوک کے قریب کریکر دھماکے میں رینجرز کا 1 اہلکار جاں بحق جبکہ رینجرز کے چار اہلکاروں سمیت دو راہگیر زخمی ہوگئے.

تفصیلات کے مطابق لاڑکانہ میں میروخان چوک کے قریب کریکر دھماکے میں رینجرز کاایک اہلکار جاں بحق اور چار اہلکاروں سمیت دو راہگیرزخمی ہوگئے،دھماکے میں رینجرز ہیڈکوارٹرز کے قریب گاڑی کو نشانہ بنایاگیا.

دھماکے میں زخمی ہونے والے پانچ اہلکاروں سمیت دو راہگیروں کو چانڈکا میڈیکل اسپتال منتقل کیا گیاتھا،زخمیوں میں رینجرز کے ایک اہلکار کی حالت تشویش ناک تھی جسے آئی سی یو میں منتقل کیا گیا،لیکن دوران علاج رینجرز اہلکار جاں بحق ہوگیا.

دھماکے کے بعد سیکورٹی اداروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا تھا،ذرائع کےمطابق دو مشتبہ افراد کوحراست میں لیاگیا.

حملے میں ملوث ملزمان کو جلد گرفتار کرلیاجائے گا،ڈی جی رینجرز سندھ

نماز جنازہ میں ڈی جی رینجرز ،ڈی آئی جی،کمشنر،ایس ایس پیزسمیت بڑی تعداد میں شہریوں نے شرکت کی،نماز جنازہ کے موقع پر شہید اہلکار کے اہلخانہ غم سے نڈھال تھے.

ڈی جی رینجرز میجرجنرل بلال اکبر نے کہا کہ دہشت گردی میں کون ملوث ہے ابھی کہنا قبل از وقت ہوگا،انہوں نے کہا کہ ملزمان کو جلدگرفتار کرلیاجائےگا.

میجر جنرل بلال اکبر نے کہا کہ مجرم جہاں بھی ہوں پولیس کے ساتھ کارروائی کی جائے گی،ان کا کہنا تھا کہ صوبے بھر میں کارروائی کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومت دونوں کی حمایت حاصل ہے.

ڈی جی رینجرز سندھ کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات امن وامان کی صورت حال کو خراب کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں،انہوں نے کہا کہ شہیدوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی.

وزیراعظم نوازشریف کی لاڑکانہ حملے کی مذمت

وزیراعظم نوازشریف کی لاڑکانہ میں رینجرز پر ہونے والےحملےکی شدید مذمت کی اور حملے میں شہید ہونےوالے اہلکار کے بلند درجات کے لیے دعا کی.

وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ اللہ تعالی پسماندگان کو نقصان برداشت کرنے کا حوصلہ دے،انہوں نے حملے میں زخمی ہونےوالے اہلکاروں کی جلد صحت یابی کے لیے بھی دعا کی.

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے لاڑکانہ میں ہونے والے دھماکے کا نوٹس لے لیااور آئی جی سندھ سے رپورٹ طلب کرلی،وزیراعلیٰ سندھ نے آئی جی کو ملزمان کو فوری گرفتار کرنے کا حکم دیا.

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے لاڑکانہ دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے واقعے کو بزدلانہ کارروائی قراردے دیا.

مصری خواتین شوہروں کی پٹائی میں سرفہرست

0

قاہرہ: حال ہی میں جاری کیے جانے والے اعداد و شمار سے معلوم ہوا کہ مصری خواتین دنیا میں سب سے زیادہ ہتھ چھٹ اور اپنے شوہروں کی پٹائی کرنے کے لیے دنیا میں سرفہرست ہیں۔

یہ اعداد و شمار سرکاری طور پر جاری کیے گئے ہیں جس کے مطابق خاندانی قوانین کی عدالت نے اس بات کی تصدیق کی 28 فیصد مصری خواتین اپنے شوہروں کو پٹائی کرتی ہیں۔

خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے بیوی کی خوشی زیادہ ضروری ہے، تحقیق *

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ مصری خواتین اپنے شوہروں پر تشدد کے لیے جوتے، تیز دھار ہتھیار، بیلٹ اور سوئیاں استعمال کرتی ہیں۔ بعض خواتین اپنے شوہروں کو نشہ آور دوائیں بھی استعمال کرواتی ہیں تاکہ پٹائی کے وقت وہ مدافعت کے قابل نہ رہیں۔

اس سے قبل عالمی طور پر جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق امریکا میں 23 فیصد، برطانیہ میں 17 فیصد، اور بھارت میں 11 فیصد خواتین آزادانہ اپنے شوہروں کو تشدد کا نشانہ بناتی ہیں۔

صنفی تفریق کو للکارتی مصر کی خواتین بائیکرز *

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان اعداد و شمار کے باوجود مصری خواتین کی ایک بڑی تعداد گھریلو، جسمانی، نفسیاتی اور جنسی تشدد کا شکار ہیں جبکہ گھر سے باہر انہیں صنفی تفریق کا بھی سامنا ہے۔ ان خواتین کی شرح 47 فیصد ہے۔

مصر میں کئی ادارے خواتین کو مختلف اقسام کے تشدد سے بچانے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔

لاہور: مال روڈ پر ہوٹل سے ملنے والی طالبہ کی لاش ورثہ کے حوالے

0

لاہور: مال روڈ پر ہوٹل سے ملنے والی طالبہ کی لاش پوسٹ مارٹم کے بعد ورثہ کے حوالے کردی گئی، مکمل تفتیش سے قبل ہی پولیس نے دعوی کیا ہے کہ لڑکی نے مبینہ طور پر خودکشی کی ہے۔

تفصیلات کے مطابق لاہور مال روڈ کے ہوٹل میں طالبہ کی ہلاکت کی گتھی سلجھ نہ سکی، پولیس نے رابعہ نصیر کی لاش پوسٹ مارٹم کے بعد ورثہ کے حوالے کردی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ تحقیقات کیلئے رابعہ نصیرکا موبائل ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے متعلقہ اداروں کو لکھ دیا گیا، پستول بھی فرانزک لیبارٹری بھجوا دیا گیا جبکہ ہوٹل انتظامیہ کے بیانات بھی ریکارڈ کرلئے گئے ہیں۔

گزشتہ روز لاہور کے مصروف ترین علاقے مال روڈ کے ایک نجی ہوٹل کی لابی کے واش روم سے رابعہ نصیر نامی لڑکی کی لاش ملی، لڑکی کے بیگ سے پستول اور گولیاں بھی برآمد ہوا، سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق رابعہ ہوٹل میں اکیلی داخل ہوئی، فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ موبائل پر کسی سے بات کررہی تھی ، واش روم میں جانے کے بعد فائر کی آواز آئی۔

ہوٹل انتظامیہ نے پولیس کو اطلاع دیئے بغیر لڑکی کی لاش کو اسپتال منتقل کردیا، جس نے معاملے کو مشکوک بنادیا ہے، واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے لاش قبضہ میں لیکر مردہ خانہ منتقل کردی ۔

اطلاعات کے مطابق رابعہ نصیر باٹا پور کی رہائشی تھی اور چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی جبکہ رابعہ کوئن میری کالج کی کرکٹ ٹیم کپتان رہ چکی ہے اور آج کل کنیئرڈ کالج میں کرکٹ کی کلاس دیتی تھی ،تھانہ ریس کورس میں مقتولہ کے بھائی کی مدعیت میں نامعلوم افراد کیخلاف مقدمہ درج کرلیا گیا، پولیس تفتیش کررہی ہے کہ اتنے بڑے ہوٹل میں رابعہ اسلحہ لے کر کیسے داخل ہوئی۔

ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کے مشابہہ فنکار

0

دنیا میں ہر انسان کا ہم شکل کہیں نہ کہیں موجود ہوتا ہے۔ ایسے افراد ہمیں عام زندگی میں بھی نظر آتے ہیں۔ کچھ مشہور شخصیات بھی ایک دوسرے سے مشابہہ ہوتی ہیں۔

کچھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو شکلاً کسی مشہور شخصیت سے مشابہ ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کی چاندی ہوجاتی ہے۔ انہیں ٹی وی پر مختلف پیروڈی پروگرامز میں مدعو کرلیا جاتا ہے جبکہ لوگ دھوکے کا شکار ہو کر ان کے ساتھ تصویریں بھی کھنچوانے لگتے ہیں۔

