ہفتہ, مئی 25, 2024
اشتہار

دلیری اور شجاعت سے عبارت پاک بحریہ کی قوّت میں کئی گنا اضافہ

اشتہار

حیرت انگیز

20 جولائی 2023 کو پاکستان بحریہ کے جنگی بیڑے میں چین کے اشتراک سے بنائے گئے دو نئے جنگی بحری شامل کیے گئے ہیں اور یہ ایک تاریخی موقع تھا جب ٹائپ 054A بحری جنگی جہاز پی این ایس شاہ جہاں اور پی این ایس ٹیپو سلطان پاکستان کے بحری بیڑے میں شامل ہوئے۔

اس شمولیت کے ساتھ چار نئے ٹائپ 054A جنگی جہازوں کا منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ جلد ہی ترکی کے اشتراک سے بنائے گئے چار نئے ملجم کلاس تباہ کن بحری جہاز اور ہالینڈ سے خریدے گئے دو کورویٹ پاکستان کے بحری بیڑے میں شامل ہوں گے اور پاکستانی بحریہ کی طاقت میں اضافہ اور سمندری حدود کے دفاع میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ چین کے اشتراک سے آٹھ نئی آبدوزوں کا منصوبہ بھی تیزی سے تکمیل کے مراحل طے کر رہا ہے۔ یوں ایک ایسی بحریہ وجود میں آرہی ہے جو حربی صلاحیتوں میں جدید ٹیکنالوجی کے حامل جنگی بیڑے رکھنے والے ملک کی بحریہ سے کم نہیں اور جارحیت کی صورت میں دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ بحریہ، افواج پاکستان کا ایک اہم ستون ہے۔

پاکستان کی 1000 کلومیٹر طویل بحری سرحدوں اور تقریبا تین لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط سمندری علاقے میں سطح آب اور زیر آب پھیلے ہوئے بحری وسائل اور اپنی حدود میں اپنے مفادات کا تحفظ اس کی اوّلین ذمہ داری ہے۔ آج پاکستانی بحریہ اپنے ماٹو "ہمت کا علم، اللہ کا کرم، موجوں پہ قدم” کی عین تصویر بن چکی ہے۔ مگر ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ جب پاکستان آزاد ہوا تو پاکستان بحریہ کے حصے میں گنے چنے چند پرانے جہاز آئے۔ ساحلی تنصیبات یعنی ڈاکیارڈ اور گودیاں وغیرہ بھی نہ ہونے کے برابر تھیں۔ 23 جنوری 1948 کو جب قائد اعظم محمد علی جناح نے پی این ایس دلاور میں بحریہ کے افسروں اور جوانوں سے خطاب کیا تو حالات مختلف تھے۔ مگر قائد اعظم جیسے عظیم رہبر کے سامنے بحریہ کا تابناک مستقبل تھا۔ انہوں نے فرمایا، "پاکستان اور اسکی مسلح افواج بشمول بحریہ ابھی عہد طفولیت میں ہیں۔ مگر یہ نونہال جلد جوان ہونا چاہتا ہے اور اللہ کی رحمت سے بہت جلد ایک طاقتور نوجوان بن کر ابھرے گا۔” پاکستان بحریہ کے افسروں اور جوانوں سے فرمایا، "آپ کو اپنے (یعنی بحریہ کے) حجم میں کمی کا ازالہ اپنی بہادری اور بے لوث فرض شناسی سے کرنا ہوگا۔ کیونکہ زندگی خود کوئی معنی نہیں رکھتی جب تک اسے شجاعت، استقامت اور اولوالعزمی سے عبارت نہ کیا جائے۔”

- Advertisement -

قائد کی اس بات کو مشعل راہ مان کر پاکستان بحریہ نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ محدود وسائل اور ماہر افرادی قوت کی کمی کو خاطر میں لائے بغیر بتدریج ایک مضبوط بحریہ کی بنیاد ڈال دی گئی۔ اوّلین دور میں بجٹ کی کمی کے باعث پاکستان بحریہ کا انحصار بھی زیادہ تر پرانے بحری جنگی جہازوں پر رہا اور ان کو بحری دفاع کے قابل بنایا جاتا رہا۔ مگر انہی پرانے جنگی جہازوں نے 1965 میں بھارت کے ساحلی ریڈار اسٹیشن دوارکا پر گولہ باری کر کے اسے نہ صرف نیست و نابود کیا بلکہ آبدوز غازی کی دہشت سے بھارتی بیڑہ بمبئی کی بندرگاہ میں محصور ہو کر رہ گیا۔ 1971 کی جنگ کا احاطہ چند سطور میں کرنا مشکل ہے مگر یہاں بھی پاکستانی آبدوز ہنگور نے کمانڈر احمد تسنیم کی قیادت میں بھارت کی سمندری حدود میں گھس کر بحری جنگی جہاز آئی این ایس کُکری کو نہ صرف ڈبویا بلکہ آئی این ایس کرپان پر بھی گہری ضرب لگائی۔

