14.9 C
Dublin
ہفتہ, مئی 25, 2024
اشتہار

نادرِ روزگار مولوی ذکاء اللہ کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

یہ انیسویں صدی کے ایک نادرِ روزگار کا تذکرہ ہے جنھیں اُن کے علمی اور ادبی مشاغل کے سبب بڑا مقام و مرتبہ حاصل تھا۔ یہ مولوی محمد ذکاءُ اللہ تھے جن کو سرکار نے شمس العلماء کا خطاب دیا۔ تعلیمِ نسواں کے زبردست حامی مولوی محمد ذکاءُ اللہ نے اپنے زمانے میں معاشرتی اصلاح کے لیے بھی قابلِ‌ ذکر کوششیں کیں اور عزّت و احترام کی نگاہ سے دیکھے گئے۔

ذکاءُ اللہ نے جس دور میں آنکھ کھولی اور سنِ شعور کو پہنچے، اس میں ہندوستانی معاشرے پر مغربی تہذیب اپنا رنگ جما رہی تھی۔ انگریز ہندوستان پر قابض ہوچکے تھے اور ان کی وجہ سے سماج میں نئی تہذیب کو پنپنے کا موقع مل رہا تھا جب کہ مسلمان اکابرین کو نظر آرہا تھا کہ اگر ان کے بچّے تعلیمی میدان میں پیچھے رہے تو اپنی روایات اور اقدار کا تحفظ بھی نہیں کرسکیں‌ گے۔ ان حالات میں مولوی ذکاءُ اللہ اردو زبان کے فروغ کے لیے اور تعلیمِ نسواں کے پرچارک بن کر سامنے آئے۔

ادبی تذکروں کے مطابق مولوی ذکاءُ اللہ کا تعلق دہلی کے کوچہ بلاقی بیگم سے تھا اور انھوں نے علمی، ادبی اور دینی ماحول میں‌ پرورش پائی تھی۔ ان کا سنہ پیدائش 1832ء ہے۔ مولوی ذکا اللہ کی ابتدائی تعلیم ان کے دادا حافظ محمد بقاءُ اللہ اور والد حافظ محمد ثناءُ اللہ کے زیرِ سایہ مکمل ہوئی۔ کم عمری ہی میں وہ عربی اور فارسی کی کتابیں پڑھنے کے عادی ہوگئے تھے اور مطالعہ سے گہرا شغف رکھتے تھے۔

- Advertisement -

مولوی ذکا اللہ نے دہلی کالج میں داخلہ لیا تو ان کی دل چسپی سائنس کی طرف زیادہ رہی اور ریاضی ان کا پسندیدہ مضمون ٹھہرا۔ اس مضمون میں مہارت ایسی بڑھی کہ اردو زبان میں ریاضی کی پہلی کتاب لکھ ڈالی۔ وہ ریاضی کے ایک ممتاز عالم اور مشہور استاد ماسٹر رام چندر کے چہیتے شاگرد بن گئے۔ مولوی ذکاء اللہ کی ریاضی میں قابلیت اور مہارت نے انھیں دہلی کالج ہی میں اس مضمون کے استاد کی حیثیت سے عملی زندگی میں قدم رکھنے کا موقع دیا۔ بعد میں وہ آگرہ، بلند شہر، مراد آباد اور الٰہ آباد میں تعلیمی اداروں میں مختلف عہدوں پر فائز کیے گئے۔ مولوی ذکاء اللہ کو دہلی کالج کے بعد آگرہ کالج میں فارسی اور اردو کا مدرس بھی مقرر کیا گیا جب کہ میور سنٹرل کالج میں بھی عربی اور فارسی کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اپنے دور میں ذکاءُ اللہ دہلوی ماہرِ تعلیم مشہور ہوئے۔

انھوں نے تدریس کے ساتھ علمی و ادبی مضامین، مقالے اور کئی کتابیں لکھیں اور آخری سانس تک پڑھنے لکھنے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ برطانوی حکومت نے مولوی ذکاء اللہ کی خدمات کے اعتراف میں انھیں شمسُ العلما اور خان بہادر کا خطاب دیا۔ تعلیمِ نسواں کے ضمن میں مولوی صاحب کی کوششوں‌ پر بھی خلعت سے نوازا۔

اردو زبان، تصنیف و تالیف اور علم و فنون کی ترویج میں دہلی کالج کے قیام کے بعد بڑا کام کیا گیا اور مولوی ذکاءُ اللہ کی ریاضی اور طبیعیات کے مضمون پر اردو میں‌ درجنوں کتب شایع ہوئیں، ان کے مضامین نصاب کا حصّہ بنائے گئے۔

یوں تو مولوی ذکاء اللہ کا میدان سائنس اور ریاضی تھا، لیکن انھوں نے اردو میں تصنیف و تالیف کا کام بھی انجام دیا۔ مولوی صاحب نے اردو تاریخ نگاری کی بنیاد ڈالی اور کئی جلدوں پر مشتمل تاریخِ ہندوستان لکھی۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد کی تاریخ انھوں نے سلطنت انگلیشیہ کے نام سے لکھی۔ مولوی ذکاءُ اللہ کی ڈیڑھ سو سے زائد کتابوں کی اشاعت اور بہت سے دل چسپ اور مفید مضامین بھی قارئین میں‌ پسند کیے گئے۔ وہ نکتہ بیں‌ اور ایسے مصلح ثابت ہوئے جن کا کام نہایت افادی اور ایک بیش قیمت سرمایہ تھا جس سے ہندوستان بھر میں مسلمان مستفید ہوئے۔

مولوی ذکاء اللہ 7 نومبر 1910ء میں اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ انھیں ایک مؤرخ، ماہرِ‌تعلیم، اور مترجم کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ "تاریخِ ہندوستان ” ان کا اہم کارنامہ ہے اور کئی جلدوں پر مشتمل مستند ترین کتاب ہے۔ مسلمان اور سائنس کے نام سے کتاب کے علاوہ تہذیب الاخلاق اور تاریخ کے کئی موضوعات پر ان کے قلم سے نکلی ہوئی‌ کتابیں‌ ہی نہیں ریاضی، کیمیا، جغرافیہ اور فلسفہ کے موضوع پر بھی ان کی تصانیف موجود ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں