ہفتہ, نومبر 2, 2024
ہوم بلاگ صفحہ 9968

چاند پر پانی کے ذخائر! سائنس دانوں نے بڑا دعویٰ کردیا

0

واشنگٹن : سائنس دانوں نے چاند پر برف کی صورت میں پانی کی موجودگی کا دعویٰ کردیا۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق یونیورستی آف ایریزونا کی ایک ٹیم کی جانب سے ایک تحقیق میں دعویٰ کیا ہے کہ چاند پر موجود چٹانوں میں پانی موجود ہے جو جمع ہوا ہے۔

اس پانی کو چٹانوں سے نکال کر مستقبل میں چاند پر انسان آباد کاری کی جاسکتی ہے۔

متعدد اسپیس کرافٹس نے چاند کے قطبی علاقوں میں موجود گڑھوں کی گہرائی میں برف کے شواہد دیکھے ہیں جہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچتی۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سورج کی روشنی نہ پہنچنے کے باعث درجہ حرارت منفی 250 ڈگری ہوجاتا ہے۔

قدیم مقناطیسی فیلڈ کی باقیات (جس سے کبھی چاند ڈھکا ہوا تھا) سے گڑھوں میں موجود پانی جم کر محفوظ ہوگیا۔

پاکستان کو انتہائی مطلوب دہشت گرد قندھار میں مارا گیا

0

اسلام آباد: پاکستان کو انتہائی مطلوب دہشت گرد عبدالوہاب لاڑک قندھار میں مارا گیا ،دہشت گرد کراچی میں خودکش حملے کرانے کی منصوبہ بندی کررہا تھا۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان کو انتہائی مطلوب دہشت گرد قندھار میں ہلاک ہوگیا ، عبدالوہاب لاڑک کالعدم ٹی ٹی پی سندھ کا امیر تھا اور کراچی میں خودکش حملے کرانے کی منصوبہ بندی کررہا تھا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ دہشت گرد عبدالوہاب 22 مارچ کی صبح 2نامعلوم افراد کےہاتھوں قندھارمیں ہلاک ہوا ، اس کا تعلق لشکرجھنگوی عثمان سیف اللہ کرد گروپ سے تھا۔

ذرائع نے بتایا کہ ہلاک دہشت گرد پورے ملک بالخصوص سندھ میں متعدد کارروائیوں میں ملوث تھا اور سی ٹی ڈی سندھ کی انتہائی مطلوب دہشت گرد فہرست میں شامل تھا۔

ذرائع کے مطابق اگست 2020 میں عبدالوہاب لشکرجھنگوی کے دیگرساتھیوں سمیت ٹی ٹی پی میں شامل ہوا ، ہلاک دہشت گرد نے 30جنوری 2015 کو امام بارگاہ شکارپور میں خودکش حملہ کرایا ، اس حملے میں 53 معصوم افراد شہید اور 57 زخمی ہوئے تھے۔

دہشت گرد نے آرمی ایوی ایشنز بیس اور پی اےایف بیس سمنگلی میں حملےکی پلاننگ کی جبکہ اہل تشیع کی ٹا ر گٹ کلنگز اور شمالی وزیرستان میں متعدد دہشت گرد کارروائیوں میں ملو ث تھا۔

سچی دوستی!

0

شہر سے دور گھنے جنگل میں ایک پیڑ پر ایک بندریا اپنے بچّوں کے ساتھ رہتی تھی۔ اس پیڑ کی چھاؤں تلے ایک ہرنی کا اپنے بچوں سمیت بسیرا تھا۔ ہرن اور بندریا دونوں پکی سہلیاں تھیں۔

دونوں جنگل میں گھوم کر اپنے بچّوں کے لیے پھل پھول اکٹھا کرتیں۔ اچھے پکے پھل ملتے تو دونوں اپنے بچّوں کو بانٹ کر کھلاتیں۔ پیڑ کے قریب سے ایک ندی گزرتی تھی جس کا پانی میٹھا اور صاف تھا۔ بہت سارے چرند و پرند، جنگلی جانور اپنی پیاس بجھانے ندی کے کنارے آتے۔

ہر روز شام ڈھلے شیروں کے قافلے کی آہٹ پاتے ہی پھڑپھڑا کر سارے پرندے اڑ جاتے۔ بندریا ہرنی کواپنے مخصوص کھیں کھیں کی آواز نکال کر چوکنا کر دیتی۔ پھر ہرنی اپنے بچّوں کو خاموش رہنے کے اشارے کرتی۔

دن یونہی گزر رہے تھے۔ دونوں کے بچّے بھی بڑے ہو رہے تھے۔ لیکن بچّے بڑے شریر تھے۔ ہرنی کا ایک بچّہ جس کا نام سونو تھا وہ خوب دھما چوکڑی مچاتا۔ اسے اپنی خوبصورت کھال اور نازک خدوخال پر بڑا گمان تھا اور وہ بہت مغرور بھی تھا۔ بندریا کے شرارتی بچّے مونو سے سونو کی کبھی نہیں بنتی تھی۔ اکثر دونوں میں تیر بھاگنے کا مقابلہ ہوتا۔ مونو ڈالیوں میں جھولتا، ہوا میں ایک ڈال سے دوسری ڈال پر چھلانگ لگا کر دُم لہراتے بہت آگے نکل جاتا۔ پھر ٹھہر کر سونو کا انتظار کرتا۔ سونو کو مونو کی یہ عادت بالکل پسند نہیں آتی۔ وہ ناراض ہوجاتا اور دونوں لڑتے جھگڑتے اپنی اپنی ماں کے پاس واپس آجاتے۔

اکثر ایسا بھی ہوتا کہ ہرنی کا بچّہ سونو، بندریا کے بچّے مونو کی دُم پیر سے دبا دیتا، پھل چھین کر کھا لیتا، دونوں کی شرارتیں اتنی کہ مونو ڈالیوں پر جھولتے ہوئے سونو کو دھڑام سے دھکیل کر یہ جا وہ جا ہو جاتا۔ اس کی سنہری کھال جس پر سونو کو بڑا غرور تھا، مسل دیتا۔ یہ سب روز کے معمول تھے۔ دونوں کی ماں بچّے کے جھگڑے سلجھاتیں۔ مگر ہرنی اور بندریا کی دوستی میں کبھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ایک دن کی بات ہے کہ ہرنی جنگل کی طرف کیا نکلی، کبھی لوٹ کر نہیں آئی۔ بندریا کئی دنوں تک اسے ڈھونڈتی رہی۔ پھر تھک ہار کر واپس آگئی۔ خوب روئی۔ اب اس کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی تھیں۔ اپنی ہرنی سہیلی کے بچّوں کا پہلے سے زیادہ وہ خیال رکھتی۔ انہیں بھوکا نہیں چھوڑتی۔ خوب دلار پیار کرتی بالکل اپنے بچّوں کے برابر مگر سونو ہمیشہ مونو سے جھگڑے پر اتاولا رہتا۔ جنگل کے دیگر سبھی جانور دونوں کی شرارتوں سے واقف تھے۔

جنگل میں ایک دن راج ہنس نے سبھی چرند و پرند کو اکٹھا کر کے کہا کہ بہت دن ہوگئے، کوئی جشن یا کھیل کا مقابلہ نہیں ہوا۔ بہار کے اس موسم میں کچھ تفریحی پروگرام ہونا چاہیے۔ سبھی نے راج ہنس کی بات کی تائید کی۔ راج ہنس ہمیشہ ایسے تفریحی پروگرام منعقد کرتا جس میں کھانے پینے کا بھی خوب انتظام رہتا۔

کئی دنوں کی تیاری کے بعد جشن کا آغاز جنگل کے اندر ایک ہرے بھرے میدان میں ہوا۔ سب اکٹھا ہوئے خوب کھیل تماشہ اور مقابلہ ہوا۔ ہر جیتنے والے کو پکے پھل ملتے، خوب تالیاں بجتیں۔ سونو اور مونو کے درمیان حسن اور قابلیت کا مقابلہ ہوا۔ جج راج ہنس کے مطابق سونو حسین اور مونو ذہین قرار دیا گیا۔ شام ہوئی مقابلہ ختم ہوا سب خوشی خوشی اپنے بسیروں کی جانب چل پڑے۔ سونو اس فیصلے سے بالکل متفق نہ تھا وہ تلملایا ہوا تھا۔ اسے حسین اور ذہین دونوں کا خطاب اپنے نام چاہیے تھا وہ ہرگز مونو کو کسی خطاب کا حق دار نہیں سمجھتا تھا۔ اپنے بسیرے کے قریب پہنچتے ہی مونو نے سونو کو کھیں کھیں کر کے چڑھا دیا۔ اب وہ پیڑ پر جست لگانا ہی چاہتا تھا کہ سونو نے مونو کی لمبی لہراتی دم کو دانت سے پکڑ کر چبا دیا۔ چیخ پکار مچاتا مونو پیڑ پر چڑھ گیا۔ پھر بندریا نے جنگل سے ایک بوٹی لاکر اس کی دُم پر لگائی۔ مگر کوئی افاقہ نہ ہوا وہ رات بھر درد سے تڑپتا اور یہی سوچتا رہا کہ موقع ملتے ہی وہ سونو سے بدلہ ضرور لے گا۔

ایک دن کی بات ہے کہ بندریا جنگل میں کہیں گئی ہوئی تھی۔ بندریا کا زخمی بچّہ مونو پیڑ پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی نظر ایک شکاری کے جال پر پڑی۔ وہ دل ہی دل میں مسکرانے لگا۔ کیونکہ سونو بڑی اداؤں کے ساتھ بے فکری سے قریب ہی ٹہل رہا تھا۔ وہ شکاری کے جال کی طرف جا نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے جال میں پھنس گیا۔ شکاری جھٹ پھٹ اسے لے کر نکلنے ہی والا تھا کہ مونو کے دل میں سونو کے لیے ہمدردی کا ایک ایسا جذبہ بیدار ہوا جس میں احسان مندی بھی تھی اور پڑوسی کے حق کی ادائیگی بھی۔ مونو کو یاد آیا کہ وہ ایک دن کیچڑ میں گر گیا تھا تو سونو نے اپنی زبان سے اس کا جسم صاف کیا اور اس کی ماں کے پاس لے کر آیا تھا۔

