جمعہ, جون 27, 2025
ہوم بلاگ صفحہ 8058

پی ٹی آئی اور حامیوں پر ظلم کی انتہا ختم نہیں ہورہی، عمران خان

0
عمران خان

لاہور: پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اور حامیوں پر ظلم کی انتہا ختم نہیں ہورہی ہے۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے لکھا کہ ’پرویز الٰہی کے گھر پر دوبارہ چھاپے کی شدید مذمت کرتا ہوں، اقدام کرنے والے سمجھتے ہیں کہ اس طرح پی ٹی آئی کمزور ہوگی۔

انہوں نے لکھا کہ ایک سیاسی جماعت صرف اپنا ووٹ بینک کھونے سے کمزور ہوتی ہے، پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ووٹ بینک کھو کر کمزور ہوچکی ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ خوف پیدا کرنے کی ایسی حرکتوں سے پی ٹی آئی کے لیے ہمدردی بڑھ رہی ہے۔

گزشتہ روز عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کےمسائل میرے ہٹنے سے حل ہو جاتے ہیں تو اس کیلئے تیار ہوں، پہلے بھی مذاکراتی کمیٹی بنی تھی کہتی تھی کہ اکتوبر میں الیکشن ہوں گے اب بھی مذاکرات کے لیے کمیٹی بنانے کو تیار ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ کیا ان کو نظر نہیں آرہا کہ پاکستان ہر گزرتے دن کیساتھ نیچےجا رہا ہے اکتوبر میں الیکشن ہونے سے مسائل حل ہوجائیں تو بتا دیں اگر اکتوبر میں یہ مسائل حل ہوسکتےہیں تواس کیلئےبھی تیار ہوں۔

پنجاب سے پی ٹی آئی کی مزید 2 وکٹیں گر گئیں

0

پنجاب کے شہر بہاولنگر سے پاکستان تحریک انصاف کے دو سابق ممبر صوبائی اسمبلی پارٹی کو خیرباد کہہ گئے۔

پی پی 240 سے پی ٹی آئی سابق ایم پی اے ممتاز مہاروی نے پارٹی چھوڑ دی جبکہ سابق ایم پی اے آصف موہل نے بھی پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی واقعات کی پر زور مذمت کرتے ہیں، پاک آرمی کے شہدا کی توہین پر دلی افسوس ہے، آئندہ کا لائحہ عمل اپنے ووٹرز سے مشاورت کے بعد طے کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی لیڈرشپ نے کارکنوں کو تشدد اشتعال انگیزی کیلیے تیار کیا، سانحہ 9 مئی کے ذمہ داروں کو سخت سزا دی جائے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد پرتشدد مظاہروں میں کور کمانڈر ہاؤس لاہور اور پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو نذر آتش کیا گیا۔ واقعات کے بعد اب تک متعدد پی ٹی آئی رہنما پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔

کچھ روز قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر عمران خان نے پارٹی رہنماؤں کی علیحدگی اختیار کرنے پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستان میں جبری شادیوں کے بارے میں تو سن رکھا تھا لیکن پی ٹی آئی کیلیے جبری علیحدگی کا نیا عجوبہ متعارف کروایا گیا ہے، حیران ہوں ملک سے انسانی حقوق کی تنظیمیں کہاں غائب ہوگئی ہیں۔

مودی کے فیصلے پر بھارتی اپوزیشن کا اہم اعلان

0

بھارتی حزب اختلاف کی جماعتوں نے نئی پارلیمنٹ بلڈنگ کے افتتاح کا بائیکاٹ کر دیا۔

وزیر اعظم نریندر مودی دارالحکومت نئی دہلی میں اتوار کو پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح کریں گے- اس فیصلے کی وجہ سے کم از کم 19 اپوزیشن جماعتوں نے اس تقریب کا بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔

مشترکہ بیان میں قومی اور علاقائی جماعتوں نے کہا کہ ہندوستان کے صدر دروپدی مرمو کو نئی پارلیمنٹ کا افتتاح کرنا چاہیے۔ انہوں نے مودی پر ملک کے پہلے قبائلی سربراہ کو سائیڈ لائن کرنے کا الزام لگایا ہے۔