71ء کے بعد بحری بیڑے کے ہوائی بازو کو بالخصوص تقویت دی گئی۔ اور ساحلی پٹی پر نگرانی کے لیے ریڈارز کا جال بچھایا گیا۔ اورماڑہ کے مقام پر جناح نیول بیس کی تعمیر بھی کی گئی۔ اسی طرح گوادر بندرگاہ پر بھی نصب بحری تنصیبات میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا تاکہ خلیج سے دشمن کے تجارتی و جنگی جہازوں کی آمدورفت کی مسلسل نگرانی کی جاسکے اور جارحیت کی صورت میں انہیں نشانہ بنایا جا سکے۔ سی پیک کے تناظر میں خاص طور سے گوادر بندرگاہ اور اس پر لنگر انداز ہونے والے تجارتی بحری جہازوں کی حفاظت کے لیے ایک الگ ٹاسک فورس کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے۔ یہ درست ہے کہ بھارت نے اپنی بحریہ کی استعداد میں گوناگوں اضافہ کیا ہے۔ اور جہاز سازی کی صنعت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرکے کافی حد تک خود انحصاری حاصل کر لی ہے۔ بھارتی بحریہ نے اپنے بیڑے میں دو ایئر کرافٹ کیریئر بھی شامل کر رکھے ہیں۔ یہاں ہم یہ بتاتے چلیں کہ ایئر کرافٹ کیریئر کا استعمال جارحانہ عزائم کے حامل ممالک کرتے ہیں اور اس کا ایک مقصد بہت دور کے ممالک پر حملہ یا اپنی طاقت کا رعب جمانا ہوتا ہے۔ چونکہ بھارت ہمیشہ سے خطے میں غیر ضروری طور پر طاقت اور دھونس دھکمی کے ذریعے خود کو منوانے کی خواہش رکھتا ہے، اس لیے وہ ایسے اقدامات کرتا رہتا ہے جس سے خطے میں امن کی کوششوں کو نقصان پہنچے، بھارت خود کو عالمی سطح پر بڑی طاقتوں کے شانہ بشانہ دیکھنا چاہتا ہے اور چین کی برابری کی خواہش رکھتا ہے اس لیے وہ اپنے بحری بیڑے میں ایئر کرافٹ کیریئر کی شمولیت ضروری سمجھتا ہے۔ مگر پاکستان سے مقابلے کی صورت میں اسکے ایئر کرافٹ کیریئر پاکستانی بحریہ کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ ماضی قریب میں بھارتی آبدوزوں کو بارہا نشانے پر رکھ کے پاکستانی بحریہ بھارتی سورماؤں کو یہ باور کروا چکی ہے کہ وہ کسی مغالطے میں نہ رہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ بحری جنگ کی نوعیت بھی بدل رہی ہے۔ ہائبرڈ یا مخلوط بحری جنگ میں دشمن کی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ وہ ساحلی علاقوں اور بندرگاہوں میں دہشت گردی کے واقعات رونما کروا کے ملکی بحری تجارت پر کاری ضرب لگائے۔ بھارتی بحریہ کا حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو اسی کام پر مامور تھا۔ مگر پاکستانی انٹیلیجنس اداروں نے بروقت اسے دھر لیا اور دنیا کے سامنے تمام ثبوت لا کر بھارت کے جارحانہ عزائم اور امن و سلامتی کے لیے خطرہ بننے کی کوششوں کو عیاں کردیا۔ اس لیے مخلوط بحری جنگ میں پاکستانی بحریہ کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ وقت کے تقاضوں کے پیش نظر پاکستانی بحریہ اپنی استعداد میں روز بروز اضافہ کر رہی ہے۔ خود انحصاری کو باضابطہ فروغ دیا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر روابط کو فروغ دے کر گہرے سمندر میں غیر قانونی سرگرمیوں مثلاً منشیات کی تجارت، تارکین وطن کی غیر قانونی ہجرت وغیرہ کا سد باب کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ پاک بحریہ سمندری آفات اور سیلاب کے متاثرین اور ساحلی بستیوں کے غریب اور محنت کش لوگوں کی مدد کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرتی رہتی ہے۔

(تحریر:‌ جاوید اقبال)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں