اسلام آباد : سپریم کورٹ میں آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رکن پارلیمنٹ کوووٹ ڈالنے سےنہیں روکا جا سکتا، نہ ہی آئین میں رکن پارلیمنٹ کا ووٹ تسلیم کرنے کی گنجائش ہے، اصل سوال صرف نااہلی کی مدت کا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجربنچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس منیب اختر،جسٹس اعجازالاحسن ، جسٹس مظہرعالم خان،جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آج بھی گزشتہ سماعت والا ہی مسئلہ ہے، مناسب ہو گا کہ وکلا اور دیگر افراد باہر چلے جائیں ، جو کھڑے ہیں لاؤنج سے سماعت سن لیں، اس سے پہلے کہ عدالت کو سختی سے باہرنکالنا پڑے۔
سپریم کورٹ نے چاروں صوبوں ،آئی سی ٹی کوصدارتی ریفرنس میں فریق بناتے ہوئے تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کردئیے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے صدارتی ریفرنس پر دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا سپریم کورٹ بار کی درخواست میں اسپیکر قومی اسمبلی بھی فریق ہیں، عدالت چاہے تو صوبوں کو نوٹس جاری کرسکتی ہے، صوبوں میں موجود سیاسی جماعتیں پہلےہی کیس کا حصہ ہیں۔
عدالت نے صوبائی حکومتوں کو بھی صدارتی ریفرنس پر نوٹس جاری کردیئے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جے یو آئی اور پی آئی ٹی نے ضلعی انتظامیہ سے ملاقات کی، جے یو آئی نے کشمیر ہائی وے پر دھرنے کی درخواست کی ہے، کشمیر ہائی وے اہم سڑک ہے جو راستہ ایئرپورٹ جاتا ہے، کشمیر ہائی وے سے گزر کر تمام جماعتوں کے کارکنان اسلام آباد آتے ہیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ قانون کسی کوووٹنگ سے 48گھنٹے پہلے مہم ختم کرنےکا پابند کرتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت چاہے گی کہ سیاسی جماعتیں آئین کے دفاع میں کھڑی ہوں، معلوم نہیں عدم اعتماد پر ووٹنگ کب ہو گی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جمہوری عمل کا مقصد روزمرہ امورکومتاثر کرنا نہیں ہوتا، وکیل جے یو آئی کامران مرتضیٰ نے کہا کہ درخواست میں واضح کیا ہےکہ قانون پر عمل کریں گے، جلسہ اور دھرنا پرامن ہو گا۔.
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس میں کہا کہ آپ سے حکومت والے ڈرتےہیں، جس پر عدالت میں قہقہے لگے، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جے یو آئی پر امن رہے تو مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا آئی جی اسلام آباد سے بات ہو گئی ہے، پولیس کے اقدامات سے مطمئن ہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اچھی بات ہے پولیس قانون کے مطابق کارروائی کررہی ہے، صوبائی حکومتیں بھی تحریری طور پر جوابات جمع کرائیں ، حریری جوابات پر صدارتی ریفرنس پرسماعت میں آسانی ہوگی۔
عدالت نے کہا کامران مرتضیٰ نے پرامن دھرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس میں دیئے پی ٹی آئی کی جانب سے ڈنڈا بردار ٹائیگر فورس بنانا افسوسناک ہے جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا جے یو آئی بھی اپنے ڈنڈے تیل سے نکالے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تمام جماعتیں جمہوری اقدار کی پاسداری کریں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سندھ ہاؤس میں حکومتی اراکین نے وزیراعظم کیخلاف ووٹ دینے کا کہا، اس سلسلے میں 1992 کے عدالتی فیصلے کا حوالہ دیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ضمیر تنگ کررہا ہے تومستعفی ہو جائیں، 1992کے بعد سے بہت کچھ ہو چکا ہے، بہت کچھ ہوا مگر اس انداز میں