دفعتاً بجلی کی سی تیزی کے ساتھ وہ ڈالیوں میں جھولتا، ہواؤں میں جست لگاتا شکاری پر حملہ آور ہوا اور غصے میں جال کو جگہ جگہ سے پھاڑ کر رکھ ڈالا اور اپنے پڑوسی کی جان بچا کر واپس اپنے بسیرے پر لے آیا۔

مصنّف: شمع اختر کاظمی (بھارت)

کراچی کے نجی بینک لاکرز میں نقلی زیوارت، مرکزی ملزمہ کی بیٹی بھی گرفتار

0

کراچی: شہر قائد کے ایک نجی بینک کے لاکرز میں اصلی زیوارت کی جگہ نقلی رکھنے کے کیس میں ایف آئی اے نے مرکزی ملزمہ کی بیٹی کو بھی گرفتار کر لیا۔

تفصیلات کے مطابق ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل نے ایک کارروائی میں جعلی گولڈ اسکینڈل میں ملوث فاطمہ لائبہ کو گرفتار کر لیا، گرفتار ملزمہ پہلے سے گرفتار مرکزی ملزمہ عائشہ مرزا کی بیٹی ہے۔

ایف آئی اے کے مطابق گولڈ فنانس اسکیم اسکینڈل میں دونوں کے جوائنٹ اکاؤنٹ میں 110 ملین جمع ہوئے، اس کیس میں 5 ملزمان کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

بینک لاکرز میں نقلی زیورات رکھنے کا کیس ، گرفتار آپریشن منیجرکی کیس ختم کرنے کی درخواست مسترد

ایڈیشنل ڈائریکٹر ڈاکٹر فاروق کا کہنا ہے کہ ملزمان میں عائشہ مرزا کا بھائی سہیل مرزا اور بینک کے ملازمین بھی شامل ہیں، خواتین ملزمان کے اکاؤنٹ سے منتقل کردہ رقم سے جائیدادیں بھی خریدی گئی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ملزمان نے کسٹمرز کے بینک میں موجود زیورات کی جگہ نقلی زیور رکھے تھے، اور شہریوں کو جعلی طریقے سے لون سہولت بھی فراہم کی گئی۔

کراچی کی تاریخ میں انوکھا بینک فراڈ

ذرائع کے مطابق جعل سازی سے حاصل رقم سے لائبہ نے دوست کو شاپنگ بھی کرائی تھی۔

‘اب بات صرف عمران خان سے ہوگی ‘

0

لاہور: جہانگیر ترین گروپ کی پنجاب کے صوبائی وزرا سے ملاقات میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی جس کے بعد انہوں نے مزید بات چیت سے انکار کردیا ہے۔

آے آر وائی نیوز کے مطابق ترین گروپ مانئس عثمان بزدار پر ڈٹ گیا اور مطالبے سے دستبردار ہونے سے صاف انکار کردیا ہے۔

ترین گروپ کے سرکردہ رہنما عون چوہدری کا کہنا ہے کہ ہم نے صوبائی سطح پر مزید بات چیت سے انکار کردیا ہے، عثمان بزدار کو ہٹانےکے بعد ہی مذاکرات نتیجہ خیز ہوسکتے ہیں۔

عون چوہدری نے کہا کہ عثمان بزدار کو ہٹائے بغیر معاملات آگےنہیں بڑھ سکتے، پہلےبزدار کی تبدیلی پھر دیگر ایجنڈے پر بات چیت ہوگی،ہم مائنس عثمان بزدار کے مطالبے پر کھڑے ہیں، مراد راس کی عزت کرتےہیں، اب بات صرف عمران خان یا وفاقی وزرا سے ہونگی۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے جہانگیر ترین گروپ کو منانے کی کوششیں مزید تیز کردیں

ترین گروپ کے رہنما کا کہنا تھا کہ ہم مائنس عثمان بزدار کے مطالبے پر کھڑے ہیں، ہماری حکومت کیساتھ کسی قسم کا کوئی ورکنگ ریلیشن شپ نہیں، ترین گروپ کی وزیراعلیٰ سے ملاقاتوں میں کوئی حقیقت نہیں، سوشل میڈیا پر وزرا اور ارکان اسمبلی کی ملاقاتوں کی پرانی تصاویر نکالی جارہی ہیں۔

عون چوہدری نے واضح کیا کہ ترین گروپ جہانگیر ترین کی قیادت میں متحد اور مشترکہ فیصلےکررہاہے۔

ادھر ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم این ایز کے بعد ترین گروپ کے ایم پی ایز میں بھی ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو گیا، گروپ کے 5 ایم پی ایز نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ملاقاتیں کی ہیں۔

یہ ملاقاتیں گزشتہ ہفتے لاہور ہی میں ہوئی تھیں، ملاقات کرنے والوں میں تیمور لالی، بلال اصغر، افتخار گوندل، فیصل حیات اور اسلم بھروانہ شامل تھے۔

آصف زرداری اور بلاول نے ایم کیو ایم کے مطالبات مان لیے

0

کراچی: پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور چیئرمین بلاول نے ایم کیو ایم کے نکات مان لیے تاہم ایم کیو ایم نے فی الحال پیپلز پارٹی کو کوئی یقین دہانی نہیں کرائی۔

تفصیلات کے مطابق ایم کیو ایم کا وفد پیپلزپارٹی کی قیادت سے ملاقات کیلئے زرداری ہاؤس پہنچا ، ایم کیو ایم وفد کو زرداری ہاؤس کی گاڑیوں میں لایا گیا۔

ذرائع نے بتایا کہ ایم کیو ایم وفد میں خالد مقبول صدیقی، عامر خان ، امین الحق اور دیگر رہنما شامل تھے، ایم کیوایم اور پیپلز پارٹی کی انتہائی خوشگوار ماحول میں ملاقات ہوئی، آصف زرداری نے ایم کیو ایم وفد کے اعزاز میں ظہرانہ کا اہتمام کیا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ آصف زرداری اوربلاول نے ایم کیو ایم کے نکات کو مان لیا اور کمیٹیاں تشکیل دے دی، کمیٹیاں نکات پر پیشرفت اورعمل کے لیے اقدامات اور روڈ میپ تیار کریں گے۔

ذرائع پیپلز پارٹی نے کہا کہ سندھ کی ترقی اورخوشحالی کیلئے ملکر چلنا ہوگا، آئینی طریقے سے جو چیزیں بہتر کی جاسکتی ہیں ان کو کیا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق فضل الرحمان اور شہبازشریف نے پی پی اور ایم کیوایم میں مفاہمت کیلئے کردارادا کیا، ایم کیو ایم کے زیادہ مسائل سندھ خصوصاً شہری علاقوں سے متعلق تھے اور ایم کیو ایم کو بلدیاتی نظام اور اداروں سے متعلق شکایات تھیں۔

ذرائع نے بتایا کہ وزیراعلیٰ سندھ، صوبائی وزرا کو خصوصی طور پر ملاقات میں بلایا گیا تھا۔

ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے اراکین پر مبنی کمیٹی کے نام سامنے آگئے ہیں ، ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیٹی میں جاوید حنیف ، کنور نوید اور خواجہ اظہار الحسن شامل ہیں جبکہ پی پی سے مرتضیٰ وہاب ،سعیدغنی ،جام شورو شامل ہیں، کمیٹی مشاورت کیساتھ لائحہ عمل،نکات پرعملدرآمد کا فارمولہ بنائے گی۔

ذرائع ایم کیو ایم نے کہا کہ ایم کیو ایم نے فی الحال پیپلز پارٹی کو کوئی یقین دہانی نہیں کرائی ، ملاقات میں بات اور زرداری ،بلاول بھٹو کی یقین دہانیوں پر مشاورت کریں گے ، پارٹی میں مشاورت کے بعد ایم کیو ایم اپنا حتمی فیصلہ کرے گی۔

ایئرنیوزی لینڈ کا دنیا کی چوتھی طویل ترین پرواز چلانے کا اعلان

0

ایئرنیوزی لینڈ نے دارالحکومت آکلینڈ سے نیویارک تک 17 گھنٹے طویل براہ راست فلائٹس چلانے کا اعلان کردیا۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق طویل دورانیے کی یہ فلائٹس رواں برس 17 ستمبر سے آکلینڈ سے شروع ہوں گی، آکلینڈ سے چلنے والی پروازوں کا نمبر ’این زیڈ ٹو‘ اور نیویارک سے روانہ ہونے والی پروازوں کو ’این زیڈ ون‘ کا نمبر دیا گیا ہے۔

کمپنی کے سی ای او کا کہنا ہے کہ آکلینڈ سے نیویارک کےلیے بوئنگ 787 ڈریم لائنز کی ہفتے میں تین پروازیں چلائی جائیں گی، جس کا آکلینڈ سے نیویارک تک دورانیہ 17 گھنٹے 35 منٹ ہوگا اور یہ دنیا کی چوتھی طویل ترین دورانیے کی پرواز ہوگی۔

رپورٹس کے مطابق 8,828 میل فاصلے کی براہ راست ان پروازوں کا آغاز 17 ستمبر 2022 سے نیوزی لینڈ کے دارالحکومت آکلینڈ سے ہوگا۔

آکلینڈ سے نیویارک تک 17 گھنٹے سے زائد وقت کی پرواز کو دنیا کی طویل ترین پروازوں میں سے ایک قرار دیا جارہا ہے، تاحال طویل ترین دورانیے کی پرواز سنگاپور سے نیویارک 9,537 میل تک چلتی ہے جس کا دورانیہ 18 گھنٹے 7 منٹ کا ہے۔