ہالی ووڈ اور بالی ووڈ میں بھی کچھ ایسے ہی فنکار موجود ہیں جو ایک جیسے لگتے ہیں۔ الگ الگ خطوں میں پیدا ہونے کے باعث ان میں بالوں اور آنکھوں کا رنگ تو مختلف ہوتا ہے تاہم مجموعی طور پر وہ ایک دوسرے سے مشابہہ ہوتے ہیں۔

ہم نے ایسے ہی کچھ ہم شکل ہالی ووڈ اور بالی ووڈ فنکاروں کی تصویروں کو جمع کیا ہے۔

kareena-2

پیرس ہلٹن اور کرینہ کپور۔

anne-2

این ہیتھ وے اور دیا مرزا۔

hb

بریڈلے کوپر اور ریتھک روشن۔

hb-2

ہیڈن پینٹیئر اور پرینیتی چوپڑا۔

hb-3

 چارلی شین اور جیتندر۔

hb-4

مارک روفیلو اور ابھے دیول۔

hb-6

انجیلنا جولی اور ایشا گپتا۔

hb-5

ٹام ہینکس اور عامر خان۔

d2

ایرینا شائیک اور دپیکا پڈوکون۔

hb-9

ڈریو بیری مور اور پریٹی زنٹا۔

راجر کپ ٹینس: نواک جوکووچ، گیل مونفلز اور نوشکیوری نے سیمی فائنل میں جگہ بنالی

0

ٹورنٹو : عالمی نمبر ایک سربیا کے نواک جوکووچ، فرانس کے گیل مونفلز اور جاپان کی نوشکیوری نے راجر کپ ٹینس کے سیمی فائنل میں جگہ بنالی۔

ٹورنٹو میں جاری ایونٹ کے کوارٹر فائنل میں عالمی نمبر سربیا کے نواک جوکووچ نے چیک ری پبلک کے ٹوماس برڈچ کے خلاف دلچسپ مقابلے کے بعد کامیابی حاصل کی، سرب کھلاڑی نے پہلا سیٹ سات چھ اور دوسرا چھ چار سے اپنے نام کیا۔

دوسرے کوارٹر فائنل میں فرانس کے گیل مونفلز نے کینیڈا کے میلوس رونک کو یک طرفہ مقابلہ کے بعد چھ چار اور چھ چار کے اسکور سے زیر کیا، سیمی فائنل میں مونفلز کا مقابلہ جوکووچ سے ہوگا۔

ایک اور میچ میں سوئٹزرلینڈ کے اسٹینلس وورینکا نے جنوبی افریقہ کے کیون اینڈریسن کو چھ ایک اور چھ تین سے مات دے کر سیمی فائنل میں جگہ بنائی۔

جاپان کے کی نوشیکوری نے بلغاریہ کے گریگور دمیتروو کو تین سیٹ کے سنسنی خیز مقابلے کے بعد شکست دی، جاپانی کھلاڑی کی فتح کا اسکور چھ تین، تین چھ اور چھ دو رہا۔

نسلی تعصب انسانی صحت کے لیے نقصان دہ،تحقیق

0

لندن : برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلسل نسلی تعصب کا سامنا کرنے والوں کی جسمانی اور دماغی صحت دونوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے،جس سےان کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں.

تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی مانچسٹر یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق کے دوران ماہرین نے ایسے افراد کا مطالعہ کیا جنہیں ایک طویل عرصے تک نسلی تعصب کے باعث احساسِ عدم تحفظ کا سامنا رہا.

ماہرین کا کہنا تحقیق میں نسلی تعصب کے واقعات سے متعلق پانچ سالہ اعداد و شمار کا جائزہ لیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ برطانیہ میں مقیم،اقلیتی نسلوں کے وہ افراد جنہیں کسی نہ کسی صورت میں مسلسل تعصب کا سامنا رہا،ان میں نفسیاتی مسائل کی شرح ان اقلیتی افراد سے کہیں زیادہ تھی جنہیں ایسے تعصبات کا سامنا نہیں کرنا پڑا.

تحقیق میں یہ تشویش ناک پہلو بھی سامنے آیا کہ ایک بار نسلی تعصب کا سامنا ہونے پر اس کے نفسیاتی اثرات ایک طویل عرصے تک برقرار رہتے ہیں اور جسمانی صحت کو بھی متاثر کرتے ہیں.