وفاداریاں تبدیل نہیں ہوئیں، آرٹیکل 63اے کےتحت اراکین پارٹی ہدایات کے پابند ہیں اور وزیراعظم کے الیکشن ،عدم اعتماد پر ارکان پارٹی پالیسی پر ہی چل سکتے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کیا آرٹیکل 63اے میں نااہلی کا ذکر ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا آرٹیکل 63اے کی ہیڈنگ ہی نااہلی سے متعلق ہے، نااہلی کے لیے آئین میں طریقہ کار واضح ہے، آرٹیکل 63،63،62 اے کوالگ الگ نہیں پڑھاجاسکتا ، عدالت پارلیمانی نظام کو آئین کا بنیادی ڈھانچہ قرار دے چکی۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ آرٹیکل17 اور 18 عام شہریوں کا آزادانہ ووٹ کا حق دیتا ہے، عام شہری اور رکن اسمبلی کےووٹ میں فرق بتانا چا رہے ہیں ، جس پر جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ سینیٹ الیکشن ریفرنس میں بھی یہ معاملہ سامنے آیاتھا تو اٹارنی جنرل نے کہا عام شہری اور اراکین اسمبلی کے ووٹ کیلئے قوانین الگ الگ ہیں۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے کہ سیاسی جماعتیں پارٹی نظام کی بنیاد ہیں، عدالت نے ماضی میں پارٹی پالیسی سے انحراف روکنےکی آبزرویشن دی، عدالت نے کہا مسلم لیگ بطورجماعت کام نہ کرتی اور مسلم لیگ ارکان آزادانہ الیکشن لڑتے تو توپاکستان نہ بن پاتا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 63،62 کو الگ الگ نہیں، ساتھ تسلسل میں پڑھا جاسکتا ہے ، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس لئے بھی ملا کر پڑھناچاہئےکہ یہ آرٹیکلز نااہلیت کی بات کررہے ہیں تو جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ جنرل الیکشن میں عوام کے ووٹ،پارلیمنٹ میں رکن کے ووٹ میں فرق ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا عدالتی فیصلے میں دی گئی آبزرویشن بہت اہمیت کی حامل ہے تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عوام کامینڈیٹ ایوان میں اجتماعی حیثیت میں سامنے آتا ہے، سیاسی جماعتیں عوام کےلیےایوان میں قانون سازی کرتی ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ووٹ کا حق اراکین اسمبلی کو ہے نہ پارٹی اراکین کو، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا 4 مواقع پر اراکین اسمبلی کی پارٹی ڈسپلن کی پابندی لازمی ہے، پارٹی ڈسپلن کی پابندی لازمی بنانے کے لیے آرٹیکل 63 اے لایا گیا۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں ادارے ہیں ،ڈسپلن کی خلاف ورزی سے ادارے کمزور ہوتے ہیں، پارٹی لائن کی پابندی نہ ہو توسیاسی جماعت تباہ ہو جائے گی۔
اٹارنی جنرل نے کہا 1985میں غیر جماعتی بنیاد پر الیکشن ہوئے تھے، محمد خان جونیجو کووزیراعظم بننے کے لیے پارٹی صدر بننا پڑا تھا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کے سیاسی اور قانونی محرکات الگ ہیں، سیاسی اثرتو یہ ہے کہ رکن کو دوبارہ ٹکٹ نہیں ملے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کیا اراکین پارٹی کیساتھ اپنے حلقوں کو جوابدہ نہیں ؟ پارٹی ڈسپلن کی پابندی کس کس حد تک ہے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پارٹی میں بات نہ سنی جا رہی ہو تومستعفی ہوا جا سکتا ہے، مستعفی ہوکر رکن اسمبلی دوبارہ عوام میں جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا امیدواروں کو پتہ ہوتا ہے وہ کب آزادی سے ووٹ نہیں دے سکتے، دوسری کشتی میں چھلانگ لگانے والے کو سیٹ سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ایم این اے پارٹی کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو نا اہل قرار پائے گا ، وزیر اعظم کی درخواست، اسپیکر ریفرنس کے بعد نااہلی کا اختیار الیکشن کمیشن کو ہی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا کسی رکن کو پارٹی کے خلاف فیصلے کے اظہار کا حق ہے؟ کیا دوسری کشتی میں چھلانگ لگا کر حکومت گرائی جاسکتی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے بیشتر جمہوری حکومتیں چندووٹوں کی برتری سےقائم ہوتی ہیں، کیا دوسری کشتی میں جاتے جاتے پہلا جہاز ڈبویا جا سکتا ہے؟ جسٹس منیب اختر کا بھی کہنا تھا کہ چھلانگیں لگتی رہیں تومعمول کی قانون سازی بھی نہیں ہوسکتی۔
عدالت نے کہا آرٹیکل 63 اے سے انحراف پر آئین نے نااہلی کاایک طریقہ کار دیا گیا ہے، اب پنڈورا باکس کھل گیا تو میوزیکل چیئر ہی چلتی رہے گی، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ معاملہ صرف 63 اے کی تلوار کا نہیں پورا سسٹم ناکام ہونے کا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے سب نے اپنی مرضی کی توسیاسی جماعت ادارہ نہیں ہجوم بن جائے گی، انفرادی شخصیات کو طاقتور بنانے سے ادارے تباہ ہو جاتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ ہارس ٹریڈنگ روکنے کے سوال پر نہیں جاؤں گا، معاملہ پارلیمنٹ پر ہی چھوڑنا چاہیے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کیا فلور کراسنگ کی اجازت ترقی یافتہ ممالک میں ہے، کیا آپ پارٹی لیڈر کوبادشاہ سلامت بنانا چاہتے ہیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کسی کوبادشاہ نہیں تولوٹا بھی نہیں بنانا چاہتے ، مغرب کے بعض ممالک میں فلور کراسنگ کی اجازت ہے، مغرب میں کرسمس سے پہلے قیمتیں کم ہوجاتی ہیں، یہاں رمضان سے پہلے مہنگائی ہو جاتی ہے، ہر معاشرے کے اپنے ناسور ہوتے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا سیاسی جماعتوں کے اندر بحث ہوتی ہے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس سے زیادہ بحث کیا ہوگی کہ سندھ ہاؤس میں بیٹھ کرپارٹی پر تنقید ہورہی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا جتنا مرضی غصہ ہو پارٹی کیساتھ کھڑے رہنا چاہیے، مغرب میں لوگ پارٹی کے اندر غصے کا اظہار کرتے ہیں، رکن پارلیمنٹ کو ووٹ ڈالنے سےنہیں روکا جا سکتا، نہ ہی آئین میں گنجائش ہے کہ رکن پارلیمنٹ کا ووٹ تسلیم نہ کیا جائے تاہم پارٹی پالیسی کےخلاف ووٹ دینے والے کی اگرنااہلی ہے تواس کی مدت کتنی ہو۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ضمیرکی آواز نہیں کہ اپوزیشن کیساتھ مل جائیں، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ بلوچستان میں اپنے ہی لوگوں نےعدم اعتماد کیا، بلوچستان میں حکومت بدل گئی، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا بلوچستان میں دونوں گروپ باپ پارٹی کےدعویدارتھے، پارٹی ٹکٹ پر اسمبلی آنے والا پارٹی ڈسپلن کاپابند ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ووٹ ڈال کرشمارنہ کیا جانا توہین آمیزہے، آرٹیکل63 اے میں نااہلی کا پورا نظام دیا گیا ہے، اصل سوال اب صرف نااہلی کی مدت کا ہے، آرٹیکل 63 اے کی روح کو نظر انداز نہیں کرسکتے، عدالت کا کام خالی جگہ پر کرنا نہیں ، ایسے معاملات ریفرنس کے بجائے پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہئیں، عدالت نے آرٹیکل 55 کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ہر رکن ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنالے تو نظام کیسے چلے گا، جس پر جسٹس مظہر عالم نے کہا آرٹیکل 63 فور بہت واضح ہے ، آرٹیکل 63 فور کے تحت ممبر شپ ختم ہونانااہلی ہے تو اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ اصل سوال ہی آرٹیکل 63 فور واضح نہ ہونے کا ہے، خلاف آئین انحراف کرنے والے کی تعریف نہیں کی جاسکتی ، جو آئین میں نہیں لکھا اسے زبردستی نہیں پڑھا جاسکتا ،آرٹیکل 62 ون ایف کہتا ہے رکن کوایماندار اور امین ہونا چاہیے۔