غذائی قلت کے شکار افغان عوام کے لیے خیبر پختونخوا سے امدادی سامان روانہ

0

پشاور: غذائی قلت کے شکار افغان عوام کے لیے خیبر پختون خوا کے ضلع مردان کے عوام کی جانب سے غذائی اجناس پر مشتمل امدادی سامان پاک افغان سرحد طورخم پر افغان حکام کے حوالے کر دیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی رہنما نیلم خان طورو نے مقامی افراد کے تعاون سے رمضان کے پیش نظر افغان عوام کے لیے 2 ٹرکوں پر مشتمل امدادی سامان طور خم بارڈر پر افغان حکام کے حوالے کیا۔

امدادی سامان میں چاول، آٹا، دالیں، گھی، چینی، نمک، کھجوریں اور چائے کی پتی شامل ہے۔

برداشت فاؤنڈیشن خیبر پختون خوا اور انڈیور لائنز کلب مردان کی مرکزی صدر نیلم خان طورو نے پاک افغان کوآپریشن فورم کے منتظمین کی موجودگی میں امدادی سامان امارت اسلامی افغان حکام کے حوالے کیا۔

یہ امدادی سامان افغانستان میں مستحق خاندانوں کو فراہم کیا جاٸے گا، نیلم خان طورو کا کہنا تھا کہ افغانستان میں مشکلات کا سامنا کرنے والے اپنے بھائی بہنوں اور بچوں کی آئندہ بھی امداد جاری رکھیں گے اور کوشش کریں گے کہ زیادہ سے زیادہ امدادی سامان بھجوایا جائے۔

انھوں نے مخیر حضرات کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ کاوشوں کے ذریعے مظلوم افغانی عوام کی مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

اس موقع پر امارت اسلامی افغانستان کے حکام نے حکومت پاکستان اور این جی او کا شکریہ ادا کرتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ افغان عوام کے ساتھ تعاون کا سلسلہ آٸندہ بھی جاری رکھا جاٸے گا۔

صدارتی ریفرنس پر سماعت : رکن پارلیمنٹ کوووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جاسکتا، اصل سوال صرف نااہلی کی مدت کا ہے، سپریم کورٹ

0

اسلام آباد : سپریم کورٹ میں آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رکن پارلیمنٹ کوووٹ ڈالنے سےنہیں روکا جا سکتا، نہ ہی آئین میں رکن پارلیمنٹ کا ووٹ تسلیم کرنے کی گنجائش ہے، اصل سوال صرف نااہلی کی مدت کا ہے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجربنچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس منیب اختر،جسٹس اعجازالاحسن ، جسٹس مظہرعالم خان،جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آج بھی گزشتہ سماعت والا ہی مسئلہ ہے، مناسب ہو گا کہ وکلا اور دیگر افراد باہر چلے جائیں ، جو کھڑے ہیں لاؤنج سے سماعت سن لیں، اس سے پہلے کہ عدالت کو سختی سے باہرنکالنا پڑے۔

سپریم کورٹ نے چاروں صوبوں ،آئی سی ٹی کوصدارتی ریفرنس میں فریق بناتے ہوئے تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کردئیے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید نے صدارتی ریفرنس پر دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا سپریم کورٹ بار کی درخواست میں اسپیکر قومی اسمبلی بھی فریق ہیں، عدالت چاہے تو صوبوں کو نوٹس جاری کرسکتی ہے، صوبوں میں موجود سیاسی جماعتیں پہلےہی کیس کا حصہ ہیں۔

عدالت نے صوبائی حکومتوں کو بھی صدارتی ریفرنس پر نوٹس جاری کردیئے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جے یو آئی اور پی آئی ٹی نے ضلعی انتظامیہ سے ملاقات کی، جے یو آئی نے کشمیر ہائی وے پر دھرنے کی درخواست کی ہے، کشمیر ہائی وے اہم سڑک ہے جو راستہ ایئرپورٹ جاتا ہے، کشمیر ہائی وے سے گزر کر تمام جماعتوں کے کارکنان اسلام آباد آتے ہیں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ قانون کسی کوووٹنگ سے 48گھنٹے پہلے مہم ختم کرنےکا پابند کرتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت چاہے گی کہ سیاسی جماعتیں آئین کے دفاع میں کھڑی ہوں، معلوم نہیں عدم اعتماد پر ووٹنگ کب ہو گی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جمہوری عمل کا مقصد روزمرہ امورکومتاثر کرنا نہیں ہوتا، وکیل جے یو آئی کامران مرتضیٰ نے کہا کہ درخواست میں واضح کیا ہےکہ قانون پر عمل کریں گے، جلسہ اور دھرنا پرامن ہو گا۔.

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس میں کہا کہ آپ سے حکومت والے ڈرتےہیں، جس پر عدالت میں قہقہے لگے، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جے یو آئی پر امن رہے تو مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا آئی جی اسلام آباد سے بات ہو گئی ہے، پولیس کے اقدامات سے مطمئن ہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اچھی بات ہے پولیس قانون کے مطابق کارروائی کررہی ہے، صوبائی حکومتیں بھی تحریری طور پر جوابات جمع کرائیں ، حریری جوابات پر صدارتی ریفرنس پرسماعت میں آسانی ہوگی۔

عدالت نے کہا کامران مرتضیٰ نے پرامن دھرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس میں دیئے پی ٹی آئی کی جانب سے ڈنڈا بردار ٹائیگر فورس بنانا افسوسناک ہے جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا جے یو آئی بھی اپنے ڈنڈے تیل سے نکالے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تمام جماعتیں جمہوری اقدار کی پاسداری کریں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سندھ ہاؤس میں حکومتی اراکین نے وزیراعظم کیخلاف ووٹ دینے کا کہا، اس سلسلے میں 1992 کے عدالتی فیصلے کا حوالہ دیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ضمیر تنگ کررہا ہے تومستعفی ہو جائیں، 1992کے بعد سے بہت کچھ ہو چکا ہے، بہت کچھ ہوا مگر اس انداز میں وفاداریاں تبدیل نہیں ہوئیں، آرٹیکل 63اے کےتحت اراکین پارٹی ہدایات کے پابند ہیں اور وزیراعظم کے الیکشن ،عدم اعتماد پر ارکان پارٹی پالیسی پر ہی چل سکتے ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کیا آرٹیکل 63اے میں نااہلی کا ذکر ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا آرٹیکل 63اے کی ہیڈنگ ہی نااہلی سے متعلق ہے، نااہلی کے لیے آئین میں طریقہ کار واضح ہے، آرٹیکل 63،63،62 اے کوالگ الگ نہیں پڑھاجاسکتا ، عدالت پارلیمانی نظام کو آئین کا بنیادی ڈھانچہ قرار دے چکی۔

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ آرٹیکل17 اور 18 عام شہریوں کا آزادانہ ووٹ کا حق دیتا ہے، عام شہری اور رکن اسمبلی کےووٹ میں فرق بتانا چا رہے ہیں ، جس پر جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ سینیٹ الیکشن ریفرنس میں بھی یہ معاملہ سامنے آیاتھا تو اٹارنی جنرل نے کہا عام شہری اور اراکین اسمبلی کے ووٹ کیلئے قوانین الگ الگ ہیں۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے کہ سیاسی جماعتیں پارٹی نظام کی بنیاد ہیں، عدالت نے ماضی میں پارٹی پالیسی سے انحراف روکنےکی آبزرویشن دی، عدالت نے کہا مسلم لیگ بطورجماعت کام نہ کرتی اور مسلم لیگ ارکان آزادانہ الیکشن لڑتے تو توپاکستان نہ بن پاتا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 63،62 کو الگ الگ نہیں، ساتھ تسلسل میں پڑھا جاسکتا ہے ، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس لئے بھی ملا کر پڑھناچاہئےکہ یہ آرٹیکلز نااہلیت کی بات کررہے ہیں تو جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ جنرل الیکشن میں عوام کے ووٹ،پارلیمنٹ میں رکن کے ووٹ میں فرق ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا عدالتی فیصلے میں دی گئی آبزرویشن بہت اہمیت کی حامل ہے تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عوام کامینڈیٹ ایوان میں اجتماعی حیثیت میں سامنے آتا ہے، سیاسی جماعتیں عوام کےلیےایوان میں قانون سازی کرتی ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ووٹ کا حق اراکین اسمبلی کو ہے نہ پارٹی اراکین کو، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا 4 مواقع پر اراکین اسمبلی کی پارٹی ڈسپلن کی پابندی لازمی ہے، پارٹی ڈسپلن کی پابندی لازمی بنانے کے لیے آرٹیکل 63 اے لایا گیا۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں ادارے ہیں ،ڈسپلن کی خلاف ورزی سے ادارے کمزور ہوتے ہیں، پارٹی لائن کی پابندی نہ ہو توسیاسی جماعت تباہ ہو جائے گی۔

اٹارنی جنرل نے کہا 1985میں غیر جماعتی بنیاد پر الیکشن ہوئے تھے، محمد خان جونیجو کووزیراعظم بننے کے لیے پارٹی صدر بننا پڑا تھا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کے سیاسی اور قانونی محرکات الگ ہیں، سیاسی اثرتو یہ ہے کہ رکن کو دوبارہ ٹکٹ نہیں ملے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کیا اراکین پارٹی کیساتھ اپنے حلقوں کو جوابدہ نہیں ؟ پارٹی ڈسپلن کی پابندی کس کس حد تک ہے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پارٹی میں بات نہ سنی جا رہی ہو تومستعفی ہوا جا سکتا ہے، مستعفی ہوکر رکن اسمبلی دوبارہ عوام میں جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا امیدواروں کو پتہ ہوتا ہے وہ کب آزادی سے ووٹ نہیں دے سکتے، دوسری کشتی میں چھلانگ لگانے والے کو سیٹ سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ایم این اے پارٹی کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو نا اہل قرار پائے گا ، وزیر اعظم کی درخواست، اسپیکر ریفرنس کے بعد نااہلی کا اختیار الیکشن کمیشن کو ہی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا کسی رکن کو پارٹی کے خلاف فیصلے کے اظہار کا حق ہے؟ کیا دوسری کشتی میں چھلانگ لگا کر حکومت گرائی جاسکتی ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے بیشتر جمہوری حکومتیں چندووٹوں کی برتری سےقائم ہوتی ہیں، کیا دوسری کشتی میں جاتے جاتے پہلا جہاز ڈبویا جا سکتا ہے؟ جسٹس منیب اختر کا بھی کہنا تھا کہ چھلانگیں لگتی رہیں تومعمول کی قانون سازی بھی نہیں ہوسکتی۔

