جمعہ, مئی 10, 2024
ہوم بلاگ صفحہ 6587

رکی پونٹنگ کے پانچ بہترین کھلاڑیوں میں پاکستانی بھی شامل

0

سڈنی: سابق آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ نے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے ٹاپ پانچ کھلاڑیوں کے نام بتائے ہیں، جس میں قومی ٹیم کے کپتان بھی شامل ہیں۔

آئی سی سی ریویو شو میں سابق آسٹریلوی کپتان پونٹنگ سے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے پانچ بہترین کھلاڑیوں کو منتخب کرنے کا کہا گیا۔ رکی پونٹنگ نے کہا کہ پانچ کھلاڑیوں کا انتخاب نسبتاً آسان ہیں، لیکن انہیں ایک سے پانچ تک رینکنگ دینا تھوڑا مشکل ہے.

رکی پونٹنگ کے منتخب کردہ پانچ کھلاڑیوں میں کوئی آسٹریلوی کرکٹر شامل نہیں، فہرست میں شامل ٹاپ فائیو کھلاڑیوں میں سے دو کا تعلق بھارت جبکہ پاکستان، افغانستان اور انگلینڈ کا ایک ایک کھلاڑی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ میری نظر میں راشد خان، بابراعظم، ہاردک پانڈیا، جوز بٹلر اور جسپریت بھمرا ٹی ٹوئنٹی کے ٹاپ پانچ کھلاڑی ہیں۔

سابق آسٹریلوی کپتان نے راشد خان کو ٹی ٹوئنٹی کا نمبر ون اور بابر اعظم کو دوسرا بہترین کھلاڑی قرار دیا۔ رکی پونٹنگ نے بہترین کھلاڑیوں کی فہرست میں ہاردک کو تیسرا، جوز بٹلر کو چوتھا جبکہ جسپریت بھمرا کو پانچواں رینک دیا۔

منچھرجھیل میں پانی کی سطح کم نہ ہوئی، آرڈی 52 پر کٹ لگا دیا گیا

0

دادو: منچھرجھیل میں پانی کی سطح میں کمی نہ آسکی جب کہ آرڈی 52 کےدرمیان جھیل میں کٹ لگا دیا گیا ہے۔

منچھر جھیل میں پانی کی سطح آرڈی62 دانستر کینال پر 126 آرایل تک جا پہنچی۔ انتظامیہ نےآر ڈی 52 کو مزدوروں کی مدد سے کٹ لگا دیا ہے۔

آرڈی52 تک ہیوی مشینری نہ پہنچ سکی جس کی وجہ سے مزدوروں سےکٹ لگوایا جا رہا ہے۔ شگاف کرنے کے بعد مختلف دیہات میں پانی کی سطح بڑھنے لگی ہے۔

محکمہ آبپاشی کا کہنا ہے کہ کٹ کے بعد پانی کا بہاؤ تیزی سےگاؤں اراضی کی طرف بڑھنےلگا ہے۔

دوسری جانب ایم این وی ڈرین میں کاری موری کے مقام پر شگاف پڑگیا ہے جس سے خانپور جونیجو میں شدیدخوف وہراس ہے۔ شہریوں نے پیدل بچوں اور مویشیوں سمیت نقل مکانی شروع کر دی ہے۔ اس مشکل صورتحال میں انتظامیہ غائب ہے اور مکینوں نےاپنی مددآپ کےتحت شگاف پر کر لیا ہے۔

میلہ گھومنی

0

کانوں کی سنی نہیں کہتا آنکھوں کی دیکھی کہتا ہوں۔ کسی بدیسی واقعے کا بیان نہیں اپنے ہی دیس کی داستان ہے۔ گاؤں گھر کی بات ہے۔ جھوٹ سچ کا الزام جس کے سر پر چاہے رکھیے۔ مجھے کہانی کہنا ہے اور آپ کو سننا۔

دو بھائی تھے چنو اور منو نام۔ کہلاتے تھے پٹھان۔ مگر نانہال جولاہے ٹولی میں تھا اور دادیہال سید واڑے میں۔ ماں پرجا کی طرح میر صاحب کے ہاں کام کرنے آئی تھی۔ ان کے چھوٹے بھائی صاحب نے اس سے کچھ اور کام بھی لئے اور نتیجے میں ہاتھ آئے چنو منو۔ وہ تو یادگاریں چھوڑ کر جنت سدھارے اور خمیازہ بھگتا بڑے میر صاحب نے۔ انھوں نے بی جولاہن کو ایک کچا مکان عطا کیا اور چنو منو کی پرورش کے لئے کچھ روپے دیے۔ وہ دونوں پلے اور بڑے اچھے ہاتھ پاؤں نکالے۔ چنو ذرا سنجیدہ تھا۔ ہوش سنبھالتے ہی میر صاحب کے کارندوں میں ملازم ہوا اور ہم سن میر صاحبان کا مصاحب بنا۔ منو لاابالی تھا۔ اہیروں کے ساتھ اکھاڑوں میں کشتی لڑا کرتا اور نام کے لئے کھیتی باڑی کرنے لگا۔

لیکن دونوں جوان ہوتے ہی اعصاب کا شکار ہوئے۔ خون کی گرمیاں وراثت اور ماحول سے ملی تھیں۔ دونوں جنسیات کے میدان میں بڑے بڑے معرکے سر کرنے لگے۔ شدہ شدہ میر صاحب کے کانوں تک ان کے کارناموں کی داستانیں پہنچیں۔ انھوں نے چنو کو اسی طرح کی ایک لڑکی سے بیاہ کر کے باندھ دیا۔ مگر منو چھٹے سانڈ کی طرح مختلف کھیت چرتا رہا۔ اس کی ہنگامہ آرائیوں کا غلغلہ دور تک پہنچا۔ بالآخر میر صاحب کے پاس اہیر ٹولی، چمار ٹولی، جولاہے ٹولی اور ہر سمت اور ہر محلے سے فریاد کی صدائیں پہنچنے لگیں۔ انھوں نے عاجز آکر ایک دن اس کی ماں کو بلوا بھیجا۔ جب وہ گھونگھٹ لگائے لجاتی، سہمتی، ان کی بیوی کے پلنگ کے پاس زمین پر آکر بیٹھی تو میر صاحب نے منو کی شکایت کی اور کہا، ’’اس لڑکے کو روکو۔ ورنہ ہاتھ پاؤں ٹوٹیں گے۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا، ’’تو میں کیا کر سکتی ہوں۔ آپ ہی چنو کی طرح اسے بھی کسی ناند سے لگا دیجئے۔‘‘

میر صاحب بڑی سوچ میں پڑ گئے۔ یہ نئی قسم کا قلمی پودا کسی مناسب ہی تھالے میں لگایا جا سکتا تھا۔ ہر زمین تو اس کو قبول نہیں کر سکتی اور وہاں اس کے کارناموں کی شہرت نے ہر جگہ شوریت پیدا کر دی تھی۔ وہ زنان خانے سے باہر سوچتے ہوئے چلے آئے اور برابر سوچتے ہی رہے۔ اتفاق سے انھیں دنوں دوری کے میلے سے واپس ہونے والوں کے ساتھ ایک نا معلوم قبیلے کی عورت گاؤں میں آئی۔ اور ایک دن میر صاحب کے ہاں نوکری کی تلاش کے بہانے پہنچی۔ سیدانی بی نے صورت شکل دیکھتے ہی سمجھ لیا کہ وہ ان کے گھر میں ملازمہ کی حیثیت سے رہنے والی عورت نہیں۔ پوچھنے گچھنے سے یہ بھی معلوم کر لیا کہ وہ گاؤں کے درزی کے ساتھ میلے سے آئی ہے اور اس کے ہاں ٹکی بھی ہے۔ سیدانی بی اس درزی کی حرکات سن چکی تھیں۔ جب سے اس کی درزن سدھاری تھی اس نے میلے سے نئی نئی عورتوں کا لانا اور گاؤں کی نسوانی آبادی میں اضافہ کرنا اپنا وتیرہ بنا لیا تھا۔ پھر بھی سیدانی بی کے سادہ مزاج نے صاف صاف انکار کی اجازت نہ دی۔ انھوں نے کہا، ’’اچھا گھر میں رہو اور کام کرو، دو چار دن میں تمہارے لئے کوئی بند و بست کروں گی۔‘‘

ادھر مردانے میں میر صاحب کو ان کے ہم جلیسوں نے نو وارد کی خبر دی۔ ایک صاحب نے جو ذرا ظریف طبیعت بھی تھے، اس کی تعریف یوں بیان کی، ’’راویان صادق کا قول ہے کہ اصل اس کی بنجارن ہے۔ وہ بنجارن سے ٹھکرائن بنی، ٹھکرائن سے پٹھاننی، پٹھاننی سے کبڑن، کبڑن سے درزن اور اب درزن سے سیدانی بننے کے ارادے رکھتی ہے۔‘‘ ایک صاحب نے پوچھا، ’’اور اس کے بعد؟‘‘ وہ دونوں ہاتھ پھیلا کر بولے، ’’خدا جانے! شاید اس کے بعد فرشتوں سے آنکھ لڑائے گی۔‘‘

میر صاحب جب گھر آئے تو بیوی نے ان محترمہ کی خبر دی۔ بہت جزبز ہوئے۔ اس سیرت کی عورت اور شرفاء کے گھر میں! وہ نیک قدم خود بھی کسی کام کے سلسلے میں سامنے آئیں۔ میر صاحب بل کھانے لگے۔ نوکری کرنے آئی تھی۔ اگر انکار کرتے اور گھر سے نکال دیتے ہیں تو اسے معصیت کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ پیٹ کے لئے انسان کیا کچھ نہیں کرتے ہیں۔ اگر اپنے ہاں بار دیتے ہیں تو گھر میں ماشاء اللہ کئی چھوٹے میر صاحبان ہیں، کہیں چنو منو کی نسل اور نہ بڑھے۔ ان ناموں کی یاد سے ذہن میں ایک خیال پیدا ہوا اور وہ مسکرا کر بیوی سے سر گوشی کرنے لگے۔ پھر منو کی ماں کو بلوا کر انھوں نے اسے نادر شاہی حکم دیا، ’’ہم نے منو کی نسبت طے کر دی، اس سے کہہ دو کل اس کا عقد ہو گا۔‘‘

بیچاری جولاہن کو چوں و چرا کی مجال نہ تھی۔ وہ ’بہت اچھا‘ کہہ کے ہونے والی بہو پر ایک نظر ڈالنے چلی گئی۔ وہ بھی رشتے سے بالکل بے خبر تھی، اس لئے بہت کھل کے باتیں ہوئیں۔ جولاہن اس کے طور طریقے سے زیادہ مطمئن تو نہ ہوئی لیکن جانتی تھی میر صاحب کی خوشی اسی میں ہے، اختلاف کا یارا نہیں۔ رہنے کا ٹھکانا انھیں کا دیا ہوا ہے، چنو کی نوکری انھیں کی عطا کردہ ہے اور منو کی جوت میں کھیت بھی خود انھیں کے ہیں۔ پھر لالچ بھی تھا۔ اپنی خوشی سے شادی کریں گے تو سارا خرچ بھی خود ہی اٹھائیں گے۔ غرض گھر آئی اور رات ہی میں منو کو میر صاحب کا فیصلہ سنا دیا۔ وہ اسے درزی ہی کے گھر بھاوج کی حیثیت سے دیکھ کر پسند کر چکا تھا۔ جلدی سے راضی ہو گیا۔

دوسرے دن مولوی صاحب بلائے گئے۔ منو کو نئی دھوتی، نیا کرتا میر صاحب نے پہنوایا۔ دلہن کو شاہانہ جوڑا اور چند چاندی کے زیورات ان کی بیوی نے پہنائے اور عقد ہو گیا۔ پھر میر صاحب اور ان کی بیوی نے رونمائی کے نام سے دس روپے منو کی ماں کو دئے اور دلہن کو اس کے ہاں رخصت کر دیا۔

دن بیتتے گئے، دن بیتتے گئے۔ مہینے ہوئے، ایک سال ہونے کو آیا مگر منو اور اس کی دلہن کی کوئی شکایت سننے میں نہ آئی۔ میر صاحب کو اطمینان سا ہو چلا کہ نسخہ کار گر ہوا اور اعصاب کے دو بیمار ایک ہی چٹکلے میں اچھے ہو گئے، کہ دفعتاً ایک دن بی جولاہن روتی بسورتی پہنچیں۔ معلوم ہوا منو نے مارا ہے۔ پوچھ گچھ سے کھلا کہ چھ مہینے سے اسے نشے کا شوق ہوا، اور جس طرح وہ نشہ بیوی پر اتارتا ہے اسی طرح غصہ ماں پر۔ کل رات میں تو اس نے مارا ہی نہیں بلکہ اسے ایک کوٹھری میں بے آب و دانہ بند رکھا۔ اب چھوٹی ہے تو فریاد لے کر آئی ہے۔ میر صاحب کے اس سوال پر کہ پہلے ہی کیوں نہ بتایا کہ فوری تدارک سے شاید بری عادت نہ پڑنے پاتی۔ جولاہن سوائے ’’مامتا‘‘ کے اور کیا جواب دے سکتی تھی۔ انھوں نے حکم دیا، ’’آج سے یہیں رہو، گھر جانے کی ضرورت نہیں۔‘‘

مگر میر صاحب کو منو کی فکر ہو گئی۔ خون گندی نالی میں بہہ کر نہ تو بدل جاتا ہے اور نہ پھٹ کر سپید ہو جاتا ہے، اس لئے اسے بلا بھیجا اور حد سے زیادہ خفا ہوئے۔ اور یہاں تک کہہ دیا کہ ’’اگر پھر سنا کہ تو نے تاڑی پی تو درخت سے بندھوا کر اتنا پٹواؤں گا کہ چمڑا ادھڑ جائے گا!‘‘ ساتھ ہی پارسی کے پاس مخصوص کا رندہ بھیج کر کہلا بھیجا کہ اب اگر منو کو ایک قطرہ بھی پینے کو ملا تو تاڑی خانہ اٹھوا پھینکوں گا۔‘‘ غرض منو کی پورے طور پر بندش کر دی گئی اور تاڑی بند ہو گئی۔ نشے کا انجکشن ممنوع قرار دے دیا گیا۔

مگر جونک اپنا کام کرتی رہی اور تاڑی بند ہونے کے چھ ماہ بعد وہ آنکھیں مانگنے لگا۔ بالکل زرد، سوکھا آم بن گیا اور کھانسی بخار کا شکار ہوا۔ جب میر صاحب کو خبر ملی کہ عیادت کے بہانے یاروں کی نشستیں ہونے لگیں اور بہو نے نینوں کے بان چلانا شروع کر دیے تو انھوں نے بی جولاہن کو کچھ روپے دے کر گھر بھیجا اور بیٹے کے علاج اور بہو کی نگرانی کی تاکید کی۔ لیکن یہ نگرانی وہاں اسی طرح ناگوار گزری جس طرح چوروں کو پولیس کی نگرانی کھٹکتی ہے۔ دو چار ہی دن انگیز کرنے بعد زبان کی چھری تیز ہونے لگی۔ ساس بھلا کس سے کم تھیں۔ انھوں نے کلہ بہ کلہ جواب دینا شروع کر دیا۔ ایک دن تو ہاتھا پائی تک نوبت پہنچی۔ جوانی اور بڑھاپے کا مقابلہ کیا تھا۔ بہو ساس کے سینے پر سوار ہوگئی۔ منو پلنگ سے جھپٹ کر اٹھا اور لڑکھڑاتا ہوا ماں کو بچانے پہنچا۔ بیوی نے سینے پر وہ لات دی کہ ہائے کر کے وہیں ڈھیر ہو گیا۔ دونوں لڑنا بھول کر اس کی تیمارداری میں مشغول رہیں لیکن بلغم کے ساتھ تھوڑا تھوڑا خون بھی آنے لگا اور وہ ایک ہفتہ بعد گھر سے اٹھ کر قبر میں چلا گیا۔

اب رونا دھونا شروع ہوا۔ بین ہونے لگی اور ساس بہو میں اسی پر مقابلہ ٹھنا کہ دیکھیں سوگ کون زیادہ مناتا ہے۔ پانچ روز تو اسی طوفان میں طغیانی رہی کہ میر صاحب کو خود آ کر سمجھانا پڑا۔ لیکن آہستہ آہستہ سیلاب غم گھٹنا شروع ہوا، ساس بہو کو ایک دوسرے سے چھٹکارا پانے اور رشتہ قرابت ٹوٹ جانے کی غیر شعوری طور پر خوشی ہونے لگی کہ دفعتاً چنو کی بیوی قبل از وقت مرا ہوا بچہ جن کر دیور کے پاس چلی گئی۔ بی جولاہن کو چار چھوٹے چھوٹے پوتے پوتیوں کو سنبھالنا پڑا اور منو کی بیوہ کو عدت کے احکام بھول جانے کے مواقع ملنے لگے۔

ایسے ہی ایک موقع سے چنو غم بھلانے اور جی بہلانے دیورانی کے پاس آ بیٹھا۔ خاطر تواضع ہوئی اور باتوں کا سلسلہ چھڑ گیا۔ درد دل بیان ہوئے، تنہائیوں کا ذکر چھڑ گیا اور اس کے دور کرنے کے ذرائع پر غور ہوا۔ بالآخر ایک شب امتحان کی قرار پائی۔ جب اس کی صبح سرخروئی سے ہوئی تو چنو نے ماں سے اصرار کیا کہ اس رشتے کو عقد کے ذریعہ مستحکم بنا دے۔ وہ بیٹے کو لے کر مولوی صاحب کے پاس پہنچی۔ وہ دیہات میں رہنے کی وجہ سے شرع کی کتابیں اب تک نہ بھولے تھے۔ انھوں نے امتحان اورا س کے نتائج سے واقف ہوتے ہی کان پر ہاتھ رکھا اور نکاح کے ممنوع ہونے کا فتویٰ فوراً صادر فرما دیا۔ بڑی بی دیر تک ایک وکیل کی طرح بحثتی رہیں۔ پر جب مولوی صاحب اپنے فیصلے سے نہ ٹلے تو جل کر بیٹے سے بولیں، ’’چل بے گھر چل! مانگ میں میرے سامنے سیندور بھر دینا۔ وہ اب تیری بیوی ہے، میں خوش میرا خدا خوش۔‘‘ چنو نے ماں کا کہنا کیا۔ مانگ میں سیندور کی چٹکی ڈال دیا اور اپنے چاروں بچوں سمیت اسی گھر میں منتقل ہو گیا۔

ایک مہینہ بیتا، دو بیتے، تین مہینے بیتے، مگر چوتھے مہینے چنو کی کمر اچک گئی۔ اکڑنا، بررنا، تن کے چلنا، سب چھوٹ گیا۔ وہ اب ذرا جھک کے چلنے لگا۔ ہم سن میر صاحبان میں سے ایک صاحب طبیب تھے، ان کو دکھایا۔ انھوں نے معجونیں اور گولیاں کھلانا شروع کیں۔ دواؤں کے زور پر کچھ دنوں اور چلا۔ بدقسمتی سے حکیم صاحب ایک ریاست میں ملازم ہو کر چلے گئے۔ بس چنو کی کمر کچی لکڑی کی طرح بوجھ پڑنے سے جھک گئی۔ ساتھیوں نے افیون کی صلاح دی۔ شروع میں تو کافی سرور آیا مگر افیون کی خشکی نے دبوچا۔ بی چنیا بیگم مانگتی ہیں دودھ، مکھن، گھی، ملائی اور یہ چیزیں چار روپے میں کہاں نصیب۔ وہ لگا کھیسے نکال کے ہاتھ پھیلانے اور پیسے مانگنے۔ مگر اس پر جو کچھ ملتا بھاویں نہ سماتا اور افیون کی لت پڑ ہی چکی تھی وہ چھوٹتی نہیں۔ اس نے آہستہ آہستہ دل و جگر کو چھلنی کیا اور چنو خاں کو اختلاج کے دورے پڑنے لگے اور سوکھی کھانسی آنے لگی۔

ایک دن جنوری کے مہینے میں جب بوندا باندی ہو رہی تھی اور اولے پڑنے والے تھے کہ چنو کو اختلاج شروع ہو گیا۔ ڈیوڑھی پر کسی کام کے سلسلے میں حاضر تھا۔ فوراً اٹھ کر گھر کی طرف بھاگا۔ راستے ہی میں کوندا لپکا اور جان پڑا اسی کے سر پر پڑا۔ اسی کے سر پر بجلی گری، منہ کے بل زمین پر آرہا۔ سنبھل کر اٹھا مگر دل کا یہ حال تھا کہ منہ سے نکلا پڑتا تھا بے ساختہ ’’ارے ماں، ارے ماں‘‘ چیختا ہوا دوڑا۔ راستہ سجھائی نہ دیتا تھا۔ دم گھٹا جا رہا تھا مگر پاؤں پہیے کی طرح لڑھک رہے تھے۔ گھر کی دہلیز میں قدم رکھا ہی تھا دوسرا کڑکا ہوا۔ وہ ٹھوکر کھاتا، سنبھلتا، لڑکھڑاتا دالان والے پلنگ پر جا کر بہری کے پنجے سے چھوٹے ہوئے کبوتر کی طرح بھد سے گر پڑا اور اسی طرح اس کا ہر عضو پھڑکنے لگا۔ بیوی ’’ارے کیا ہوگیا لوگو‘‘ کہتی ہوئی دوڑی۔ چنو نے بایاں پہلو دونوں ہاتھوں سے دباتے ہوئے کہا، ’’اب میرے بعد تم کو کون خوش رکھے گا؟‘‘ اور ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گیا۔

چنو کی فاتحہ کے تیسرے دن اس کی خوش نہ ہونے والی بیوہ، گاؤں کے ایک جوان کسان کے ساتھ کمبھ کا میلہ گھومنے الہ آباد چلی گئی۔

(افسانہ نگار:‌علی عباس حسینی)

فیصل مسجد کے احاطے میں خاتون کی وائرل ویڈیو پر انتظامیہ کا ایکشن

0

اسلام آباد کی فیصل مسجد کے احاطے میں خاتون کو ٹک ٹاک ویڈیو بنانا مہنگا پڑ گیا۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق فیصل مسجد کے احاطے میں خاتون ٹک ٹاکر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے پر پولیس نے ایکشن لے لیا۔

اسلام آباد کے تھانہ مارگلا میں ٹک ٹاکر کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔

خاتون ٹک ٹاکر کے خلاف مقدمہ محسن اسحاق نامی شہری کی مدعیت میں تھانہ مارگلا درج کیا گیا ہے۔

مقدمے کے متن کے مطابق مسجد کے احاطے میں خاتون نے غیر مناسب لباس اور انتہائی غیرمہذبانہ انداز میں مسجد کے تقدس کو پامال کیا ہے۔

مدعی مقدمہ کا کہنا تھا کہ ’خاتون کے اقدام سے لوگوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔

شہری نے پولیس کو دائر درخواست میں خاتون کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جس کے بعد ان کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

مارگلہ ہلز پر آگ لگانے والی ٹک ٹاکر نے وضاحت دے دی

واضح رہے کہ رواں سال مئی میں مارگلا ہلز میں خاتون ٹک ٹاکر نے فوٹو شوٹ کے لیے مبینہ طور پر آگ لگا دی جس کی ویڈیو وائرل ہوگئی تھی۔

ٹک ٹاکر ڈولی نے بعدازاں اپنی وضاحت میں کہا کہ ’میں کئی سالوں سے نیشنل پارک کوہسار گئی ہی نہیں ہوں، اس حوالے سے آپ لوگ پوری طرح تحقیقات کر سکتے ہیں میں پورے یقین کے ساتھ یہ کہہ رہی ہوں۔‘

خاتون ٹک ٹاکر کا کہنا تھا کہ  میں ہری پور سے اپنی میک اپ کلاس لے کر موٹروے پر سفر کر رہی تھی اور وہاں میں نے یہ منظر دیکھا جہاں آگ لگی ہوئی تھی، اس حوالے سے ایک ویڈیو بھی ریکارڈ کی ہے بیان کے ساتھ جو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کروں گی، آپ سب نے دیکھنی ہے تاکہ آپ کو حقیقیت معلوم ہو۔

رضوان کی عدم دستیابی پر وکٹ کیپر کون ہوگا؟

0

ایشیا کپ میں بھارت کے خلاف شاندار کامیابی میں اہم کردار ادا کرنے والے وکٹ کیپر بیٹر محمد رضوان گھٹنے کی انجری کا شکار ہیں۔

پاک بھارت میچ کے فوری بعد محمد رضوان کو اسپتال لے جایا گیا جہاں ان کے سیدھے گھٹنے کا ایم آر آئی اسکین کرایا گیا جس کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد ان کی افغانستان کے خلاف میچ میں شمولیت کا فیصلہ کیا جائے گا۔

اگر محمد رضوان نہ کھیلے تو وکٹ کیپنگ کون کرے گا؟

کرکٹ ویب سائٹ کرک انفو کی رپورٹ کے مطابق ایشیا کپ میں پاکستان کے پاس رضوان کی عدم موجودگی میں کوئی اسپیشلسٹ وکٹ کیپر موجود نہیں جبکہ محمد رضوان کی عدم موجودگی میں خوشدل شاہ اور فخر زمان  وکٹ کیپنگ کے فرائض انجام دے سکتے ہیں لیکن یہ دونوں اسپیشلسٹ وکٹ کیپر نہیں ہیں۔

محمد رضوان اور شاہنواز دھانی سے متعلق اہم خبر

رضوان کے بعد دوسری چوائس محمد حارث ہیں جو پاکستان کے دورہ نیدرلینڈز میں تو ٹیم کے ساتھ تھے لیکن ایشیا کپ اسکواڈ میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے دبئی میں موجود نہیں ہیں۔

کرک انفو کے مطابق اگر رضوان انجری کی وجہ سے ایشیا کپ سے باہر ہوتے ہیں تو ممکن ہے کہ محمد حارث کو دبئی طلب کرلیا جائے۔