اٹارنی جنرل نے سوال کیا کیا پارٹی سے انحراف کرنے پر انعام ملنا چاہیے، کیا خیانت کرنے والے امین ہو سکتے ہیں، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا آرٹیکل 95 کے تحت ہر رکن کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے، ووٹ اگر ڈالا جاسکتا ہے تو شمار بھی ہوسکتا ہے، حکومت کے پاس جواب ہے توعدالت سے سوال کیوں پوچھ رہی ہے، اگر اس نقطے سے متفق ہیں تو اس سوال کو واپس لے لیں۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا ووٹ پارٹی کیخلاف ڈالے بغیر آرٹیکل 63اے قابل عمل نہیں ہوگا، جس پر جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن پارٹی سربراہ کی ڈیکلریشن پر کیا انکوائری کرے گا، کیا الیکشن کمیشن تعین کرے گا پارٹی سے انحراف درست ہے یا نہیں، کیا الیکشن کمیشن کا کام صرف یہ دیکھنا ہوگا طریقہ کار پرعمل ہوا یا نہیں۔
اٹارنی جنرل نے جواب میں دیا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف درست نہیں ہوسکتا، کیا پارٹی سے انحراف کرنے پر انعام ملنا چاہیے، کیا خیانت کرنے والے امین ہو سکتے ہیں، ووٹ پارٹی کیخلاف ڈالے بغیر آرٹیکل 63 اے قابل عمل نہیں ہوگا، پارٹی پالیسی سے انحراف درست نہیں ہوسکتا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا آپ کتنے وقت تک دلائل مکمل کرلیں گے تو اٹارنی جنرل نے کہا 2 گھنٹے میں دلائل مکمل کر لوں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کل فل کورٹ ریفرنس ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کیا موجودہ ریفرنس کا موجودہ اجلاس سے تعلق ہے، جس پر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ عدالت کو آئین کی تشریح کرنی کرنی پڑے گی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالتی کارروائی کو اسمبلی اجلاس سے منسلک نہ کریں، کیا اس ریفرنس پر فیصلے کی جلدی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا چاہتے ہیں ووٹنگ سے قبل عدالتی رائے آجائے۔
جسٹس عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آئینی اعتبار سے یہ اہم مقدمہ ہے، عدالت کی اصل ترجیح معمول کے مقدمات ہیں، کل نماز جمعہ کے بعد ایک گھنٹہ سماعت کریں گے۔
سپریم کورٹ نے رضا ربانی کو عدالتی معاون بنانے کی استدعا مستردکردی اور کہا آپ سیاسی جماعت کے رہنما ہیں عدالتی معاون نہیں بن سکتے، آپ کا مؤقف ضرور سنیں گے۔
سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس پر سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
گذشتہ روز اٹارنی جنرل خالد جاوید نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد میں منحرف رکن کا ووٹ شمار ہوگا یا نہیں ، یہ اسپیکر کی صوابدید ہے۔
خالد جاوید کا کہنا تھا کہ منحرف ارکان کا ووٹ چیلنج کر دیا جائے یا متنازع قرار دیا جائے تو ایوان میں اسپیکر کا فیصلہ حتمی ہوگا، جسے عدالت میں چیلنج بھی نہیں کیا جا سکے گا۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ سے مثالیں بھی موجود ہیں۔
منحرف رکن اپنے ڈی سیٹ کے فیصلے کیخلاف عدالت جا سکے گا تاہم صدراتی ریفرنس میں سپریم کورٹ سے منحرف رکن کی تاحیات نااہلی پر رائے لی جارہی ہے۔
یاد رہے سپریم کورٹ نے آرٹیکل63اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر لارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو صدارتی ریفرنس پر نوٹس جاری کر دیئے تھے۔