پیر, جون 24, 2024
ہوم بلاگ صفحہ 6318

عمران خان کو تحفے میں ملنے والی گھڑی کے ملک اور بیرونِ ملک چرچے

0

اسلام آباد : سابق وزیراعظم عمران خان کو تحفے میں ملنے والی گھڑی کے ملک اور بیرونِ ملک چرچے ہورہے ہیں ، اس سے قبل دیگر ممالک کے حکمرانوں کی بھی قیمتی گھڑیاں منظرِ عام پر آچکی ہیں۔

تفصیلات کے مطابق سابق وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان کو تحفے میں ملنے والی گھڑی کے ملک اور بیرونِ ملک چرچے ہورہے ہیں۔

سابق وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان کو تحفے میں ملنے والی نایاب اور منفرد گھڑی نے طوفان برپا کر رکھا ہے، گھڑی کو کیوں ا ور کہاں بیچا خریدار کون تھا؟رقم کس نے وصول کی ، یہ وہ سوالات ہیں جس آجکل پاکستانی سیاست میں خوب چرچے ہیں۔

ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہواکہ لگژری گھڑیاں ا ور اس سے منسلک تنازعہ نے کسی سیاسی شخصیت کو توجہ کا مرکز بنایا ہو ، پاکستان اور دیگر ممالک کے حکمرانوں کی بھی قیمتی گھڑیاں منظرِ عام پر آچکی ہیں۔

سال 2013 میں نواز شریف کی حکومت نے جون میں پہلا بجٹ پیش کیا تو حزبِ اختلاف کی رکن شازیہ مری نے کہا تھا کہ جماعت سے ایسے ہی بجٹ کی توقع تھی جس کے رہنما چھیالیس لاکھ ڈالر کی گھڑی پہنتے ہیں۔

شازی مری کے اس دعوے نے اسپیکر ایاز صادق سمیت اسمبلی میں سب کو حیران کر دیا، نواز شریف کی گھری کے بارے میں کہا گیا کہ یہ ان واحد گھڑیوں میں سے ایک ہے جس میں شہابِ ثاقب کے ٹکڑے جڑے ہیں۔

سال 2015 میں روسی صدر ولادمیر پیوٹن کے ترجمان دمتری پیسکوف کی شادی پر 18 قیراط سونے کی گھڑی موضوعِ بحث رہی، دمیتری پیسکوف نے جو گھری پہنی اس کے مالیت تین لاکھ پاؤنڈ تھی۔

دوہزار پندرہ میں نائجیریا کے صدر محمد وبوحاری کی اہلیہ نے 18 قیرط سونے اور بیش قیمتی ہیروں کی گھڑی ایک تقریب میں پہنی ہوئی تھی، کہا جاتا ہے کہ اس گھڑی کی مالیت تیس لاکھ پاؤنڈ سے زئاد قیمت کی تھی۔

سال 2012 میں چینی سیاستدان یانگ دکائی کی لگژری واچ کلیکشن کا عوام میں خوب چرچا رہا، لوگوں نے یہ سوال کرنا شروع کر دیا کہ اتنی معمولی تنخواہ پر وہ اتنی مہنگی گھڑیاں کیسے خرید پا رہے ہیں، دکائی پر بد عنوانی کے سنگین الزامات لگے اور بعد میں انکو قید کی سزا سنائی گئی۔

اسی طرح 2018 میں تھائی لینڈ کے نائب وزیرِ اعظم جنرل پروات پر سوشل میڈیا پر خوب تنقید کی گئی، جب انہیں کابینہ اجلاس کی تصویر میں ہیرے کی انگوٹھی اور مہنگی گھڑی پہنے دیکھا گیا۔

تھائی صارفین نے اس کے بعد ان دیگر پچیس گھڑیوں کی نشاندہی کی جو سابقہ جنرل نے ماضی میں پہنی تھیں، مگر عہدہ سنبھالنے پر اُن اثاثو کو ظاہر نہیں کیا تھا۔