یاد رہے کہ ایشیا کپ سے قبل ہی فاسٹ بولر شاہین آفریدی نجرڈ ہوگئے تھے، فاسٹ  بولر محمد وسیم جونیئر اور شاہنواز دھانی بھی سائیڈ اسٹرین انجری کا شکار ہیں اب قومی ٹیم کے اہم کھلاڑی رضوان بھی انجرڈ ہیں۔

سلمان خان کی جیب میں ’گلاس‘ رکھنے کی ویڈیو وائرل

0

بالی ووڈ کے سلطان سلمان خان کی آدھا بھرا ہوا گلاس جینز کی جیب میں رکھنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق بالی ووڈ کے دبنگ اداکار سلمان خان سالگرہ تقریب میں شرکت کے لیے پہنچے تو گاڑی سے اترتے ہی انہوں نے جینز کی جیب میں گلاس رکھ لیا جس کی ویڈیو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سلمان خان گلاس اپنی جینز کی پینٹ کی جیب میں رکھ رہے ہیں جبکہ گلاس بھرا ہوا بھی دکھائی دے رہا ہے۔

دبنگ اداکار کی ویڈیو پرسوشل میڈیا صارفین کی جانب سے دلچسپ تبصرے کیے جارہے ہیں۔

ایک صارف کا کہنا تھا کہ ’جیب میں گلاس یہ صرف سلمان ہی کرسکتے ہیں۔‘ ایک دوسرے صارف نے سوال کیا کہ ’اس میں پانی تھا؟‘

واضح رہے کہ سلمان خان ان دنوں اپنی نئی فلم ’کسی کا بھائی کسی کی جان‘ کی شوٹنگ میں مصروف ہیں۔ فلم کی دیگر کاسٹ میں پوجا ہیج، شہناز گل، وینکٹیش دگوبتی شامل ہیں۔

سلمان کی ایک اور فلم ’ٹائیگر تھری‘ کی شوٹنگ بھی جاری ہے جس میں کترینا کیف اور عمران ہاشمی بھی اداکاری کے جوہر دکھائیں گے۔

امکان ہے فلسطینی صحافی کی موت فوجی کی فائرنگ سے ہوئی، اسرائیلی رپورٹ

0

اسرائیل نے الجزیرہ کی مقتولہ صحافی ابوعاقلہ کے قتل سے متعلق اپنی تحقیقات میں اس بات کا قوی امکان ظاہر کیا ہے کہ رپورٹر کی موت اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ہوئی۔

اسرائیلی حکام نے پیر کی سہ پہر اس قتل کے بارے میں اپنی تحقیقات کے نتائج جاری کیے ہیں۔ الجزیرہ کے مطابق اسرائیل نے کہا ہے کہ اس بات کا "زیادہ امکان” ہے کہ صحافی شیرین ابوعاقلہ اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے "حادثاتی طور پر متاثر” ہوئی ہیں تاہم اس حوالے سے مجرمانہ تحقیقات نہیں کی جائیں گی۔

اسرائیلی تحقیقات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسرائیلی فوجی جائے وقوعہ پر فلسطینی جنگجوؤں کی فائرنگ کی زد میں آئے تھیں لیکن اس دعوے کی تصدیق واقعے کی فوٹیج سے نہیں ہوئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "فائرنگ کے ماخذ کا واضح طور پر تعین کرنا ممکن نہیں ہے۔ واقعے کی جامع جانچ کے بعد اور تمام نتائج کی بنیاد پر، ملٹری ایڈووکیٹ جنرل نے پایا کہ کیس کے حالات میں، فوجداری جرم کا کوئی شبہ نہیں ہے جو ملٹری پولیس کی تفتیش کو شروع کرنے کا جواز فراہم کرے۔

مقتولہ کے اہل خانہ نے اسرائیلی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل نے سچائی کو چھپانے اور شیرین ابو عاقلہ کے قتل کی ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کی ہے۔

اپنے بیان میں اہل خانہ نے کہا کہ توقع یہی تھی اسرائیل شیرین کے قتل کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرے گا، ہمارا خاندان اس رپورٹ سے حیران نہیں ہے کیونکہ یہ واضح ہے کہ اسرائیلی جنگی مجرم اپنے جرائم کی تفتیش خود نہیں کریں گے ہم مطالبہ کرتے رہیں گے کہ امریکی حکومت احتساب کے لیے اپنے بیان کردہ وعدوں پر عمل کرے۔

عینی شاہدین، الجزیرہ، اور اقوام متحدہ، انسانی حقوق کے گروپوں اور میڈیا تنظیموں کی متعدد تحقیقات نے کہا تھا کہ ایک اسرائیلی فوجی نے ابوعاقلہ کو قتل کیا۔

الجزیرہ کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ آزاد تفتیش کار شیریں ابو عاقلہ کی موت کی وجہ بننے والی گولی کی سے متعلق کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے لیکن اسرائیلی فوج کی گولی اس موت کے لیے "ممکنہ طور پر ذمہ دار” تھی۔

بیلسٹک ماہرین کا ماننا تھا گولی کو بری طرح نقصان پہنچا تھا جس کی وجہ سے کوئی واضح نتیجہ نہیں نکل سکا۔ امریکی سیکورٹی کوآرڈینیٹر نے اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی دونوں کی تحقیقات کا خلاصہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ تفصیلی فرانزک تجزیے میں یہ یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں دکھائی دیتی ہے کہ فائرنگ جان بوجھ کر کی گئی تھی۔

یاد رہے فلسطین کے اٹارنی جنرل نے الجزیرہ کی مقتول صحافی شیریں ابو عاقلہ کے بارے میں فلسطینی اتھارٹی کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کی تھی۔

جس میں کہا گیا تھا کہ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ الجزیرہ کی مقتول صحافی ابو عاقلہ کو اسرائیلی فورسز نے جان بوجھ کر گولی ماری تھی۔

الجزیرہ میڈیا نیٹ ورک نے 26 مئی کو اعلان کیا تھا کہ اس نے اس معاملے میں انصاف کے لیے ایک قانونی ٹیم تشکیل دی ہے جو دی ہیگ میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) سے رجوع کرے گی۔

اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں فلسطینی صحافیوں کو نشانہ بنانے پر آئی سی سی میں دائر کیس پر کام کرنے والے وکلا نے بھی کہا ہے کہ وہ ابو عاقلہ کے قتل کو اپنے کیس میں شامل کریں گے۔

قدیم شہر اسکندریہ، یوسف کمبل پوش اور حبشہ کا مصطفیٰ!