ہندوستان کا صدر بالواسطہ طور پر منتخب، غیر جماعتی ایگزیکٹو ہے جس میں صرف رسمی اختیارات ہوتے ہیں لیکن انہیں ملک کا پہلا شہری سمجھا جاتا ہے اور وہ اعلیٰ ترین آئینی اتھارٹی ہے۔

حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ "وزیر اعظم مودی کی جانب سے صدر مرمو کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے نئی پارلیمنٹ کی عمارت کا خود افتتاح کرنے کا فیصلہ نہ صرف ایک سنگین توہین ہے بلکہ ہماری جمہوریت پر براہ راست حملہ ہے جس کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب جمہوریت کی روح پارلیمنٹ سے نکال لی گئی ہے تو ہمیں نئی عمارت کی کوئی اہمیت نظر نہیں آتی۔ ہم افتتاح کے بائیکاٹ کے اپنے اجتماعی فیصلے کا اعلان کرتے ہیں۔

کراچی، پکنک پر جانے والے میاں بیوی کی لاشیں برآمد

0

کراچی کے علاقے منگھوپیر ماہی گاڑی ندی میں پکنک منانے گئے میاں بیوی کی لاشیں برآمد کرلی گئیں۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی کے علاقے منگھوپیر ماہی گاڑی ندی میں میاں بیوی ڈوب گئے جن کی لاشیں نکال لی گئی ہیں۔

ریسکیو ذرائع کا بتانا ہے کہ میاں بیوی پکنک منانے منگھوپیر ماہی گاڑی ندی گئے تھے۔

ریسکیو ذرائع کے مطابق بیوی ڈوبی تو اس کو بچانے کے لیے شوہر بھی نہر میں کود گیا، اہلخانہ بغیر قانونی کارروائی کے لاش اپنے ہمراہ لے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ مائی کلاچی پھاٹک کے قریب سمندر میں ماں بیٹا ڈوب کر جاں بحق ہوگئے تھے، امدادی ٹیموں کے مطابق ٹرین سے بچنے کیلئے سمندر میں چھلانگ لگادی تھی۔

مائی کلاچی پھاٹک کے قریب سمندر میں ڈوبنے والے دونوں ماں بیٹا اور شیریں جناح کالونی کے رہائشی تھے۔

ریسکیو ذرائع کا بتانا تھا کہ دونوں ماں بیٹا پھاٹک کے راستے پیدل شیریں جناح کالونی جارہے تھے کہ سامنے سے آنے والی مال گاڑی کی آواز سن کر ایک طرف ہوئے اور بد حواسی میں سمندر میں چھلانگ لگا دی۔

سنیل دت: فٹ پاتھ سے فلمی دنیا کے آسمان تک

0

قیام پاکستان سے پہلے کا زمانہ بمبئی کی فلمی صنعت کے لئے ایک سنہری دور تھا۔ بڑے بڑے نامور اور کامیاب ہدایت کار، اداکار، موسیقار اور گلوکار اس دور میں انڈین فلمی صنعت میں موجود تھے۔ ہر شعبے میں دیو قامت اور انتہائی قابل قدر ہستیاں موجود تھیں۔

اس زمانے میں جو بھی فلموں میں کام کرنا چاہتا تھا، ٹکٹ کٹا کر سیدھا بمبئی کا راستہ لیتا تھا۔ ان لوگوں کے پاس نہ پیسہ ہوتا تھا، نہ سفارش اور نہ ہی تجربہ، مگر قسمت آزمائی کا شوق انہیں بمبئی لے جاتا تھا۔ ہندوستان کے مختلف حصوں سے ہزاروں نوجوان اداکار بننے کی تمنا لے کر اس شہر پہنچتے تھے۔

ان میں سے اکثر خالی ہاتھ اور خالی جیب ہوتے تھے۔ بمبئی جیسے بڑے وسیع شہر میں کسی انجانے کم عمر لڑکے کو رہنے سہنے اور کھانے پینے کے لالے پڑ جاتے تھے۔