سال 2016 دوہزار سولہ میں بھارتی ریاست کرناٹکا کے وزیرِ اعلی سدرامایا کی ستر لاکھ روپے مالیت کی سوئس گھڑی سے متعلق سوالات کیے گئے، جزبِ اختلاف نے اس معاملہ کو اسمبلی میں اٹھایا اور تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

بعد میں وزیرِ اعلی نے بتایا کی انہیں گھڑی انے ڈاکٹر دوست نے تحفے میں دی تھی جو مشرقِ وسطی میں کام کرتے ہیںم، مایا نے گھڑی کو سرکاری اثاثوں میإ جمع کرادیا تھا اور کہا تھا کہ اب کھبی نہیں پہنیں گے۔

سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان کی جانب سے تحفے میں ملنے والی اس گھڑی کو توشہ خانہ میں رکھا گیا تھا، توشہ خانہ کے تحفوں کی فروخت ہونے والی آمدن کو مبینہ طور پر اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے پر الیکشن کمیشن نے عمران خان کو ناہل قرار دیا تھا۔

’نواز شریف تو چاہتا ہے عمران خان کو کسی طرح فارغ کرو‘

0

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ نواز شریف تو چاہتا ہے کہ کسی طرح عمران خان کو فارغ کرو۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان نے گوجر خان اور چکوال میں حقیقی آزادی مارچ کے شرکا سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف نے تو اپنے امپائر کھڑے کرکے میچ کھیلا تھا، الیکشن کمیشن تو پہلے ہی اس کا ہے۔

انہوں نے نواز شریف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب تک اس کو یقین نہ ہو کہ الیکشن جیت جائے گا تو تب تک یہ الیکشن نہیں کروائے گا۔

عمران خان نے کہا کہ انشا اللہ کل بتاؤں گا کہ لانگ مارچ کب راولپنڈی پہنچے گا۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ جب سے یہ آٗئے ہیں پہلے سوات میں عوام باہر نکل آئی، وہاں جو ہوا اس کے بعد دہشت گردی میں اضافہ ہوا، ان کا مقصد صرف یہی ہے کہ ان کے کیسز اور پی ٹی آئی ختم ہوجائے۔

انہوں نے کہا کہ کے پی میں لوگوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی قربانیاں دیں، دہشت گردی بڑھتی جارہی ہے سوچنا چاہیے یہ حکومت کیا کررہی ہے، فوری الیکشن ہونے چاہئیں اور اس حکومت کو جانا چاہیے ۔

عمران خان نے کہا کہ ہمارے دور میں ریکارڈ چار فصلوں کی پیداوار ہوئی، ہم نے کسانوں کو فصلوں کی پوری قیمت دلائی تھی، کسانوں کو گنے کی اتنی قیمت کبھی نہیں ملی جتنی ہمارے دور میں ملی۔

انہوں نے مزید کہا کہ شہباز شریف کے ترقیاتی منصوبے صرف اخباروں میں ہوتے ہیں ان سے پوچھا جائے کہ 1800 ارب روپے کہاں گئے۔

توشہ خانہ کیس : نیب کا عمران خان کے خلاف کارروائی کا عندیہ

0

اسلام آباد : قومی احتساب بیورو ( نیب) نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان، فرح خان، شہزاد اکبر اور زلفی بخاری سمیت دیگر کیخلاف کارروائی کا عندیہ دے دیا۔

تفصیلات کے مطابق نیب نے توشہ خانہ کیس میں کارروائی کا عندیہ دے دیا، نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب توشہ خانہ کیس میں تمام مرکزی کرداروں کے خلاف کارروائی شروع کرے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ توشہ خانہ کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان،فرح خان، شہزاداکبر، زلفی بخاری سمیت دیگر کیخلاف کارروائی کی جائے گی۔

یاد رہے قومی احتساب بیورو (نیب) نے نیب نے کابینہ ڈویژن اور سرکاری توشہ خانے سے عمران خان کے تحائف کا ریکارڈ حاصل کر لیا اور کیس کی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔

نیب ذرائع کا کہنا تھا کہ عمران خان کی جانب سے توشہ خانہ سے تحائف لیتے ہوئے اشیا کے کم ریٹ لگائے جانے کا انکشاف ہوا ہے، عمران خان کی توشہ خانہ سے لی گئی تین گھڑیوں کی خریداری میں اپریزر رپورٹ بھی مشکوک قرار دے دی گئی۔

نیب ذرائع کے مطابق عمران خان کی جانب سے تین قیمتی گھڑیوں گراف اور رولیکس کی انڈر انوائسنگ کا انکشاف ہوا ہے، توشہ خانہ سے تحائف خریدتے ہوئے عمران خان نے رقوم کی ادائیگی بھی کسی اور کے اکاؤنٹ سے کی۔

عمران خان کو ملنے والی گھڑی خریدنے کا دعویٰ کرنے والے عمر فاروق سے متعلق اہم انکشاف

0

اسلام آباد : سابق وزیراعظم عمران خان کو ملنے والی گھڑی خریدنے کا دعویٰ کرنے والے عمر فاروق پر پاکستان میں آٹھ ایف آئی آرز درج ہونے کا انکشاف ہوا۔

تفصیلات کے مطابقعمران خان کو ملنے والی گھڑی خریدنےکا دعویٰ کرنےوالے عمرفاروق خود داغدار ماضی کے حامل نکلے۔

عمر فاروق پر پاکستان میں آٹھ ایف آئی آرز درج ہونے کا انکشاف سامنے آیا ، کئی برسوں سے اداروں کو مطلوب عمر فاروق ظہور کے ماضی میں ریڈوارنٹس بھی جاری ہوچکے ہیں۔

اے آر وائی نیوز نے جعل سازی، فراڈ کے ثبوت حاصل کرلیے ،دستاویزات میں بتایا گیا کہ پاکستان کی وزارت خارجہ رواں برس بائیس جنوری تک عمر فاروق کی حوالگی کا مطالبہ کرتی رہی، اماراتی حکام کو کئی مراسلے لکھے گئے۔
.
عمر فاروق پاکستان میں درج کسی ایک مقدمے میں بھی پیش نہیں ہوئے جبکہ انسانی اسمگلنگ کے الزام پر اب بھی کارروائی جاری ہے۔

خیال رہے سابقہ اہلیہ نے عمر فاروق پر بیٹیاں اغوا کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ جعلی پاسپورٹ بنواکر بچیوں کا پاکستان سے لے جایا گیا

جعل سازی، فراڈ اور دیگر الزامات سے داغدار ، تاجر عمر فاروق پی ٹی آئی قیادت پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔

اکسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

0

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

’’آؤ آؤ … تم مجھے نہیں پکڑ سکتے۔‘‘ فیونا ان کا منھ چڑانے لگی۔ دانیال کی آنکھیں خوف سے بھر گئیں۔ وہ ڈری ڈری آواز میں بولا: ’’فیونا یہ کیا کر رہی ہو، دیکھو وہ تمھارے قریب آ رہے ہیں۔‘‘

فیونا سیٹی سے مشابہ آواز میں مسلسل گنگنا رہی تھی، اچانک ایک پرندہ غار کے اوپر بنے دہانے سے اندر آیا۔ دانیال نے مڑ کر دیکھا تو دوسرا پرندہ بھی آ گیا، اور اس کے بعد ذرا سی دیر میں غار پفن نامی پرندوں سے بھر گیا۔ دانیال کے چہرے پر پہلے حیرت کے آثار چھائے اور پھر وہ مسرت سے کھل اٹھا۔ پرندوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ نے ذرا ہی دیر میں درندوں کو پاگل سا کر دیا۔ ایسے میں فیونا نے چیخ کر دانیال سے کہا کہ وہ جلدی سے جا کر جبران کو چھڑا کر لائے۔ فیونا اور جوش سے گانے لگی اور پرندوں سے مخاطب ہو کر حکم دیا: ’’ٹرالز پر حملہ کر دو۔‘‘ پرندوں نے اشارے کی سمت میں دیکھا اور ٹرالز پر حملہ آور ہو گئے۔ جبران پر پہرہ دینے والا ٹرال بھی دیگر ٹرالز کے ساتھ شامل ہو گیا تھا۔ وہ سب غرا کر پرندوں کو ہٹانے کی کوشش کرنے لگے جب کہ پرندے ان کی ناکوں، آنکھوں، کانوں اور جگہ جگہ نوچنے لگے تھے۔ دانیال دوڑ کر جبران کے پاس پہنچ گیا، جبران نے کہا: ’’جلدی کھولو دانی، ٹرال کے واپس آنے سے پہلے مجھے آزاد کر دو۔‘‘

دانیال نے رسی کھول دی۔ دونوں اٹھ کر سرنگ میں فیونا کے پاس آ گئے۔ ’’بہت خوب، کیسے ہو جبران؟‘‘ فیونا اپنی ترکیب کامیاب ہوتے دیکھ کر چہک اٹھی۔ جبران نے پوچھا: ’’حیرت ہے فیونا، یہ پرندے تو ٹرالز پر دشمنوں کی طرح حملہ کر رہے ہیں، تم نے یہ سب کیسے کیا؟‘‘

’’میرے خیال میں کنگ کیگان نے مجھے یہ دھن سکھائی ہے۔‘‘ فیونا دھن سنانے لگی۔

درندے نہایت غصے کی حالت میں دیگر سرنگوں کی طرف بڑھنے لگے تاکہ باہر نکل سکیں۔ فیونا نے چلا کر پرندوں سے کہا کہ ان کے غار سے نکلنے تک درندوں کو نہ چھوڑیں۔ اور پفن پرندے خوف زدہ ٹرالز کو بدستور کاٹتے نوچتے رہے۔

فیونا نے دونوں سے کہا کہ اب جتنی جلدی ہو سکے انھیں غار کے علاقے سے چلے جانا چاہیے، لیکن سب سے پہلے مرجان حاصل کرنا ہے۔ دانیال نے جبران کو بتایا کہ انھوں نے مرجان کو تقریباً نکال ہی لیا تھا کہ اچانک زلزلہ آ گیا۔ جبران نے بھی کہا اس نے بھی زلزلے کو محسوس کیا تھا لیکن ٹرالز بالکل اس پر پریشان نہیں ہوئے تھے، اس نے کہا کہ شاید یہ ان کے لیے معمول کی بات ہو۔ فیونا انھیں دوبارہ اسی مقام پر لے گئی جہاں مرجان موجود تھے، لیکن اب وہاں ایک بڑے پتھر نے سوراخ کو بند کر دیا تھا۔ تینوں نے مل کر زور لگایا اور آخر کار پتھر کو ہٹا دیا۔ فیونا بولی: ’’یہی ہے وہ سوراخ جس کے اندر مرجان ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جیسے ہی اسے اٹھانے کی کوشش کریں گے، زلزلہ آ جائے گا۔ تو ایسے میں کیا کیا جائے؟‘‘

’’میرے خیال میں مرجان اٹھا کر اندھا دھند بھاگ جاتے ہیں۔‘‘ جبران بولا، لیکن دانیال نے فوراً مداخلت کی: ’’لیکن یہاں تیسرا پھندا بھی تو ہے۔‘‘ فیونا نے جواب دیا: ’’وہ تو جب سامنے آئے گا تو اس وقت ہی اس کے ساتھ بھی دیکھ لیں گے، فی الوقت مجھے جبران کی بات درست لگ رہی ہے۔ دانی، تم جیسے ہی مرجان اٹھالو گے ہم سب فوری دوڑ لگا لیں گے اور جتنا تیز بھاگ سکتے ہیں، اتنی تیزی سے بھاگیں گے۔ مجھے امید ہے کہ چھت ہم پر نہیں گرے گی۔‘‘

