پنجاب میں ایک مضبوط سکھ سلطنت کی بنیاد رکھنے والے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد 1848ء میں انگریزوں نے پنجاب فتح کر لیا تھا۔ اس وقت سلطنت میں دلیپ سنگھ تخت نشیں تھا جسے ایک معاہدے کے تحت برطانوی راج تسلیم کرنے کے بعد برطانیہ بھیج دیا گیا جہاں ملکہ اس خاندان کی سرپرست بن گئیں۔
سابق مہاراجہ دلیپ سنگھ نے بعد ازاں اپنا مذہب تبدیل کرلیا اور عیسائیت قبول کرنے کے بعد برطانوی اشرافیہ کا حصّہ بن گیا، لیکن اس کی شاہ خرچیوں اور کثرتِ شراب نوشی نے سب کچھ برباد کر دیا۔ 1895ء میں وہ پیرس میں کسمپرسی کے عالم میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گیا۔
دلیپ سنگھ کی پہلی بیوی سے چھے بچّے پیدا ہوئے جن میں سے ایک کا نام بمبا صوفیہ جندن (Bamba Sofia Jindan) تھا۔ اس نے 29 ستمبر 1869ء کو لندن میں آنکھ کھولی اور مشنری اسکول میں تربیت اور تعلیم کے مراحل طے کیے، لیکن اوائلِ عمر سے ہی وہ اپنی شاہی اور ہندوستانی شناخت کے بارے میں سنجیدہ رہی۔ اسے اپنے دادا مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت چلے جانے اور اپنے خاندان کی برطانیہ منتقلی کو ذہنی طور پر قبول کرنے میں بڑی مشکل پیش آئی۔
بمبا کے دادا کا راج شمال مغرب میں درّۂ خیبر سے مشرق میں دریائے سُتلج تک اور برصغیر پاک و ہند کی شمالی حد سے جنوب کی طرف صحرائے تھر تک پھیلا ہوا تھا۔ لاہور سلطنت کا صدر مقام تھا اور اس کے والد دلیپ سنگھ سلطنت کے آخری مہاراجہ تھے۔شاہزادی بمبا سدرلینڈ 1957ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئی تھیں ان کی عمر 88 برس تھی اور وہ خاصی ضعیف اور ناتواں ہو گئی تھیں۔ بمبا سدرلینڈ فالج سے متاثر تھیں اور ان کی بینائی بھی کمزور ہوچکی تھی۔ ان کی تدفین برطانوی ہائی کمشنر کے زیرِ نگرانی گورا قبرستان میں کی گئی۔
لندن میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد شہزادی بمبا کو آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا تھا اور بعد میں وہ امریکی شہر شکاگو کے ایک میڈیکل کالج چلی گئی تھیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں شہزادی بمبا نے ہندوستان آنا جانا شروع کیا اور لاہور کے حُسن اور سکھ دور اور شاہی خاندان کی یادگاروں نے انھیں یہیں قیام کرنے پر مجبور کر دیا۔ شہزادی نے انگلستان کو چھوڑ کر لاہور کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لیا۔ انھوں نے لاہور میں اپنی رہائش گاہ کو ’گلزار‘ کا نام دیا اور اس میں کئی اقسام کے گلاب کے پودے لگا کر ان کی دیکھ بھال میں مصروف ہوگئیں۔
سنہ 1915 میں شہزادی بمبا نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے پرنسپل ڈاکٹر ڈیوڈ سدرلینڈ سے شادی کر لی جو 1939 تک زندہ رہے۔ شہزادی بمبا کی شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال سے بھی ملاقاتیں رہیں جو ان کی بے انتہا عزّت کرتے تھے۔ تقسیمِ ہند کے موقع پر وہ انگلستان، ہندوستان اور دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں رہنے کا فیصلہ کرسکتی تھیں جو ان کا حق تھا، لیکن انھوں نے لاہور میں اپنے والد دلیپ سنگھ کی جائیداد اور دیگر معاملات کو سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔
شہزادی بمبا کو آرٹ سے گہرا لگاؤ تھا اور ان کے پاس بیش قیمت پینٹگز کا ایک خزانہ موجود تھا جسے وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق ان کے خاص ملازم پیر کریم بخش سپرا کے سپرد کردیا گیا۔ اس میں واٹر کلر، ہاتھی کے دانتوں پر پینٹنگز، مجسمے اور آرٹ کے دیگر شاہکار شامل تھے۔ لندن میں سکھ خاندان کے نوادرات کو وصیت کے مطابق جب ملازم پیر کریم بخش نے حکومتِ پاکستان کے تعاون سے لاہور منگوانے کی درخواست دی تو اس کا احترام کیا گیا اور ایک ہفتے میں نوادرات لاہور پہنچ گئے۔ بعد میں ان اشیا کو شہزادی بمبا کی رہائش گاہ میں محفوظ کر دیا گیا اور پھر اسے قومی اثاثہ قرار دے کر لاہور کے شاہی قلعے میں محفوظ کر لیا گیا۔