لاہور :تحریک انصاف کے وکیل نے استدعا کی پچیس ووٹ کم ہونےکےبعدوزیراعلیٰ پنجاب کاالیکشن غیرقانونی ہے ، عدالت دوبارہ الیکشن کرانےکاحکم دے، جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ ہم اس کوریورس کررہےہیں تو الیکشن سولہ اپریل کی لسٹ پرہوگا۔
تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں حمزہ شہبازکی حلف برداری کے خلاف دائر اپیلوں پر سماعت ہوئی ، جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں 5رکنی بینچ نے سماعت کی۔
وکیل حمزہ شہباز نے کہا کہ سپریم کورٹ نےقومی اسمبلی میں عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کروانے پراز خودنوٹس لیا، سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق وزیر اعلیٰ کے الیکشن پر نہیں ہو گا، وزیراعلیٰ کے الیکشن کا معاملہ سپریم کورٹ میں نہ تھا، سپریم کورٹ نے 63 اے پر فیصلہ دیا۔
جس پر عدالت نے کہا سپریم کورٹ کےفیصلےپرعمل درآمد کون کرےگااور کس طرح ہوگا ، وکیل حمزہ شہباز کا کہنا تھا کہ عدالت عمل درآمد کے لیےڈپٹی اسپیکر کوکہے گی دوبارہ الیکشن کرانےکا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ہم صرف سپریم کورٹ کےفیصلےپرعمل درآمدکی حد تک فیصلہ دیں گے ، دیکھناہےسپریم کورٹ نےپنجاب کے الیکشن کوعدالتی فیصلےکےتابع کیاتھا۔
وکیل پی ٹی آئی نے کہ پنجاب کی وزارت اعلی کےالیکشن میں حمزہ اورپرویز الٰہی میدان میں تھے، 186ووٹ رکھنے والا وزیراعلی ٰبن سکتا تھا، جس پر عدالت نے استفسار کیا حمزہ کے197ووٹوں سے25 نکال دیے جائیں توکیا صورتحال ہو گی ؟
عدالت کا کہنا تھا کہ اجلاس 16 اپریل پرلے جائیں اورپولنگ دوبارہ ہو توبحران سے کیسےبچاجاسکتا ہے، ایسی صورت میں پولنگ وہی پریزائڈنگ افسر کرائےگا جس نے 16 تاریخ کو کرائی، وکیل تحریک انصاف نے بتایا کہ ہم نے ڈپٹی اسپیکر کے ذریعے پولنگ کو بھی چیلنج کیا ہے۔
عدالت نے واضح کیا کہ الیکشن ڈپٹی اسپیکر ہی کرائےگا،لاہورہائیکورٹ کافیصلہ موجودہےجسےچیلنج نہیں کیاگیا، اگر ہم 16 تاریخ پرواپس چلے جائیں اور اسکو ختم کر دیں توبحران ہو جائے گا، اگر ہم سب کچھ رئیوانڈکر دیں اوراجلاس وہیں سے شروع ہو گا جہاں سے ووٹنگ ہوئی۔
وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے مزید کہا کہ 25 ووٹ کم ہونے کے بعد وزیراعلیٰ کاالیکشن غیر قانونی ہے ، عدالت دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم دے اور دس روز کا وقت دے، کیونکہ جنہوں نے ووٹ دیا تھا وہ اب رکن نہیں رہے ،دوبارہ الیکشن ہو گا تو 5مخصوص نشستوں پر نوٹی فکیشن جاری ہو رہا ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ہم تو اس کو ریورس کر رہے ہیں تو الیکشن تو اسی دن کی لسٹ پر ہو گا ،5مخصوص نشستیں بھی انہیں 25 میں شامل ہیں ، اگر 16 اپریل والےالیکشن میں سے 25 نکال دیں ؟ یہ نئے 5ووٹ آئندہ الیکشن کے لیےووٹ کے اہل ہوں گے، ہمارے پاس کیس ہے کیا وزیراعلیٰ کے الیکشن پر اس کااطلاق ہو گا یا نہیں۔