یہی لوگ آج انڈین فلم انڈسٹری کے چاند سورج کہے جاتے ہیں جنہوں نے بے شمار چمک دار ستاروں کو روشنی دے کر صنعت کے آسمان پر جگمگا دیا۔ ( ہندوستان اور پاکستان کے بھی) اکثر بڑے ممتاز، مشہور اور معروف لوگوں کی زندگیاں ایسے ہی واقعات سے بھری ہوئی ہیں۔

آئیے آج آپ کو ایک ایسے ہی معروف اور ممتاز آدمی کی کہانی سناتے ہیں جسے بر صغیر کا بچہ بچہ جانتا ہے لیکن یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ لوگ کون ہیں؟ کہاں سے آئے تھے، اور کیسے کیسے امتحانوں اور آزمائشوں سے انہیں گزرنا پڑا۔

یہ قصہ سنیل دت کا ہے۔ سنیل دت ہندوستانی لوک سبھا کا رکن رہا، نرگس بھی لوک سبھا کی رکن رہی تھی۔ ہندوستان کی وزیراعظم اندرا گاندھی سے ان کی بہت دوستی تھی اب نرگس رہیں نہ اندرا گاندھی، سنیل دت بھی نہیں رہے۔

سنیل دت کے بارے میں علی سفیان آفاقی کا یہ مضمون اداکار کے یومِ وفات کی مناسبت سے پیش کیا جارہا ہے۔ بولی وڈ کے معروف اداکار اور کئی کام یاب فلموں کے ہیرو سنیل دت 6 جون 1929 کو جہلم میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ ان کی زندگی کا سفر 25 مئی 2005 کو تمام ہوگیا تھا۔

علی سفیان آفاقی اپنے مضمون میں‌ لکھتے ہیں، 0سنیل دت نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب وہ بمبئی پہنچے تو ان کی عمر سترہ اٹھارہ سال تھی۔ یہ انٹرویو بمبئی کی ایک فلمی صحافی لتا چندنی نے لیا تھا اور یہ سنیل دت کا آخری انٹرویو تھا۔ سنیل دت جب بمبئی پہنچے تو ان کی جیب میں پندرہ بیس روپے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بمبئی میں در بدر پھرتے رہے۔ سب سے پہلا مسئلہ تو سَر چھپانے کا تھا۔ بمبئی میں سردی تو نہیں ہوتی لیکن بارش ہوتی رہتی ہے جو فٹ پاتھوں پر سونے والوں کے لئے ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ بارش ہو جائے تو یا تو وہ سامنے کی عمارتوں کے برآمدے وغیرہ میں پناہ لیتے ہیں یا پھر فٹ پاتھوں پر ہی بھیگتے رہتے ہیں۔

سوال: تو پھر آپ نے کیا کیا۔ کہاں رہے؟
جواب: رہنا کیا تھا۔ فٹ پاتھوں پر راتیں گزارتا رہا۔ کبھی یہاں کبھی وہاں۔ دن کے وقت فلم اسٹوڈیوز کے چکر لگاتا رہا مگر اندر داخل ہونے کا موقع نہ مل سکا۔ آخر مجھے کالا گھوڑا کے علاقے میں ایک عمارت میں ایک کمرا مل گیا مگر یہ کمرا تنہا میرا نہیں تھا۔ اس ایک کمرے میں آٹھ افراد رہتے تھے جن میں درزی، نائی ہر قسم کے لوگ رات گزارنے کے لئے رہتے تھے۔

میں نے اپنے گھر والوں سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے ہر مہینے کچھ روپیہ بھیجنا شروع کر دیا۔ میں نے جے ہند کالج میں داخلہ لے لیا تاکہ کم از کم بی اے تو کرلوں۔ میرا ہمیشہ عقیدہ رہا ہے کہ آپ خواہ ہندو ہوں، مسلمان، سکھ، عیسائی کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں مگر ایک دوسرے سے محبت کریں۔ ہر مذہب محبت اور پیار کرنا سکھاتا ہے۔ لڑائی جھگڑا اور نفرت کرنا نہیں۔ میں کالج میں پڑھنے کے ساتھ ہی بمبئی ٹرانسپورٹ کمپنی میں بھی کام کرتا تھا۔ میں اپنا بوجھ خود اٹھانا چاہتا تھا اور گھر والوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتا تھا۔