0

تیرھویں تاریخ فروری سنہ 1838ء کے جہاز ہمارا شہر اسکندریہ میں پہنچا۔

جہاز سے اتر کر مع دوست و احباب روانہ شہر ہوا۔ کنارے دریا کے لڑکے عرب کے گدھے کرائے کے لیے ہوئے کھڑے تھے۔ ہر وضع و شریف کو ان پر سوار کر کے لے جاتے۔ ہر چند ابتدا میں اس سواری سے نفرت ہوئی، لیکن بموجب ہر ملکے و ہر رسمے آخر ہم نے بھی گدھوں کی سواری کی اور سرا کی راہ لی۔

گلی کوچے تنگ اور راہی بہت تھے۔ اس لیے لڑکے گدھے والے آگے بجائے بچو بچو کے یمشی یمشی پکارتے، لوگوں کو آگے سے ہٹاتے، نہیں تو گزرنا اس راہ سے دشوار تھا۔ بندہ راہ بھر اس شہر کا تماشا دیکھتا چلا۔ کنارے شہر کے محمد علی شاہ مصر کے دو تین مکان بنائے ہوئے نظر آئے۔ ایک قلعہ قدیمی تھا، وہیں اس میں توپیں ناقص از کارِ رفتہ پڑیں۔ محمد علی شاہ بادشاہ مصر کا ہے۔ بہتّر برس کی عمر رکھتا ہے۔ بہت صاحبِ تدبیر و انتظام ہے، جہاز جنگی اس کے پُراستحکام۔ صفائی اور سب باتوں میں مثلِ جہازِ انگریزی۔ مگر افسر و جہاز کی پوشاک نفاست میں بہ نسبت جہازیوں انگریزی کے کم تھی۔ عقلِ شاہ مصر پر صد ہزار آفریں کہ ایسی باتیں رواج دیں۔ غرض کہ دیکھتا بھالتا گدھے پر سوار سرا میں پہنچا۔ اسباب اُتارا۔ پھر سیر کرنے کنارے دریا کے آیا۔

کپتان ملریز جہاز کے سے ملاقات ہوئی۔ اس نے نہایت اشتیاق سے یہ بات فرمائی کہ آؤ میں نے ذکر تمھارا یہاں کے بڑے صاحب سے کیا ہے اور تمھاری تلاش میں تھا۔ بندہ بپاسِ خاطر اُن کی ہمراہ ہو کر بڑے صاحب کی ملاقات کو گیا۔ بڑے صاحب اور میم اُن کی نے نہایت عنایت فرمائی اور وقت شام کے دعوت کی۔ بندے نے قبول کر کے مان لی۔ بعد اس کے صاحب موصوف سے یہ غرض کی کہ میں ارادہ رکھتا ہوں یہاں کے مکانوں اور عجائبات کو دیکھوں۔ کوئی آدمی ہوشیار اپنا میرے ساتھ کیجیے کہ ایسے مکانات اور اشیائے عجیب مجھ کو دکھلاوے۔ انھوں نے ایک آدمی رفیق اپنا میرے ساتھ کیا۔ نام اس کا مصطفیٰ تھا کہ یہ شخص اچھی طرح سے سب مکان تم کو دکھلائے گا۔

میں نے مصطفیٰ کے ساتھ باہر آ کر پوچھا۔ وطن تیرا کہاں ہے اور نام تیرا کیا۔ اس نے کہا وطن میرا حبش ہے اور نام مصطفیٰ۔ ہندی زبان میں بات کی۔ مجھے حیرت تھی کہ رہنے والا حبش کا ہے اردو زبان کیونکر جانتا ہے۔ پھر اس نے چٹھی نیک نامی اپنی کی دکھلائی۔ اُس میں تعریف چستی اور چالاکی اُس کی لکھی تھی کہ یہ شخص بہت کار دان اور دانا ہے۔ ساتھ ہمارے ہندوستان، ایران، توران، انگلستان، فرانسیس میں پھرا ہے۔ میں نے چٹھی دیکھ کر اُس سے حال لندن کا پوچھا کہ آیا وہ شہر تجھ کو کچھ بھایا۔ کہا وصف اُس کا ہرگز نہیں قابلِ بیان ہے۔ فی الواقعی وہ ملکِ پرستان ہے۔ جن کا میں نوکر تھا انھوں نے لندن میں تین ہزار روپے مجھ کو دیے تھے۔ میں نے سب پریزادوں کی صحبت میں صرف کیے۔ یہ سن کر ہم سب ہنسے اور اُس کے ساتھ باہر آئے۔

وہ باہر نکل کر دوڑا۔ عرب بچّوں کو جو گدھے کرائے کے اپنے ساتھ رکھتے، دو چار لات مکّے مار کر اپنے ساتھ مع تین گدھوں تیز قدم کے لایا۔ مجھ کو اور ہیڈ صاحب اور پرنکل صاحب کو ان پر سوار کر کے چلا اور گدھوں کو ہانک کر دوڑایا۔ اتنے میں ہیڈ صاحب کا گدھا ٹھوکر کھا کر گرا اور ہیڈ صاحب کو گرایا۔ وہ بچارے گر کر بہت نادم اور شرمندہ ہوئے۔ مصطفیٰ نے دو تین کوڑے اس گدھے والے کو مارے، وہ بلبلا کر زمین پر گرا۔ زمیں کا چھلا اچھل کر ہیڈ صاحب کے کپڑوں پر پڑا۔ وہ بہت ناخوش ہوئے اور جس سرا میں اترے تھے، پھر گئے۔ میں نے مصطفیٰ سے کہا اس قدر ظلم و بدعت بے جا ہے۔ کہا قومِ عرب بد ذات اور شریر ہوتے ہیں، بغیر تنبیہ کے راستی پر نہیں آتے۔ میں نے کہا تم بھی اسی قوم سے ہو، انھیں کی سی خلقت رکھتے ہو۔ جواب دیا اگرچہ وطن میرا بھی یہی ہے مگر میں نے اور شہروں میں رہ کر خُو یہاں کی سَر سے دور کی ہے۔ پھر میں نے مصطفیٰ سے کہا میرا قصد ہے حمام میں نہانے کا۔ وہ ایک حمام میں لے گیا، اندر اس کے حوض بھرا پانی کا تھا۔ راہِ فواروں سے پانی بہتا۔ کئی تُرک کنارہ اُس کے بیٹھے لطف کر رہے تھے۔ کوئی قہوہ، کوئی چپک پیتا۔ بندہ نے موافق قاعدہ مقرر کے وہاں جا کر کپڑے نکالے۔ پانچ چھے حمامی مالشِ بدن میں مشغول ہوئے۔ اپنی زبان میں کچھ گاتے جاتے مگر مضامین اس کے میری سمجھ میں نہ آتے۔ جب وہ ہنستے، میں بھی ہنستا، جب وہ چپ رہتے، میں بھی چپ رہتا۔ میں نے کہا مصطفیٰ سے کہ ان سے کہہ دے موافق رسم اس ملک کے بدن ملیں۔ کسی طرح سے کمی نہ کریں، ان رسموں سے مجھ کو پرہیز نہیں۔ مذہب سلیمانی میں ہر امر موقوف ہے ایک وقت کا۔ ایک وقت وہ ہوا کہ میں جہاز میں میلا کچیلا تھا۔ ایک وقت یہ ہے کہ نہا رہا ہوں۔ میں ان کو راضی کروں گا خوب سا انعام دوں گا۔ انھوں نے بموجب کہنے کے بدن خوب سا ملا اور اچھی طرح نہلایا۔

بعد فراغت کے ایک اور مکان میں لے گئے۔ اس میں فرش صاف تھا۔ گرد اُس کے تکیے لگے، اس پر بٹھلا کر پوشاک پہنائی۔ مجھ کو اُس سے راحت آئی۔ بعد ایک دم کے تین لڑکے خوب صورت کشتیاں ہاتھ میں لے کر آئے۔ ایک میں قہوہ، دوسرے میں شربت، تیسرے میں قلیاں چپک رکھ لائے۔ فقیر نے شربت اور قہوہ پیا۔ حقہ چپک کا دَم کھینچا۔ پھر ایک خوشبو مانند عطر کے مانگ کر لگائی۔ بتیاں اگر وغیرہ کی جلائی۔ حمام کیا بجائے خود ایک بہشت تھا۔ دل میں خیال آیا اگر شاہدِ شیریں ادا غم زدہ ہو، یہ مقام غیرت دہِ روضۂ رضواں کا ہو۔

دو گھڑی وہاں ٹھہرا، پھر باہر نکل کر کئی روپے حمامیوں کو دے کر بڑے صاحب کے مکان پر آیا۔ نام ان کا ٹن بن صاحب تھا۔ کپتان صاحب جنھوں نے میری تقریب کی تھی وہ بھی موجود تھے۔ جا بجا کی باتیں اور ذکر رہے۔ بعد اس کے میں نے ٹن بن صاحب سے پوچھا کہ یہاں افسران فوج سے تمھاری ملاقات ہے یا نہیں۔ انھوں نے کہا، آگے مجھ سے ان سے بہت دوستی تھی مگر ان کی حرکتوں سے طبیعت کو نفرت ہوئی۔ اس واسطے ان سے ملاقات ترک کی۔ اکثر وہ لوگ میرے مکان پر آ کر شراب برانڈی پیتے اور چپک کے اتنے دم کھینچتے کہ مکان دھویں سے سیاہ ہوتا۔ لا چار میں نے ان سے کنارہ کیا۔ اے عزیزانِ ذی شعور! اگر جناب رسول مقبول اجازت شراب نوشی کی دیتے، یہ لوگ شراب پی کر مست ہو کر کیا کیا فساد برپا کرتے۔ باوجود ممانعت کے یہ حرکتیں کرتے ہیں۔ اگر منع نہ ہوتا خدا جانے کیا فتنہ و غضب نازل کرتے، لڑ لڑ مرتے۔ چنانچہ راہ میں اکثر تُرک دیکھنے میں آئے۔ قہوہ خانوں میں شراب بھی ہوتی ہے اُس کو لے کر پیتے تھے۔

دوسرے دن گدھے پر سوار ہو کر شہر کا تماشا دیکھنے گیا۔ آدمیوں کو میلے اور کثیف کپڑے پہنے پایا۔ اکثروں کو نابینا دیکھا۔ سبب اُس کا یہ قیاس میں آیا کہ اس شہر میں ہوا تند چلتی ہے، مٹی کنکریلی اُڑ کر آنکھوں میں پڑتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگ وہاں کے اپنی اولاد کی ایک آنکھ یا اگلے دانت بخوفِ گرفتاریٔ نوکری فوج محمد علی شاہ کے پھوڑ توڑ ڈالتے ہیں۔ اس عیب سے نوکری بادشاہی سے کہ بدتر غلامی سے ہے، بچاتے ہیں۔ لباس وہاں کے لوگوں کا میرے پسند نہ آیا۔ کثیف اور کالا مانند لباس مشعلچیوں کے تھا۔ قواعد پلٹنوں کی دیکھی، مثل قواعد فوج انگریزی کے تھی۔ ہر ایک سپاہی کے کندھے پر بندوق فرانسیسی۔ سب جوان، جسیم اور موٹے مگر قد و قامت کے چھوٹے۔ کپڑے پرانے، سڑیل پہنے۔ افسر اُن کے بھی ویسے ہی کثیف پوش تھے۔ اگر ایسے لوگ توانا اور قوی فوجِ انگریزی میں ہوں، بادشاہِ روئے زمین کے مقابلہ میں عاجز ہوں اور زبوں۔ مگر یہاں خرابی میں مبتلا تھے، کوئی کسی کو نہ پوچھتا۔

کوئی شخص نوکری فوجِ شاہی میں بخوشی نہیں قبول کرتا ہے۔ شاہِ مصر زبردستی نوکر رکھتا ہے اس لیے کہ خوفِ مضرت و ہلاکت و قلتِ منفعت ہے۔ لوگ اپنی اولاد کو عیبی کرتے ہیں یعنی آنکھ یا دانت توڑتے ہیں تا کہ نوکریِ سپاہ سے بچیں۔ نوکر ہونے کے ساتھی دائیں ہاتھ پر سپاہی کے بموجب حکمِ شاہی کے داغ دیا جاتا ہے۔ پھر عمر بھر اُسی نوکری میں رہتا ہے، ماں باپ عزیز و اقربا کے پاس نہیں جا سکتا ہے۔ چھاؤنی فوج کی مانند گھر سوروں کے مٹّی اینٹ سے بنی۔ ہر ایک کوٹھری میں سوا ایک آدمی کے دوسرے کی جگہ نہ تھی۔ اونچاؤ اُس کا ایسا کہ کوئی آدمی سیدھا کھڑا نہ ہو سکتا۔ کھانے کا یہ حال تھا کہ شام کو گوشت چاول کا ہریسہ سا پکتا، طباقوں میں نکال کر رکھ دیتے۔ ایک طباق میں کئی آدمیوں کو شریک کرکے کھلاتے۔

خیر بندہ تماشا دیکھتے ہوئے باہر شہر کے گیا۔ ایک گورستان دیکھا۔ اُس میں ہزاروں قبریں نظر آئیں۔ دیکھنے والے کو باعثِ حیرت تھیں۔ میں نے لوگوں سے پوچھا اس قدر زیادتیِ قبروں کا سبب کیا۔ دریافت ہوا کہ یہاں اکثر وبا آتی ہے، ہزاروں آدمیوں کو ہلاک کرتی ہے۔ مکینوں کی اُسی سے آبادی ہے۔ اسکندریہ آباد کیا ہوا اسکندر کا ہے۔ وقت آباد کرنے کے ایک بڑا سا پتھر کھڑا کیا تھا۔ اب تلک قائم اور کھڑا ہے۔ راہوں اور کوچوں میں تنگی ہے۔ اس سبب سے بیشتر وبا آتی ہے۔ آدمی وہاں کے مفلس و پریشان اکثر تھے۔ بعضے راہ میں فاقہ مست اور خراب پڑے ہوئے مثلِ سگانِ بازاری ہندوستان کے، دیکھنے اُن کے سے سخت تنفّر ہوا۔ آگے بڑھا، ایک اور پرانا تکیہ دیکھا، وہاں فرانسیسوں نے محمد علی شاہ کی اجازت سے قبروں کو کھودا ہے۔ مُردوں کو شیشہ کے صندوق میں رکھا پایا ہے۔ ظاہراً ہزار دو ہزار برس پہلے مُردوں کو شیشے کے صندوقوں میں رکھ کے دفن کرتے تھے۔ نہیں مردے صندوقوں میں کیوں کر نکلتے۔ اگرچہ عمارت اُس شہر کی شکستہ ویران تھی۔ مگر آبادی زمانۂ سابق سے خبر دیتی۔ کئی وجہوں سے ثابت ہوتا کہ یہ شہر اگلے دنوں میں پُر عمارت اور خوب آباد ہوگا۔ اس واسطے کہ جا بجا اینٹ کا اور پتھر کا نشان تھا۔ زمین کے نیچے سے اکثر سنگِ مرمر نکلتا۔ ان دنوں کئی مکان، کوٹھی فرانسیسوں اور انگریزوں کے خوب تیّار ہوئے ہیں۔ سو اُن کے اور سب مکان ٹوٹے پھوٹے ہیں۔

(تاریخِ یوسفی معروف بہ عجائباتِ فرنگ از یوسف خان کمبل پوش سے انتخاب، یہ سفر نامہ 1847 میں شایع ہوا تھا)

دوران پرواز پائلٹ بے ہوش، آٹو موڈ پر لگا طیارہ گر کر تباہ

0

میڈرڈ: اسپین سے جرمنی کیلئے اڑان بھرنے والا نجی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ ہوگیا ہے، طیارے میں چار افراد سوار تھے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق نجی کمپنی کے طیارے نے اتوار کے روز دوپہر 12 بجکر 57 منٹ پر جنوبی اسپین کے شہر جیریز سے جرمنی کے شہر کولون کے لیے اڑان بھری تھی تاہم منزل پر پہنچے کے بعد جہاز نے لینڈنگ نہیں کی اور مسلسل پرواز کرتے ہوئے جرمنی کی فضائی حدود سے بھی باہر نکل گیا۔

حکام کا کہنا ہے کہ طیارہ ایندھن ختم ہونے تک مسلسل 4 گھنٹے 50 منٹ تک پرواز کرتا رہا اور ایندھن ختم ہونے پر سمندر میں گر کر تباہ ہوگیا، طیارے کے مالک جرمن بزنس مین پیٹر گریسمین تھے اور حادثہ کے وقت وہ، ان کی اہلیہ، بیٹی اور اس کا بوائے فرینڈ سوار تھے۔

ائیر ٹریفک کنٹرول کے رابطہ کرنے پر ڈنمارک کی فضائیہ نے اڑان کے دوران سیسنا طیارے کا جائزہ لیا، ڈنمارک فضائیہ حکام کا کہنا ہے کہ طیارے کے کاک پٹ میں ممکنہ طور پر کوئی بھی موجود نہیں تھا اور پائلٹ سیٹ پر ایک بیگ کی موجودگی پائی گئی۔

فضائی ماہرین کے مطابق طیارہ آٹو پائلٹ پرواز موڈ پر تھا اور اس وقت تک اڑتا رہا جب تک کہ اس کا ایندھن ختم نہیں ہوگیا۔ ممکنہ طور پر کیبن پریشر کے مسائل کی وجہ سے پائلٹ سمیت طیارے کے تمام مسافر بے ہوش ہوگئے تھے، جس کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا ہے۔

’واٹس ایپ چیٹ ’رشتوں‘ کو بچانے میں مددگار؟‘

0

واٹس ایپ چیٹ رشتوں کو بچانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے یہ حیران کن دعویٰ ایک تحقیق کے نتائج کے بعد کیا گیا ہے۔

جرنل نیو میڈیا اینڈ سوسائٹی میں شائق تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ واٹس ایپ ناصرف جوڑوں کے لیے لڑائی اور صلح کا بہترین مقام ثابت ہوسکتی ہے بلکہ چیٹ کے ذریعے رشتوں کو ٹوٹنے سے بھی بچایا جاسکتا ہے۔

محققین کا ماننا ہے کہ واٹس ایپ سے شریک حیات کا نکتہ نظر سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے اور ایموجیز سے جذبات اور غصے کا اظہار زیادہ بہتر ریقے سے کرنا ممکن ہوتا ہے۔

دلچسپ تحقیق میں 35 سے 50 سال کی عمر کے ایسے 18 جوڑوں کو شامل کیا گیا تھا جن کی شادی کو 5 سال کا عرصہ بیت چکا تھا۔

نتائج میں دیکھا گیا کہ جھگڑے کی صورت میں ان جوڑوں کی جانب سے کس طرح کے رویے کا اظہار کیا جاتا ہے جیسے سرد مہری، جذباتی انداز وغیرہ۔

پھر یہ دیکھا گیا کہ یہی جھگڑا میسجنگ ایپ میں کرنے سے تعلق پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ حقیقی زندگی میں جوڑے جھگڑے کے بعد ایک دوسرے سے بات کرنا چھوڑ سکتے ہیں مگر میسجنگ ایپ پر ایک دوسرے کے پیغامات کو کئی بار پڑھتے ہیں تاکہ نکتہ نظر کو سمجھ سکیں۔

محققین واٹس ایپ سے زندگی بھر کے اس رشتے کو مضبوط بنانے کے لیے ایک اضافی پلیٹ فارم مل جاتا ہے۔

یہ بھی بتایا گیا کہ 1960 یا 1970 کی دہائی میں پیدا ہونے والے افراد ڈیجیٹل طریقوں کی بجائے براہ راست بات کرنا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں، مگر ہم نے دریافت کیا کہ ضروری نہیں یہ خیال واقعی درست ہو۔