’’کیا تم تیار ہو؟‘‘ جبران نے دانیال کی طرف دیکھا۔ دانیال نے سر ہلایا، گہری سانس لی، اور پھر بیٹھ کر سوراخ میں ایک بار پھر ہاٹھ ڈال دیا۔ فیونا نے جبران کو اپنی طرف کھینچ لیا اور کہا: ’’جیسے وہ پتھر اٹھاتا ہے، تم نے دوڑ لگانی ہے اور پیچھے مڑ کر ہرگز نہیں دیکھنا۔‘‘

دانیال نے اپنی انگلیوں پر مرجان کو محسوس کیا۔ ’’میں نے اسے پکڑ لیا ہے لیکن جیسے ہی میں اسے باہر کھینچوں گا ہم مر جائیں گے۔‘‘

’’نہیں … ہم نہیں مریں گے، تم اسے نکال لو۔‘‘ فیونا مضبوط لہجے میں بولی۔ دانیال نے ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کیں اور پھر کھول کر مرجان کو مٹھی میں دبایا اور ایک جھٹکے سے ہاتھ باہر کھینچ لیا۔

زمین کو شدید جھٹکا لگا۔ اور غار میں زبردست گڑگڑاہٹ ہونے لگی۔ غار کی چھت سے سیاہ لاوے کے بڑے بڑے ٹکڑے گرنے لگے۔ اور وہ تینوں ان سے بچنے کے لیے اندھا دھند بھاگتے ہوئے غار کے دہانے کی طرف بڑھنے لگے۔ زمین مسلسل ہل رہی تھی، اس لیے وہ دوڑتے دوڑتے بری طرح لڑکھڑا رہے تھے۔ اس دوران زمین سے نوکیلے پتھر بھی نکل آئے تھے، اور ان کے پیچھے دھول کا ایک بادل چکر کاٹتا چلا آ رہا تھا۔

’’ہم مرنے والے ہیں۔‘‘ جبران نے خوف سے چلا کر کہا لیکن اس نے دوڑنا بند نہیں کیا۔ ان کے پیچھے زبردست دھماکے ہونے لگے تھے، غار کی چھت جگہ جگہ سے منہدم ہو رہی تھی۔ عین اسی لمحے جب وہ غار کے دہانے سے باہر نکلے، پورا غار ہی ایک دھماکے سے بیٹھ گیا اور ہر طرف دھول چھا گئی۔

’’ہم زندہ نکل آئے … ہم زندہ نکل آئے … دیکھا ہم نہیں مرے۔‘‘ دانیال خوشی سے اچھلنے لگا۔ لیکن جبران تیزی سے فیونا کی طرف بڑھا: ’’کیا ہوا، کیا تم زخمی ہو گئی ہے۔‘‘ انھوں نے دیکھا کہ فیونا کے بازوؤں اور ٹانگوں سے خون بہہ رہا تھا، اسے دراصل لاوے کے چھری کی تیز دھار جیسے نوکیلے پتھر چبھ گئے تھے۔ جبران نے اس کے بازوؤں اور ٹانگوں سے احتیاط کے ساتھ وہ ٹکڑے نکالے۔ ’’شکر ہے کہ ہمارے سر ان سے بچ گئے ہیں۔‘‘ جبران نے کہا۔ فیونا ایک کپڑے خون صاف کرنے لگی۔

’’حیرت ہے، وہ احمق ٹرالز کہاں چلے گئے۔‘‘ دانیال نے چاروں طرف دیکھا۔ ’’میرے خیال میں میں جانتی ہوں، چلو میرے پیچھے آؤ۔‘‘ فیونا بولی۔ وہ انھیں پہاڑی کے اوپر لے گئی اور ایک جگہ سلگتے انگاروں کی طرف اشارہ کر کے بولی: ’’وہ رہے ٹرالز۔‘‘

’’یہ تو ٹرالز نہیں ہیں، کسی نے کچرا جلایا ہے۔‘‘ جبران نے منھ بنا لیا۔ دانیال نے خدشہ ظاہر کر دیا کہ کہیں آتش فشاں پھر سے تو نہیں ابلنے لگا ہے۔ جب تینوں اس جگہ کے مزید قریب گئے تو فیونا بولی: ’’دیکھو، ان کی ساخت بالکل ٹرالز جیسی ہے، پفن پرندوں نے ان کا پیچھا کیا اور وہ باہر سورج میں نکل آئے اور جل کر راکھ ہو گئے۔‘‘

تینوں اس بات پر بہت خوش دکھائی دینے لگے۔ فیونا اچھلنے لگی تھی، کہ پرندوں نے ان کی کس طرح سے مدد کی۔ لیکن جبران نے اسے ٹوک دیا کہ زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ تیسرا پھندا بھی یہیں کہیں موجود ہے۔

دانیال نے جیب سے مرجان نکال کر انھیں دکھایا۔ فیونا نے وہ لے لیا اور اوپر کر کے اسے دیکھنے لگی۔ ’’یہ تو آبسیڈین سے کہیں زیادہ خوب صورت ہے، دیکھو کتنا گلابی ہے یہ۔‘‘ فیونا نے کہیا اور پھر سے سیٹی بجانے لگی۔ پفن پرندے ذرا ہی دیر میں اڑ کر ان کی طرف آ گئے۔ وہ بولی: ’’ذرا ان پرندوں کو دیکھو، آسمان پر ان سے ایک کالی چادر سی تن گئی ہے۔‘‘

پرندے ان تینوں کے سروں پر چکر کاٹنے اور آوازیں نکالنے لگے۔ ’’کتنے پیارے ہیں یہ پرندے۔‘‘ فیونا بولی۔ کچھ دیر تک پرندے ان کے گرد چکر کاٹتے رہے اور پھر اڑ کر چلے گئے۔ ایک پفن جو ابھی بچہ تھا، پیچھے رہ گیا۔ فیونا نے اسے اٹھایا اور بڑے پیار سے چہرے سے لگا لیا۔

(جاری ہے)

حکومت کی ناقص پالیسیاں، صنعتوں کا بھٹہ بیٹھ گیا

0

اسلام آباد: موجودہ حکومت کی بدلتی پالیسیز نے صنعتی ترقی کو بری طرح متاثر کیا ہے اور صنعتکاروں کے لیے صنعتیں چلانا مشکل ہوگیا ہے۔

رواں مالی سال 23-2022 کے ابتدائی 2 ماہ میں مختلف صنعتیں شدید گھاٹے میں رہیں۔

ٹیکسٹائل کی صنعت میں 3 فیصد، پیٹرولیم کی صنعت میں 16 فیصد اور ادویہ سازی کی صنعت میں 32 فیصد کمی آئی۔

آٹو انڈسٹری کی پیداوار میں 19 فیصد اور مشینری کی پیداوار میں 38 فیصد کمی آئی ہے۔

صنعتکاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت میں گیس اور بجلی بہت مہنگی کردی گئی ہے، ٹیکسز اور مارک اپ میں اضافہ کردیا گیا ہے جبکہ قرضوں کی شرح سود بھی بڑھا دی گئی ہے۔

ایسی صورت میں یہاں مال تیار کرنا اور ایکسپورٹ کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے کیونکہ وہی اشیا دیگر ممالک سستے داموں فروخت کر رہے ہیں، ان حالات میں ہم باہر کی مارکیٹس سے مقابلہ نہیں کرسکتے۔

ایک اور صنعتکار کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت میں ایکسپورٹ انڈسٹری تباہ ہوچکی ہے، تعمیری صنعت کا بھٹہ بیٹھ گیا، خام مال کی قیمت آج الگ ہوتی ہے چار دن بعد اس میں مزید اضافہ ہوچکا ہوتا ہے۔

تاجروں اور صنعتکاروں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت یہی روش اپنائے رہی تو ملکی معیشت تباہی کے گڑھے میں جا گرے گی۔

پاکستان اور روس کے درمیان بڑا معاہدہ

0

اسلام آباد : پاکستان اور روس کے درمیان روڈ ٹرانسپورٹ سے متعلق بڑا معاہدہ ہوگیا، جس کے تحت دونوں ممالک میں سفر اور سامان کی آسانی سے ترسیل ممکن ہوگی۔

تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر مواصلات مولانا اسعد محمود کی روس کے وزیر ٹرانسپورٹ وٹالی سیویلیف سے ملاقات ہوئی۔

ملاقات میں مولانا اسعدمحمود نے پاکستان اور روس کے درمیان بین الاقوامی روڈ ٹرانسپورٹ کے معاہدے پر دستخط کئے۔

معاہدہ سے پاکستان اور روس کے مابین روڈ کے ذریعے سفر اور سامان کی آسانی سے ترسیل ممکن ہوگی اور ٹرانسپورٹ آپریشنز روڈ ٹرانسپورٹ پرمٹ کی بنیاد پر کیے جائیں گے۔

ملاقات میں اتفاق کیا گیا کہ آپریشنل طریقوں پر اتفاق کرنے اور نفاذ سے متعلق مسائل کا جائزہ لینے کے لیے ایک مشتر کہ ورکنگ گروپ تشکیل دیا جائے گا۔

مولانا اسعد محمود نے کہا کہ روس وسائل سے مالا مال اور تکنیکی طور پر ترقی یافتہ ملک ہے، یہ معاہدہ دونوں ممالک کے مابین تجارتی روابط اور عوامی روابط قائم کرنے کی راہ ہموار کرے گا۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ روس یوکرین جنگ جلد ختم ہو جائے گی اور خطے میں امن بحال ہو گا تا کہ تجارتی سرگرمیاں معمول کےمطابق چل سکیں۔

آصف زرداری، نوازشریف اور مولانا فضل الرحمان کا رابطہ ، نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر مشاورت

0

اسلام آباد : سابق صدر آصف علی زرداری، مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف اور مولانا فضل الرحمان نے رابطہ کرکے نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق مشاورت کی۔

تفصیلات کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیر اعظم نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے، جس میں ملکی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔

ٹیلی فونک گفتگو کے دوران نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق مشاورت بھی ہوئی۔

گذشتہ روز وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان سے ملاقات ہوئی ،جس میں انہوں نے نوازشریف کا خصوصی پیغام پہنچایا تھا۔

خیال رہے حکومت کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ وزیر اعظم شہباز شریف کے سپرد کر دیا ہے۔

پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف آئین و قانون کے تحت تقرری کریں، وزیر اعظم جس کو بھی نیا آرمی چیف لگائیں گے وہ سپہ سالار ہوں گے۔

’بہترین لوگ کمپنی میں باقی رہ گئے‘ ایلون مسک کا ٹوئٹر ملازمین کے استعفوں پر ردعمل

0

ٹوئٹر کے نئے سربراہ ایلون مسک نے اپنے کمپنی کے ملازمین کی جانب سے بڑے پیمانے پر موصول ہونے والے استعفوں پر ردعمل دیا ہے۔

یاد رہے کہ سینکڑوں ملازمین نے نئے باس ایلون مسک کے الٹی میٹم کے بعد استعفوں کی بھر مار ہوگئی، ایلون مسک نے ٹوئٹر کے ملازمین کو ای میل میں الٹی میٹم دیا تھا کہ زیادہ گھنٹے کام کرنے کا عہد کریں یا پھر نوکری چھوڑ دیں۔

ایلون مسک نے ایک ٹوئٹر صارف کو جواب دیا کہ  ’بہترین لوگ کمپنی میں باقی رہ گئے ہیں، اس لیے میں زیادہ پریشان نہیں ہوں‘۔

کمپنی بند ہونے کے بعد ایلون مسک نے ایک اور ٹوئٹ کرتے ہوئے بتایا کہ ٹوئٹر استعمال کرنے کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔

واضح رہے کہ ایلون مسک کے الٹی میٹم کے بعد سینکڑوں ٹوئٹر ملازمین دستبردار ہوگئے، جس کے بعد ٹوئٹر نے کمپنی کے دفاتر آج سے عارضی طور پر بند کرنے کا اعلان کردیا۔

برطانوی میڈیا کے مطابق ٹوئٹر کی جانب سے سرکولر میں لکھا گیا عارضی طور پر دفاتر بند کئے ہیں اکیس نومبر سے آفسز دوبارہ کھول دئیے جائینگے۔

شبلی نعمانی: عالمِ دین اور سیرت و سوانح نگار

0

علّامہ شبلی نعمانی کو ان کی سیرت و سوانح نگاری نے برصغیر اور متحدہ ہندوستان میں اہلِ قلم اور اردو داں طبقہ میں ممتاز کیا اور ایک عالمِ دین اور مفکّر کی حیثیت سے بھی انھوں نے بلند مقام و مرتبہ پایا۔

شبلی کے والد شیخ حبیب ﷲ اعظم گڑھ کے نامور وکیل اور شعر و ادب کے بڑے رسیا تھے۔ رفاہِ عام کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور انھوں نے اپنے بچّوں کو دنیاوی اور دینی تعلیم دلائی تھی۔ علامہ شبلی نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور چند جیّد علماء سے استفادہ کیا۔ انھوں نے مختلف علوم و فنون میں مہارت پیدا کرنے کے ساتھ علمِ دین سیکھا۔ بعد میں وکالت کا امتحان پاس کیا، لیکن اس میں ان کا دل نہیں‌ لگا۔

ان کے والد علی گڑھ تحریک کے ابتدائی ہم نواؤں میں سے تھے اور سر سیّد کے ساتھ رہے تھے۔ شبلی کبھی شعر و شاعری کی محفل سجاتے، کبھی طلبہ کو درس دیتے یا مطالعہ کرتے ہوئے وقت گزارتے تھے۔ چناں چہ اپنے اسی ذوق و شوق اور علمی و ادبی مشاغل کی وجہ سے علی گڑھ کالج سے وابستہ ہونے کا موقع مل گیا۔ یہاں سرسیّد اور بعد میں پروفیسر آرنلڈ سے تبادلۂ خیال نے ان کے ذوق و نظر کی دنیا ہی بدل دی۔ شبلی سرسیّد کی زبان بولنے لگے اور مضامین و مقالات لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو سرسیّد کے افکار و خیالات کے زیراثر تھے۔ شبلی نے اپنی تحریروں‌ میں ہندوستان مسلمانوں کو اپنے اسلاف اور رفتگاں کی تعلیم اور مختلف ادوار میں مسلمانوں کی ترقیوں کے بارے میں‌ بتایا اور علم و عمل کی ترغیب دی۔شبلی نے اسلام اور شعائرِ اسلام پر دنیا کے اعتراضات کا جواب بھی دیا۔ ان کی شاعری سے زیادہ نثر مشہور ہوئی جو ان کی علمیت کے ساتھ اسلوب کا بھی پتا دیتی ہے۔

وہ 1857ء میں اعظم گڑھ کے ایک نواحی قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔ 1882ء میں علی گڑھ کالج کے شعبۂ عربی سے منسلک ہونے کے بعد انھیں وہاں مذہبی اور سماجی راہ نماؤں سے راہ و رسم اور ان کی صحبت سے فیض اٹھانے کا خوب موقع ملا جس کے باعث وہ جدید فکر و نظر کے حامل اور باکمال سیرت و سوانح نگار بنے۔ سیرت النّبی‌ ان کی وہ تصنیف ہے جس کا بہت شہرہ ہوا، لیکن اسے بدقسمتی کہیے کہ حیاتِ شبلی میں اس کی صرف ایک جلد ہی شایع ہوسکی تھی۔ بعد میں‌ اس کام کو ان کے ایک لائق شاگرد سید سلیمان ندوی نے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ علّامہ شبلی نعمانی کی دیگر علمی و ادبی تصانیف میں شعرُ العجم، الفاروق، سیرت النعمان، موازنۂ انیس و ادبیر اور الغزالی مشہور ہیں۔

علم و ادب کی دنیا کے اس نام وَر کو اعظم گڑھ میں سپردِ خاک کیا گیا۔ علّامہ شبلی نعمانی نے 18 نومبر 1914ء کو اس جہانِ فانی کو خیر باد کہا تھا۔