ان دنوں بمبئی میں بہت سخت گرمی پڑ رہی تھی۔ اتنی شدید گرمی میں ایک ہی کمرے میں آٹھ آدمی کیسے سو سکتے تھے۔ گرمی کی وجہ سے ہمارا دم گھٹنے لگتا تھا تو ہم رات کو سونے کے لئے فٹ پاتھ پر چلے جاتے تھے۔ یہ فٹ پاتھ ایک ایرانی ہوٹل کے سامنے تھا۔ ایرانی ہوٹل صبح ساڑھے پانچ بجے کھلتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں ساڑھے پانچ بجے بیدار ہوجانا چاہیے تھا۔ ہوٹل کھلتے ہی ہماری آنکھ بھی کھل جاتی تھی۔ ایرانی ہوٹل کا مالک ہمیں دیکھ کر مسکراتا اور چائے بنانے میں مصروف ہوجاتا ۔ ہم سب اٹھ کر اس کے چھوٹے سے ریستوران میں چلے جاتے اور گرم گرم چائے کی ایک پیالی پیتے۔ اس طرح ہم ایرانی ہوٹل کے مالک کے سب سے پہلے گاہک ہوا کرتے تھے۔ وہ ہم سے بہت محبت سے پیش آتا تھا اور اکثر ہماری حوصلہ افزائی کے لئے کہا کرتا تھا کہ فکر نہ کرو، اللہ نے چاہا تو تم کسی دن بڑے آدمی بن جاؤ گے۔ دیکھو جب بڑے آدمی بن جاؤ تو مجھے بھول نہ جانا، کبھی کبھی ایرانی چائے پینے اور مجھ سے ملنے کے لئے آجایا کرنا۔

دوسروں کا علم تو نہیں مگر میں کبھی کبھی جنوبی بمبئی میں اس سے ملنے اور ایک کپ ایرانی چائے پینے کے لئے چلا جاتا تھا۔ وہ مجھ سے مل کر بہت خوش ہوتا تھا۔ میری ترقی پر وہ بہت خوش تھا۔

ایرانی چائے پینے کے بعد میں اپنی صبح کی کلاس کے لئے کالج چلا جاتا تھا۔ وہ بھی خوب دن تھے، اب یاد کرتا ہوں تو بہت لطف آتا ہے۔

ان دنوں میرے پاس زیادہ پیسے نہیں ہوتے تھے، اس لئے میں کم سے کم خرچ کرتا تھا اور کالج جانے کے لئے بھی سب سے سستا ٹکٹ خریدا کرتا تھا۔ بعض اوقات تو میں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے اسٹاپ سے پہلے ہی اتر کر پیدل کالج چلا جاتا تھا۔

اس وقت ہماری جیب صرف ایرانی کیفے میں کھانے پینے کی ہی اجازت دیتی تھی۔ آج کے نوجوان فائیو اسٹار ہوٹلوں میں جاکر لطف اٹھاتے ہیں مگر ان دنوں ایرانی کیفے ہی ہمارے لئے کھانے پینے اور گپ شپ کرنے کی بہترین جگہ تھی۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ ویٹر ایک کے اوپر ایک بارہ چائے کی پیالیاں رکھ کر کیسے گاہکوں کو تقسیم کرتا تھا۔ ایسا تو کوئی سرکس کا جوکر ہی کرسکتا ہے۔ اس کا یہ تماشا بار بار دیکھنے کے لئے بار بار اس سے چائے منگواتا تھا حالانکہ بجٹ اجازت نہیں دیتا تھا۔

ایرانی ہوٹل اس زمانے میں مجھ ایسے جدوجہد کرنے والے خالی جیب لوگوں کے لئے بہت بڑا سہارا ہوتے تھے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگربمبئی میں ایرانی ہوٹل نہ ہوتے تو میرے جیسے ہزاروں لاکھوں لوگ تو مر ہی جاتے۔