عدالت نے کہا آرٹیکل 63 اے سے انحراف پر آئین نے نااہلی کاایک طریقہ کار دیا گیا ہے، اب پنڈورا باکس کھل گیا تو میوزیکل چیئر ہی چلتی رہے گی، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ معاملہ صرف 63 اے کی تلوار کا نہیں پورا سسٹم ناکام ہونے کا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے سب نے اپنی مرضی کی توسیاسی جماعت ادارہ نہیں ہجوم بن جائے گی، انفرادی شخصیات کو طاقتور بنانے سے ادارے تباہ ہو جاتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ ہارس ٹریڈنگ روکنے کے سوال پر نہیں جاؤں گا، معاملہ پارلیمنٹ پر ہی چھوڑنا چاہیے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کیا فلور کراسنگ کی اجازت ترقی یافتہ ممالک میں ہے، کیا آپ پارٹی لیڈر کوبادشاہ سلامت بنانا چاہتے ہیں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کسی کوبادشاہ نہیں تولوٹا بھی نہیں بنانا چاہتے ، مغرب کے بعض ممالک میں فلور کراسنگ کی اجازت ہے، مغرب میں کرسمس سے پہلے قیمتیں کم ہوجاتی ہیں، یہاں رمضان سے پہلے مہنگائی ہو جاتی ہے، ہر معاشرے کے اپنے ناسور ہوتے ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا سیاسی جماعتوں کے اندر بحث ہوتی ہے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس سے زیادہ بحث کیا ہوگی کہ سندھ ہاؤس میں بیٹھ کرپارٹی پر تنقید ہورہی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا جتنا مرضی غصہ ہو پارٹی کیساتھ کھڑے رہنا چاہیے، مغرب میں لوگ پارٹی کے اندر غصے کا اظہار کرتے ہیں، رکن پارلیمنٹ کو ووٹ ڈالنے سےنہیں روکا جا سکتا، نہ ہی آئین میں گنجائش ہے کہ رکن پارلیمنٹ کا ووٹ تسلیم نہ کیا جائے تاہم پارٹی پالیسی کےخلاف ووٹ دینے والے کی اگرنااہلی ہے تواس کی مدت کتنی ہو۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ضمیرکی آواز نہیں کہ اپوزیشن کیساتھ مل جائیں، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ بلوچستان میں اپنے ہی لوگوں نےعدم اعتماد کیا، بلوچستان میں حکومت بدل گئی، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا بلوچستان میں دونوں گروپ باپ پارٹی کےدعویدارتھے، پارٹی ٹکٹ پر اسمبلی آنے والا پارٹی ڈسپلن کاپابند ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ووٹ ڈال کرشمارنہ کیا جانا توہین آمیزہے، آرٹیکل63 اے میں نااہلی کا پورا نظام دیا گیا ہے، اصل سوال اب صرف نااہلی کی مدت کا ہے، آرٹیکل 63 اے کی روح کو نظر انداز نہیں کرسکتے، عدالت کا کام خالی جگہ پر کرنا نہیں ، ایسے معاملات ریفرنس کے بجائے پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہئیں، عدالت نے آرٹیکل 55 کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ہر رکن ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنالے تو نظام کیسے چلے گا، جس پر جسٹس مظہر عالم نے کہا آرٹیکل 63 فور بہت واضح ہے ، آرٹیکل 63 فور کے تحت ممبر شپ ختم ہونانااہلی ہے تو اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ اصل سوال ہی آرٹیکل 63 فور واضح نہ ہونے کا ہے، خلاف آئین انحراف کرنے والے کی تعریف نہیں کی جاسکتی ، جو آئین میں نہیں لکھا اسے زبردستی نہیں پڑھا جاسکتا ،آرٹیکل 62 ون ایف کہتا ہے رکن کوایماندار اور امین ہونا چاہیے۔

اٹارنی جنرل نے سوال کیا کیا پارٹی سے انحراف کرنے پر انعام ملنا چاہیے، کیا خیانت کرنے والے امین ہو سکتے ہیں، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا آرٹیکل 95 کے تحت ہر رکن کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے، ووٹ اگر ڈالا جاسکتا ہے تو شمار بھی ہوسکتا ہے، حکومت کے پاس جواب ہے توعدالت سے سوال کیوں پوچھ رہی ہے، اگر اس نقطے سے متفق ہیں تو اس سوال کو واپس لے لیں۔

اٹارنی جنرل نے مزید کہا ووٹ پارٹی کیخلاف ڈالے بغیر آرٹیکل 63اے قابل عمل نہیں ہوگا، جس پر جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن پارٹی سربراہ کی ڈیکلریشن پر کیا انکوائری کرے گا، کیا الیکشن کمیشن تعین کرے گا پارٹی سے انحراف درست ہے یا نہیں، کیا الیکشن کمیشن کا کام صرف یہ دیکھنا ہوگا طریقہ کار پرعمل ہوا یا نہیں۔

اٹارنی جنرل نے جواب میں دیا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف درست نہیں ہوسکتا، کیا پارٹی سے انحراف کرنے پر انعام ملنا چاہیے، کیا خیانت کرنے والے امین ہو سکتے ہیں، ووٹ پارٹی کیخلاف ڈالے بغیر آرٹیکل 63 اے قابل عمل نہیں ہوگا، پارٹی پالیسی سے انحراف درست نہیں ہوسکتا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا آپ کتنے وقت تک دلائل مکمل کرلیں گے تو اٹارنی جنرل نے کہا 2 گھنٹے میں دلائل مکمل کر لوں گا۔

چیف جسٹس نے کہا کل فل کورٹ ریفرنس ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کیا موجودہ ریفرنس کا موجودہ اجلاس سے تعلق ہے، جس پر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ عدالت کو آئین کی تشریح کرنی کرنی پڑے گی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالتی کارروائی کو اسمبلی اجلاس سے منسلک نہ کریں، کیا اس ریفرنس پر فیصلے کی جلدی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا چاہتے ہیں ووٹنگ سے قبل عدالتی رائے آجائے۔

جسٹس عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آئینی اعتبار سے یہ اہم مقدمہ ہے، عدالت کی اصل ترجیح معمول کے مقدمات ہیں، کل نماز جمعہ کے بعد ایک گھنٹہ سماعت کریں گے۔

سپریم کورٹ نے رضا ربانی کو عدالتی معاون بنانے کی استدعا مستردکردی اور کہا آپ سیاسی جماعت کے رہنما ہیں عدالتی معاون نہیں بن سکتے، آپ کا مؤقف ضرور سنیں گے۔

سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس پر سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

گذشتہ روز اٹارنی جنرل خالد جاوید نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد میں منحرف رکن کا ووٹ شمار ہوگا یا نہیں ، یہ اسپیکر کی صوابدید ہے۔

خالد جاوید کا کہنا تھا کہ منحرف ارکان کا ووٹ چیلنج کر دیا جائے یا متنازع قرار دیا جائے تو ایوان میں اسپیکر کا فیصلہ حتمی ہوگا، جسے عدالت میں چیلنج بھی نہیں کیا جا سکے گا۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ سے مثالیں بھی موجود ہیں۔

منحرف رکن اپنے ڈی سیٹ کے فیصلے کیخلاف عدالت جا سکے گا تاہم صدراتی ریفرنس میں سپریم کورٹ سے منحرف رکن کی تاحیات نااہلی پر رائے لی جارہی ہے۔

یاد رہے سپریم کورٹ نے آرٹیکل63اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر لارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو صدارتی ریفرنس پر نوٹس جاری کر دیئے تھے۔

وزارت خزانہ کی آئی ایم ایف سے مذاکرات پر قیاس آرائیوں سے گریز کی ہدایت

0

اسلام آباد : وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف سے مذاکرات پر قیاس آرائیوں سے گریز کی ہدایت کردی اور کہا حکومت ستمبر میں آئی ایم ایف پروگرام مکمل کرنے کیلئے پُرعزم ہے۔

تفصیلات کے مطابق وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف توسیع فنڈ جائزے پر قیاس آرائیوں سے گریز کی ہدایت کرتے ہوئے اعلامیہ جاری کردیا۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ 7 ویں جائزے کے تحت مذاکرات منصوبہ بندی کےمطابق جاری ہیں، فریقین کی ورچوئل میٹنگز، ڈیٹا شیئرنگ کی تکنیکی سطح پر جاری ہے۔

وزارت خزانہ نے کہا کہ جائزے کا محور اہداف، اعلان کردہ ریلیف، صنعتی فروغ کے پیکجز پر مرکوزہے، اس بات پراتفاق ہے دسمبر کے آخرتک طے شدہ اہداف حاصل کرلیے ہیں۔

اعلامیے کے مطابق ریلیف پیکج پرتفصیلات ،فنانسنگ آپشنزکوآئی ایم ایف سے شیئر کیا گیا، آئی ایم ایف نےچنددنوں میں صنعتی پیکج پرمزیدبات چیت کاعندیہ دیا ہے ، حالیہ بات چیت کے بعد مذکورہ پیکیج پر مفاہمت کی توقع ہے۔

وزارت خزانہ کا کہنا تھا کہ 7ویں جائزے کیلئے میمورنڈم اکنامک اور فنانشل پالیسیز کا متن زیر بحث آئے گا، حکومت کو یقین ہے اپریل کےآخرمیں آئی ایم ایف بورڈکااجلاس ہو گا، حکومت ستمبر میں آئی ایم ایف پروگرام مکمل کرنےکیلئےپرعزم ہے۔