علی ظفر نے کہا کہ اگر ہم 16 تاریخ کوواپس جاتے ہیں تواس دن حمزہ شہبازوزیراعلیٰ نہیں تھے، 16 اپریل کو عثمان بزدارنگران وزیراعلیٰ تھے ، جس پر جسٹس صداقت علی خان کا کہنا تھا کہ ہمیں سپریم کورٹ کےفیصلے پرعمل درآمد کرنا ہے ، پریزائیڈنگ افسرکی ذمےداری ہےتعین کرے 16اپریل کو حمزہ کو اکثریت حاصل ہے یا نہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ نے صرف یہ کہا یہ ووٹ منفی کیے جائیں، سپریم کورٹ نے یہ نہیں کہا پہلے ڈی نوٹی فائی کریں پھرووٹ شمار نہیں ہوگا، سپریم کورٹ نے کہیں نہیں کہا یہ الیکشن کالعدم ہو گا۔
عدالت نے استفسار کیا کل دوبارہ تاریخ دیں گے اور حمزہ دوبارہ اکثریت حاصل کرلے تو پھر کیاہو گا ؟ ابھی تو کچھ پتہ نہیں چل رہا کون کہاں جا رہا ہے ؟ آپ کہہ رہے ہیں ووٹ اتنےہیں جس میں وزیراعلیٰ اکثریت نہیں رکھتے ،آپ کامؤقف ہےکہ دوبارہ الیکشن ہوں اور آپ کہہ رہے ہیں جو 5نوٹیفائی ہوں گےوہ گزشتہ تاریخ میں ووٹ کیسےدیں گے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت نےقرار دیا پہلے ہی بحران ہےلہذا اس کے خاتمےکے لیے وقت دیا جائے، ایسا نہیں ہے وہ 5لوگ اس الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں، جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے جو نوٹی فائی ہو گا وہ 16 اپریل کو کیسے ووٹ دے سکتا ہے، گورنر سمجھتا ہے الیکشن ٹھیک نہیں تو آئندہ دن ہی اعتماد کے ووٹ کا کہہ سکتا ہے،ہم نے اسے 16 اپریل پر کرانا ہے اس کے بعد 5 بندے آئیں اور آپ اکثریت حاصل کر لیں۔
وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ ہم یہ نہیں کر سکتے کہ 25 ارکان کو واپس لائیں، دیکھنا ہے کہ اب الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے لیے کون موجود ہو گا اگر اس دن یہ نئے مخصوص نشستوں والے موجود ہوں توووٹ ڈال سکیں گے، عدالت کو الیکشن کے لیے وقت دینا پڑے گا تاکہ دونوں امیدوار مہم چلاسکیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ وقت تو ایڈووکیٹ جنرل شہزاد شوکت صاحب نے بھی مانگا ہے تو وکیل پی ٹی آئی نے کہا اگر آپ ری پول کےلیےبھیجیں گے تو مطلب حمزہ شہباز وزیر اعلی نہیں بنے، جس پر وکیل ق لیگ کا کہنا تھا کہ الیکشن عدالتی حکم کے مطابق نہیں ہوا۔
عدالت نے کہا عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہوئی تو توہین عدالت کی درخواست کیوں نہیں دی گئی ، عامر سعید راں نے بتایا کہ سلیم بریار کاووٹ کاسٹ ہی نہیں ہوا اور اس کا ووٹ کاسٹ دکھایا گیا، جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ اس کےلیےتو شہادت چاہیے دوبارہ الیکشن ہوتو وہ ووٹ کاسٹ کردیں جاکر۔
وکیل کا کہنا تھا کہ پہلےجس ڈپٹی سپیکر نےایسا الیکشن کرایا وہ اب کیسےشفاف الیکشن کرائیں گے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کوبریف کرنا ہےمجھے ایک دن کی مہلت دی جائے ، وزیر اعلیٰ پنجاب سے آج ہی ملاقات کرکے بریف کر دوں گا۔
جسٹس صداقت علی خان نے کہا کہ کچھ دیرمیں بتاتےہیں کہ وقت دیتےہیں یانہیں، بعد ازاں عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی ایک دن کی مہلت کی استدعا منظور کرتے ہوئے حمزہ شہاز حلف برداری کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