میں پچاس سال کے بعد اپنا آبائی گاؤں دیکھنے گیا جو کہ اب پاکستان میں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے مجھے مدعو کیا تھا۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ میں اپنا آبائی گاؤں دیکھنا چاہتا ہوں۔ وہ بہت مہربان اور شفیق ہیں۔انہوں نے میرے لئے تمام انتظامات کرا دیے۔ میرے گاؤں کا نام خورد ہے ۔ یہ جہلم شہر سے چودہ میل کے فاصلے پر ہے۔ میرا گاؤں دریائے جہلم کے کنارے پر ہے اور یہ بہت خوبصورت جگہ ہے۔ گاؤں سے نکلتے ہی جہلم کے پانی کا بہتا ہوا نظارہ قابل دید ہے۔

میرے گاؤں میں بہت جوش و خروش اور محبت ملی۔ وہ سب لڑکے جو میرے ساتھ پڑھا کرتے تھے مجھ سے ملنے کے لئے آئے اور ہم نے پرانی یادیں تازہ کیں۔ میں ان عورتوں سے بھی ملا جنہیں میں نے دس بارہ سال کی بچیاں دیکھا تھا مگر اب وہ ساٹھ پینسٹھ سال کی بوڑھی عورتیں ہوچکی تھیں۔ اب میرے ساتھ کھیلنے والی بچیاں نانی دادی بن چکی تھیں۔ انہوں نے بھی بچپن کے بہت سے دلچسپ واقعات اور شرارتوں کی یادیں تازہ کیں۔

پاکستان سے جانے کے بعد میں کبھی لاہور نہیں آیا۔ کراچی تو آنا ہوا تھا۔ کراچی میں مجھے بے نظیر بھٹو کی شادی میں مدعو کیا گیا تھا۔ میری بیوی نرگس میرا گاؤں دیکھنا چاہتی تھیں۔ میں بھی اپنا گاؤں دیکھنا چاہتا تھا۔ پرانے دوستوں سے مل کر پرانی یادیں تازہ کرنا چاہتا تھا۔ وہ جاننا چاہتی تھیں کہ میں کون سے اسکول میں پڑھتا تھا اور اسکول کس طرح جایا کرتا تھا۔

میں ڈی اے وی اسکول میں پڑھتا تھا، اور چھٹی جماعت تک گھوڑے پر بیٹھ کر اسکول جاتا تھا، میرا اسکول اٹھ میل دور تھا۔ اسکول جانے کے لئے کوئی دوسرا ذریعہ نہ تھا۔ میرے پتا جی زمیندار تھے۔ ہمارے گھر میں بہت سے گھوڑے تھے۔ مجھے اسکول لے جانے والا گھوڑا سب سے الگ رکھا جاتا تھا۔

سنیل دت نے اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی محنت مزدوری اور جدو جہد کے زمانے میں جاری رکھا تھا جو ایک دانش مندانہ فیصلہ تھا۔ بی اے کرنے کے بعد انہوں نے بہت سے چھوٹے موٹے کام کیے، فٹ پاتھوں پر سوئے لیکن ہمت نہیں ہاری۔

آپ کو یاد ہوگا کہ ایک زمانے میں "ریڈیو سیلون” سے فلمی گانوں کا ایک پروگرام ہر روز پیش کیا جاتا تھا، جسے پاکستان اور ہندوستان میں موسیقی کے شوقین باقاعدگی سے سنا کرتے تھے۔ سیلون کا نام بعد میں سری لنکا ہوگیا۔ یہ دراصل ایک جزیرہ ہے جنوبی ہندوستان میں تامل ناڈو کے ساحل سے صرف 25 میل کے فاصلے پر۔ انگریزوں کی حکومت کے زمانے میں سارا ہندوستان ایک تھا اور سلطنت برطانیہ کے زمانے میں سیلون کو ہندوستان ہی کا حصہ سمجھا جاتا تھا، اب یہ سری لنکا ہوگیا۔

ریڈیو سیلون کو اپنا پروگرام پیش کرنے کے لئے ایک موزوں شخص کی ضرورت تھی جو بہترین نغمات پروڈدیوسرز سے حاصل بھی کرسکے۔ سنیل دت نے بھی اس کے لئے درخواست دے دی۔ صورت شکل اچھی تھی اور پنجابی ہونے کے باوجود ان کا اردو تلفظ و لب و لہجہ بہت اچھا تھا۔ اس طرح انہیں منتخب کر لیا گیا اور کافی عرصہ تک وہ ریڈیو سیلون سے گیتوں کی مالا پیش کرتے رہے۔ یہ فلم سازوں کے لئے سستی پبلسٹی تھی، اس لئے بھارتی فلم سازوں نے اس سے بہت فائدہ اٹھایا اور کشمیر سے راس کماری تک ان کے فلمی نغمات گونجنے لگے۔ جب نخشب صاحب پاکستان آئے اور انہوں نے فلم میخانہ بنائی تو اس فلم کے گانے ریڈیو سیلون سے پیش کیے گئے جس کی وجہ سے سننے والے بے چینی سے فلم کی نمائش کا انتظار کرتے رہے لیکن جب فلم ریلیز ہوئی تو بری طرح فلاپ ہوگئی حالانہ ناشاد صاحب نے اس فلم کے نغموں کی بہت اچھی دھنیں بنائی تھیں۔

ماخوذ از ماہنامہ ‘سرگزشت’ (پاکستان)

’جب تک تمام ذمہ داروں کو پکڑ نہ لیں کوئی اور کام نہیں کریں گے‘

0

لاہور: نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کا کہنا ہے کہ جب تک 9 مئی واقعات کے تمام ذمہ داروں کو پکڑ نہ لیں کوئی اور کام نہیں کریں گے۔

نگراں وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے کہا کہ 9 مئی کے ذمہ دار آخری شرپسند کی گرفتاری تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، پاک فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ مل کر شرپسندوں کو ٹریس کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پوری قوم آج شہدا وطن کے ساتھ اپنی بے مثال محبت کا اظہار کر رہی ہے، شہدا کی قربانیاں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں، 9 مئی کے پرتشدد واقعات کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، واقعات پاکستان کی تاریخ پر سیاہ داغ ہیں، شہدا کی بے مثال قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ کیپٹن اسفند یار شہید چوک یادگار کو نقصان پہنچانے والوں کو پکڑ کر دم لیں گے، فیصل آباد میں کیپٹن اسفند یار شہید چوک کو پاکستان کا یادگار چوک بنائیں گے، راولپنڈی میں شہدا کے یادگاری بورڈ تباہ کرنے والے نہیں بچ سکیں، جنہوں نے شہدا کی توہین کی وہ بدترین سزا کے مستحق ہیں۔

محسن نقوی نے کہا کہ جو قومیں اپنے شہدا کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں وہ ہی آگے بڑھتی ہیں، شہدا کی قدر نہ کرنے والی قومیں اقوام عالم میں سر بلند نہیں ہو سکتیں، پولیس شہدا کی فلاح و بہبود کیلیے کئی سال سے زیر التوا کیسوں کو نمٹایا ہے۔

ان خیالات کا اظہار نگراں وزیر اعلیٰ نے یوم تکریم شہدا کے موقع پر سینٹرل پولیس آفس آمد پر کیا۔ اس موقع پر انہوں نے پولیس شہدا کی یادگار پر پھول رکھے جبکہ پولیس کے چاک و چوبند دستے نے شہدا کو سلامی پیش کی۔ محسن نقوی نے پولیس شہدا کے خاندانوں سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہارکیا۔

پی ٹی آئی،حکومت مذاکرات میں عمران خان رکاوٹ تھے، بلاول بھٹو

0

اسلام آباد: وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے الزام عائد کیا ہے کہ عمران خان کی وجہ سے مذاکرات میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔

تفصیلات کے مطابق پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ نو مئی سے قبل پیپلزپارٹی مذاکرات کی سب سے بڑی حامی تھی، مذاکرات جاری تھے لیکن عمران کےرویئے کی وجہ سےخرابی ہوئی، اب ہمارے پاس بحیثیت سیاسی جماعت کوئی آپشن نہیں کہ بات چیت کریں۔

وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا کہ ہمارے اور پی ٹی آئی وفود نے انتخابات کی تاریخ پرمذاکرات کرلئےتھے، عمران خان کی وجہ سے مذاکرات میں رکاوٹ پیدا ہوئی اور نومئی کے بعد انہوں نے تمام ریڈ لائنز کراس کر دی ہیں، ہم کچھ نہیں کرسکتے۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ذاتی حیثیت میں کسی جماعت پر پابندی کی مخالفت کرتا ہوں،لیکن کسی بھی سیاسی جماعت کو سوچنا ہوگا کہ اگرکوئی سیاسی جماعت دہشت گرد تنظیم بنناچاہ رہی ہوتو کیاکیاجائے؟ میں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ سیاسی جماعت بنے۔

میڈیا سے گفتگو میں چیئرمین پیپلزپارٹی وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے واضح کیا کہ میڈیا میں ملٹری کورٹس کے حوالے سےغلط فہمی ہے، حکومت آئینی ترمیم سے کوئی نئی ملٹری کورٹس قائم نہیں کررہی، آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ پہلےسے موجود ہے، جس قانون کی خلاف ورزی ہوئی اسی قانون کےمطابق کارروائی ہوگی۔

بلاول بھٹو نے ایران پاکستان تعلقات سے متعلق کہا کہ ایک سال میں جن ممالک سےتعلقات بہترہوئے ان میں ایران بھی شامل ہے، دونوں ممالک نے سیکیورٹی مسائل کے مشترکہ حل پرزور دیا، ایران پاکستان کے درمیان بارڈرمارکیٹ اوربجلی ترسیل کاافتتاح ہوا جو کہ خوش آئند ہے۔

وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ بھارت سے دو طرفہ تعلقات بحالی پانچ اگست اقدام کی واپسی کےبعدممکن ہے، بھارت سے بات کرنی ہےتو چند معاملات پر فیصلہ کرنا ہو گا،بھارت یکطرفہ طورپربین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کررہا ہے،ہمارے جو بھی اندرونی معاملات ہوں ہم کشمیر پر متفق ہیں۔

کرن حق نے ’روحی‘ سے متعلق کیا کہا؟

0
کرن حق

اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامہ سیریل میرے ہی رہنا میں اداکاری کے جوہر دکھانے والی اداکارہ کرن حق نے اپنے کردار روحی سے متعلق بتادیا۔

ڈرامہ سیریل ’میرے ہی رہنا‘ میں شہروز سبزواری (اسد)، کرن حق (روحی)، سید جبران (جنید)، اریج محی الدین (بینا)، عروبا مرزا (انو)، بابر علی (ابی)، فیضان شیخ، سبحان اعوان (عمر)، ندا ممتاز، پروین اکبر ودیگر اداکاری کے جوہر دکھا رہے ہیں۔

ڈرامے کی ہدایت کاری کے فرائض ذیشان علی زیدی نے انجام دیے ہیں جبکہ اس کی کہانی میمونہ عزیز نے لکھی ہے۔

’میرے ہی رہنا‘ کی کہانی دو بہنوں روحی اور بینا کے گرد گھومتی ہے جس میں دکھایا گیا ہے ایک ہی گھر میں شادی ہونے کے بعد دونوں بہنوں کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کرن حق نے روحی کے کردار سے متعلق کہا کہ ’میں روحی سے مطابقت رکھتی ہوں اور جو لڑکیاں ان مسائل سے گزر رہی ہیں وہ بھی روحی سے مطابقت رکھتی ہیں اور جو ڈرامے کی کہانی ہے اس طرح کے مسائل ہر گھر میں ہوتے ہیں۔‘

واضح رہے کہ میرے ہی رہنا میں دکھایا گیا ہے کہ روحی کو ساس اور نند کی جانب سے تنگ کیا جاتا ہے جبکہ نند کی حرکتوں سے روحی کے شوہر اور بھائی بھی ناواقف ہیں۔

اب روحی اپنی بہن کی شادی بھی بڑے دیور سے کرنے جارہی ہیں تو ان کی زندگی میں مزید مسائل جنم لینے والے ہیں۔

جوہری ہتھیار، روس نے معاہدے پر دستخط کر دیے

0

روس نے بیلاروس میں ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کی تعیناتی کے معاہدے پر دستخط کر دیئے۔

