وطن کی مٹی کی کشش کتنی زبردست ہوتی ہے۔ چاہے کوئی ساری عمر باہر گزار دے۔ آخر میں یہ مقناطیسی کشش اپنی جانب کھینچ ہی لیتی ہے اور اپنی مٹی وطن کی مٹی میں مل جاتی ہے۔
میری اپنی زندگی ایک مستقل سفر بن گئی ہے۔ ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف مغرب سے مشرق اور مشرق سے مغرب کی طرف۔ نہ جانے کہاں کس دیارِ غیر میں موت آ لے گی اور کون سی مٹی نصیب ہوگی۔ بہرحال ساری زمینیں اللہ کی ہی ہیں اور کبھی یوں محسوس ہوتا ہے ساری دنیا ہی اپنا وطن ہے۔
میرا وطن کون سا ہے؟ ہندو پور جہاں میرے بزرگ رہتے آئے ہیں اور جہاں میں پیدا ہوئی یا میسور جہاں میں پلی بڑھی، تعلیم حاصل کی شادی کی، بچپن اور نوجوانی کا زمانہ گزرا اور جہاں اب بھی میرے نانا جان، امی، بہنیں، بھائی سبھی رہتے ہیں یا پاکستان جس کی تقدیر سے میں نے اپنے آپ کو وابستہ کر لیا ہے اور جو میرا روحانی وطن ہے۔
ہمارے آبائی وطن ہندو پور کی مٹّی نے ایک اور ہستی کو جو میرے قریب تھی یا قریب ہونی چاہیے تھی، اپنی آغوش میں لے لیا۔ یہ میرے ابّا جان تھے۔ ابھی ایک سال کا عرصہ بھی نہیں ہوا کہ پچھلی عیدالفطر کے دو ہفتے بعد 15 مارچ 1963ء کو میرے ابا جان رحلت فرما گئے۔
موت ہمیشہ بے درد نہیں ہوتی۔ یہ قیدِ حیات و بندِ غم سے آزادی کا پیام لاتی ہے۔ آخری عمر میں ابّا جان کی زندگی کچھ ایسی حسرت ناک تھی کہ موت ان کے لیے رہائی کا باعث بنی۔ طویل بیماری نے دل، جگر، پھیپھڑے سب تباہ کر دیے تھے۔ تفکرات اور پریشانیوں میں گھرے ہوئے وہ زندگی سے بیزار تھے۔ میں نے دل کڑا کر کے سوچا شاید موت ان کے لیے رحمت تھی۔
ابّا جان کی موت کی صرف ایک اطلاع۔ ایک منحوس خبر مجھ تک پہنچی۔ میں اس وقت ڈھاکہ مشرقی پاکستان میں تھی۔ سیکڑوں میل دور، نہ ان کا آخری دیدار کر سکی۔ نہ ان کی کوئی خدمت مجھ سے ہو سکی۔ یہ سعادت میری سب سے چھوٹی بہن نجمہ نسرین کو نصیب ہوئی جو ان کی سب سے چہیتی بیٹی تھی اور جس کے گھر میں ابّا جان نے اپنے آخری دن گزارے تھے۔ میری چھوٹی بہن نجمہ نسرین نے مجھے یہ اطلاع دی تھی اور اپنے سادہ جملوں میں ابّا جان کے آخری دنوں، آخری سفر، ان کی موت اور تجہیز و تکفین کی تصویر کھینچی تھی۔
میری بہن کے قلم میں اظہار کی قوت نہیں لیکن اس کے خط میں بے پناہ خلوص اور سچا درد و کرب تھا۔ ایک ایسا معصومانہ خلوص جو شاید اپنے اندر نہیں پاتی Sophistication نے مجھ پر تصنع کا ایک ہلکا سا ملمع چڑھا دیا ہے۔ میری بہن نے اپنے سادہ جملوں میں ابّا کے آخری دنوں، آخری سفر ان کی موت اور تجہیز و تکفین کی ایسی تصویر کھینچی تھی کہ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا میں ڈاکٹر زواگو کا آغاز اور انجام پڑھ رہی ہوں بلکہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں اور اس حقیقی المیے کے مرکزی کردار میرے اپنے ابّا ہیں۔
ابّا جان کی چونسٹھ سالہ زندگی کا بیشتر حصہ میسور اور بنگلور میں گزرا تھا۔ لیکن مرنے سے صرف دو دن پہلے وہ بضد ہو گئے تھے کہ ہندو پور جائیں گے۔ ہندو پور میں ان کا کوئی نہ تھا۔ ماں باپ، بہن بھائی سب انتقال کر چکے تھے اور میسور میں ان کی بیوی، بیٹے بیٹیاں (سوائے میرے) سبھی موجود تھے۔ لیکن ایک بے نام آواز تھی کہ انہیں بلا رہی تھی۔ وطنِ عزیز کی مٹی انہیں اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔
ٹرین میں اپنے آخری سفر پر روانہ ہوتے ہوئے انہوں نے اپنے کمپارٹمنٹ کی کھڑکی کھول لی اور لیٹے لیٹے ہی باہر نظریں جمائے رہے۔ انہیں ہر لمحہ یہ اندیشہ ستاتا رہا کہ کہیں غفلت میں آنکھ نہ لگ جائے اور ایسے میں ہندو پور کا اسٹیشن نہ نکل جائے۔ رات بھر وہ جاگتے رہے اور ٹکٹکی باندھے کھڑکی سے باہر دیکھتے رہے۔ ہندو پور کا اسٹیشن آگیا تو ان کے بے جان لبوں پر ایک ہلکی مسکراہٹ نمودار ہوئی ان کی منزل آگئی تھی۔ آخری منزل!
اپنے نرم اور حساس ظاہر کے پس پردہ شاید میں بہت سخت دل ہوں۔ میں نے باپ کی موت کا وہ سوگ نہیں منایا جو ایک بیٹی کو منانا چاہیے۔ میں نے باپ کی موت کو اس طرح محسوس نہیں کیا جس طرح دو سال پہلے اپنے نوزائیدہ بچے کی موت کو محسوس کیا تھا۔ ہو سکتا ہے اس کی وجہ طویل جدائی ہو۔ پاکستان آنے کے بعد، پندرہ سال میں اپنے ماں باپ سے دور رہی ہوں اور اس دوران میں شاذ ہی چند ہفتے ابا جان کے ساتھ گزارے ہوں گے۔ اس پندرہ سال کے طویل عرصے میں ہم دو ہی مرتبہ ہندوستان گئے تھے اور وہ بھی قلیل مدت کے لیے۔
لیکن کیا یہ طویل زمانی و مکانی فاصلہ بھی باپ بیٹی کے اتنے قریب اور گہرے رشتہ کے نشان دھندلا سکتا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میں اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ گئی تھی کہ موت ابّا جان کے لیے ایک تکلیف دہ زندگی سے نجات کا باعث تھی۔ اس میں خدا کی مصلحت تھی اور ہمیں صبر و شکر سے کام لینا چاہیے۔
(معروف نقّاد، افسانہ نگار، مترجم اور ادبی مجلّے نیا دور کی مدیر ممتاز شیریں کی خود نوشت ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے سے اقتباس)