ماسکو اور منسک نے بیلاروسی سرزمین پر روسی ٹیکٹیکل نیوکلیئر میزائلوں کی تعیناتی کو باقاعدہ بنانے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

روس نے جمعرات کو کہا کہ یہ قدم مغرب کے ساتھ بڑھتے ہوئے تناؤ کی وجہ سے اٹھایا گیا ہے۔

روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی TASS نے روسی وزیر دفاع سرگئی شوئیگو کے حوالے سے بتایا کہ "روس اور بیلاروس کی مغربی سرحدوں پر خطرات میں انتہائی تیزی سے اضافے کے تناظر میں، فوجی جوہری میدان میں جوابی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔”

میزائلوں کی تعیناتی کا اعلان سب سے پہلے صدر ولادیمیر پوتن نے مارچ میں کیا تھا۔

گزشتہ سال یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد سے پوٹن نے بارہا کہا ہے کہ روس اپنی "علاقائی سالمیت” کے دفاع کے لیے ضرورت پڑنے پر جوہری ہتھیار استعمال کرنے کے لیے تیار ہے۔

’کسی کو میرے دکھ درد کا احساس نہیں‘

0
بے بی باجی

اے آر وائی ڈیجیٹل کے نئے ڈرامہ سیریل ’بے بی باجی‘ میں جویریہ سعود (عذرا) کی اداکاری نے مداحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی۔

ڈرامہ سیریل ’بے بی باجی‘ میں سینئر اداکارہ ثمینہ احمد (بے بی باجی)، سعود قاسمی، جویریہ سعود (عذرا)، حسن احمد، سنیتا مارشل (اسما)، جنید جمشید نیازی (واصف)، سیدہ طوبیٰ انور، فضل حسین، عینا آصف ودیگر اداکاری کے جوہر دکھا رہے ہیں۔

ڈرامے کی کہانی منصور احمد خان نے لکھی ہے جبکہ اس کی ہدایت کاری کے فرائض تحسین خان نے انجام دیے ہیں۔

گزشتہ قسط میں دکھایا گیا کہ عذرا بہانہ بنا کر اپنی چچی کے گھر چلی جاتی ہیں اور جھوٹ بولتی ہیں کہ ان کی چچی کا آخری وقت چل رہا ہے۔

عذرا جب واپس آتی ہیں تو کہتی ہیں کہ ’چچی نہیں بچنے کی، ڈاکٹروں نے بھی ہاتھ اٹھا لیے ہیں بس آج خبر آئی کہ کل آئی۔‘

ساس پوچھتی ہیں کہ کیوں کیا ہوا تمہاری چچی کو کل تک تو ٹھیک تھیں۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’ارے امی آج کل جو ہورہا ہے اچانک ہی تو ہورہا ہے دیکھا نہیں کیسی کیسی وبائیں پھوٹ پڑی ہیں ویسے بھی چچی اچانک بیمار نہیں ہوئی ہیں کافی دن سے بیمار تھیں چچا مجھے ہی نہیں بتا رہے تھے کہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوجاؤں گی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میری عادت ہے ہر ایک کی دکھ بیماری کو دل پر لگا لیتی ہوں اور چچی کو تو پیار بھی بہت ہے مجھ سے وہ میرا ہاتھ پکڑے بیٹھی رہیں جانے نہیں دے رہی تھیں۔‘

ساس عذرا کو سمجھاتی ہیں کہ ’اسما کو دیکھو اس نے امی کے گھر جانے سے پہلے مجھ سے اجازت لی، اس گھر میں مزید دو بہوئیں اور آنی ہیں اگر وہ تمہارے طور طریقے دیکھیں گی تو ان پر کیا اثر پڑے گا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ یہ اسما نے کان بھرے ہیں میرے خلاف، وہ اسما کو بلا کر پھر واویلا شروع کردیتی ہیں۔‘

کیا عذرا کا رویہ گھر والوں کے لیے مصیبت کا باعث بن جائے گا؟ کیا عذرا یہ سب الگ ہونے کے لیے کررہی ہیں، یہ جاننے کے لیے ’بے بی باجی‘ کی اگلی قسط روزانہ شام 7 بجے دیکھیں۔